لاہور: طالبہ کے مبینہ ریپ کے خلاف احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور جھڑپوں میں 27 افراد زخمی

مسلم ٹاؤن کے علاقے میں پنجاب کالج کے سٹوڈنٹس کا احتجاج،کیمپس نمبر 16 کے طلبہ مبینہ طور پر فی میل سٹوڈنٹ سے زیادتی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، اس پر ترجمان ڈی آئی جی آپریشنز کا بھی بیان آیا ہے۔
تفصیلات کےمطابق مسلم ٹاؤن کے علاقے میں پنجاب کالج کے سٹوڈنٹس کا احتجاج جاری ہے، کیمپس نمبر 16 کے طلبہ مبینہ طور پر فی میل سٹوڈنٹ سے زیادتی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، پنجاب کالج کےطلبہ اور سیکورٹی عملہ میں تصادم ہوا، پنجاب کالج کیمپس 10 نزد حفیظ سنٹر تصادم ہوا،ریسکیو1122کی ایمرجنسی گاڑیاں جائے حادثہ پر پہنچ گئیں،ریسکیو اہلکار زخمی طالب علم کو ابتدائی طبی امداد دینے میں مصروف ہیں،ایک طالب علم لڑائی سے شدید زخمی ہوا ہے،زخمی طالب علم کو سروسز ہسپتال منتقل کردیاگیا ۔
احتجاجی طلبہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کیمپس نمبر 10 میں سیکورٹی گارڈ اور وین ڈرائیور نے فی میل سٹوڈنٹ کا زیادتی کا نشانہ بنایا،کالج انتظامیہ اور پولیس معاملے کو دبا رہے ہیں،پولیس اور کالج انتظامیہ احتجاج کرنے والے طلبہ سے مذاکرات کی کوشش کر رہے،پولیس کا کہنا تھا کہ طلبہ کی طرف سے لڑکی سے ذیادتی کے معاملے پر تحقیقات کر رہے ہیں
ریسکیو 1122 کے مطابق مسلم ٹاون میں واقع پنجاب کالج کے باہر پولیس اور طلباء میں تصادم سے 5 طلباء زخمی ہوئے،چار پولیس اہلکاروں کو بھی زخم آئے ،زخمی ہونے والے طلباء اور اہلکاروں کو طبی امداد دی جارہی ہے، اںصاف کا تقاضا کرتے ہوئے طلبا نےسڑک پر آگ بھی لگائی۔
دوسری جانب ترجمان ڈی آئی جی آپریشنز کے مطابق یہ واقعہ کچھ دن پہلے کاہے اور ملزم سکیورٹی گارڈ پولیس تحویل میں ہے،سوشل میڈیا پروائرل خبرکی بھی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی،طالبہ سے مبینہ زیادتی کی تحقیقات جاری ہیں،متاثرہ لڑکی اور اس کا خاندان سامنے نہیں آیا، متعلقہ پولیس اسٹیشن، ون فائیو یا کالج انتظامیہ کو واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں ملی
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ زیر تعلیم طلبہ کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور اس دوران انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔
گلبرگ میں ہونے والا یہ احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد شکل اختیار کر گیا، طلبہ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کرنے کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے، کتابوں اور گیٹ کے داخلی رجسٹر کو پھاڑ دیا اور نجی کالج کے گیٹ توڑ ڈالے۔
اس دوران اسکول کے سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے کچھ طلبہ کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جبکہ کچھ طالبات کو کلاسز میں بند کردیا گیا جس سے ان کی طبیعت بگڑ گئی اور اس تمام پیشرفت سے احتجاج کرنے والے طلبہ مزید بپھر گئے۔
طلبہ نے کالج کے فرنیچر کو روڈ پر رکھ کر آگ لگا دی اور سینکڑوں کی تعداد میں طلبا و طالبات کے احتجاج کے سبب اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہو گیا۔
وزیر تعلیم کی طلبہ کو یقین دہانی
اس دوران حالات پر قابو پانے کے لیے اینٹی رائٹس پولیس کا دستہ بھی کالج پہنچ گیا اور انہوں نے نجی کالج کے باہر سے طلبہ کو منتشر کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لے لیا۔
اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نجی کالج پہنچ گئے اور احتجاج کرنے والے طلبہ کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔
وزیر تعلیم سے گفتگو کے دوران طلبہ نے پولیس کی جانب سے تشدد کی شکایت کی جس پر رانا سکندر نے پولیس کو لاٹھی چارج نہ کرنے کی ہدایات کردی۔
انہوں نے طلبہ کو یقین دہانی کرائی کہ جنہوں نے ثبوت ڈیلیٹ کیے ان اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جائے گی، طلبہ پُرامن احتجاج کریں، میں بھی ساتھ دوں گا۔
وزیر تعلیم کی یقین دہانی پر طلبہ پرامن طریقے سے منتشر ہو گئے۔
کالج کی رجسٹریشن معطل
دریں اثنا، پنجاب حکومت نے کالج کی رجسٹریشن معطل کردی۔
ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن (کالجز) پنجاب نے مزید حکم آنے تک پنجاب کالج برائے خواتین کے رجسٹریشن کو مزید احکامات آنے تک معطل کرنے کا حکم جاری کیا۔
دوسری طرف، پنجاب گروپ آف کالجز کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کالج میں کوئی ریپ کا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں۔
بیان میں مزید کہا گیا’ کالج میں محفوظ اور اچھے ماحول کو یقینی بنانے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔’
ایک اور بیان میں، پنجاب کالج کیمپس 10 کے پرنسپل نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ’غیر مصدقہ منفی پروپیگنڈے‘ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ریسکیو 1122 کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حفیظ سینٹر میں قائم پنجاب کالج کیمپس کے باہر سیکیورٹی حکام اور طلبا کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں 27 افراد زخمی ہوئے جنہیں ریسکیو اہلکاروں نے ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔
تصادم کے نتیجے میں ایک طالب علم شدید زخمی ہوگیا جسے بعد میں سروس ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
تاحال ریپ کے واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی، ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران
بعدازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی آپریشنز) فیصل کامران نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مبینہ متاثرہ بچی اور خاندان کو ڈھونڈنے کی کوشش جاری ہے،سوشل میڈیا پر زیر گردش افواہوں کے برعکس کسی بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں اور کالج انتظامیہ اور طلبا کی مدد سے واقعہ کے حقائق جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام ہسپتالوں کا ریکارڈ اور کالج سی سی ٹی وی ریکارڈنگ چیک کی جا چکی ہے لیکن اب تک کسی مبینہ متاثرہ بچی کی نشاندہی نہیں ہوئی۔
فیصل کامران کے مطابق طلبہ کی کالج کے سیکیورٹی عملے سے مڈبھیڑ میں چند طلبہ کو ہلکی چوٹیں آئیں ہیں اور زخمی طلبہ کو فوری طبی امداد فراہم کی گئی جبکہ لاہور پولیس کالج انتظامیہ اور طلبہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا پر جس سیکیورٹی گارڈ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا وہ پولیس کی حراست میں ہے البتہ کالج کے تمام کیمروں کا ریکارڈ چیک کیا گیا ہے اور تاحال واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ سے مسلسل بات کر رہے ہیں اور کوئی مبینہ متاثرہ بچی کی نشاندہی نہیں کر پایا اور ہم واقعے کے حقائق تک پہنچنے کے لیے طلبہ کی ہر بات کو سن کر تحقیقات کر رہے ہیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز نے طلبہ سے واقعے کی معلومات کے حوالے سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ واقعے سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات لاہور پولیس کے سوشل میڈیا پر ان باکس کر کے ہماری مدد کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ثبوت ملتے ہی فوراً قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا اور کسی بھی قسم کی پیش رفت کی صورت میں فوراً سب کو مطلع بھی کیا جائے گا۔
اب تک پولیس رپورٹ درج نہیں کی گئی، عظمیٰ بخاری
واقعے سے متعلق رد عمل دیتے ہوئے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز واقعے کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال کی رپورٹ حاصل کررہی ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس واقعے سے متعلق کسی کے پاس بھی مصدقہ معلومات ہیں تو وہ حکومت کے ساتھ شیئر کرسکتا ہے۔
عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ اب تک کسی بھی لڑکی نے پنجاب پولیس سے اس حوالے سے رابطہ نہیں کیا جبکہ آج ایک لڑکی کا نام سامنے آیا تھا تاہم اس نام والی تمام لڑکیوں کے گھر جاکر پوچھ گچھ کی گئی ہے لیکن انہیں ایسی کوئی متاثرہ لڑکی نہیں ملی ہے۔
وزیر اطلاعات نے اس واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس جرم کا ملزم سیکیورٹی گارڈ کل سے پولیس کی حراست میں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شناخت ہونے کے باوجود لوگوں کو متاثرہ کے خاندان کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے پوسٹرز یا تصویریں دکھانے سے گریز کرنا چاہیے۔