”پار“کاسفر،ادب کے سفیراورمونجھ کی کونج

تحسین بخاری
9اکتوبرکی صبح مجھے اپنے محبوب سیاسی لیڈرسابق ایم پی اے مخدوم سیدعثمان محمودکی کال آئی۔انہوں نے بتایاکہ نون لیگ کے سابق سینئرمنسٹرملک احمدکے حلقے سے تعلق رکھنے والے ضلع قصورکے لوگوں سے رحیم یارخان میں پندرہ لاکھ روپے کافراڈہواہے، ملک احمدمیرے بہت ہی اچھے دوست ہیں اور انہوں نے بڑی حجت کے ساتھ یہ مسئلہ حل کروانے کے لیے کہاہے، لہٰذاہرصورت میں ان کا مسئلہ حل کروائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے مجھے متاثرہ شَخص نوراللہ کمبوہ کا نمبر بھی بھیج دیا۔میں نے اس نمبرپررابطہ کیاتوانہوں نے بتایاکہ وہ اس وقت رحیم یارخان کچہری میں چودھری جوادالحسن کمبوہ ایڈووکیٹ کے چیمبرپرموجودہیں۔ جوادالحسن کمبوہ ایک سینئراورماہرقانون دان توہیں ہی مگراس سے کہیں بڑھ کروہ انتہائی اچھے اورہمدردانسان بھی ہیں۔ میں فوراً وہاں پہنچ گیا۔ معلوم کرنے پرپتا چلا کہ فرحان بندیشہ اوروسیم باجوہ نامی لوگوں نے ملکر بابابلے شاہ کی نگری کے باسیوں کولوٹ لیاہے۔فرحان کا تعلق رحیم یارخان سے ہے اوریہ جدہ ٹاؤن کارہائشی ہے جبکہ وسیم کاتعلق ضلع راجن پورکے علاقہ عمرکوٹ سے ہے۔
رحیم یارخان کے نواحی علاقہ سردارگڑھ میں انہوں نے رائس مل ٹھیکہ پرلے رکھی تھی۔ سوشل میڈیاپردھان کی خریدو فروخت کا اشتہارجاری کیا۔ نوراللہ کمبوہ نے دیے گئے نمبرپررابطہ کیا، ریٹ طے ہوااورپھر یہ پندرہ لاکھ مالیت کامال لیکرسردارگڑھ پہنچ گئے۔ مل میں مال اتارنے کے بعد نوراللہ کویہ کہہ کررحیم یارخان کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایاکہ اس وقت شام کاٹائم ہے۔ بینک بھی بند ہیں لہٰذاآپ کل صبح اپنی رقم لیکرچلے جانا اورپھریہ لوگ اگلے دن مل کوتالا لگاکر روپوش ہوگئے۔ ساری کہانی سننے کے بعدمیں نوراللہ کولیکرڈی پی او رضوان عمرگوندل کے پاس چلا گیا۔ ہم نے انہیں ساری رام کہانی سنائی توانہوں نے ایس ایچ او رکن پورجام آفتاب کوکال کی اورکہاکہ ان لوگوں کی ریکوری کروائیں۔ لہٰذاہم نے تھانے جاکردرخواست توجمع کروادی تاہم دوستوں نے مشورہ دیاکہ پہلے اخلاقی طورپرکوشش کریں کارروائی کو آخری آپشن پررکھیں۔ فرحان کا پتا چلاکہ وہ کسی اورفراڈکے مقدمے میں جیل میں جاچکاہے تاہم ہم نے وسیم باجوے کا پیچھاکرنے کا فیصلہ کیا، لہٰذاہم نے عمرکوٹ کے اپنے صحافی اورشاعردوست اسلم ساغرسے رابطہ کرکے مشورہ لیاکہ اس ایشو کوحل کروانے کے لیے ہمیں کس سے رابطہ کرناچاہیے توانہوں نے ابراہیم خان مزاری کانام بتایااورکہاکہ وہ بہت ہی اچھے انصاف پرست اوردرددل رکھنے والے نیک سیرت انسان ہیں۔ غلہ منڈی رحیم یارخان کے بزنس مین چودھری منیب کمبوہ کابھی عمرکوٹ کی بزنس کمیونٹی سے بڑاگہرااورپراناتعلق تھا لہٰذاہم نے منیب بھائی کوبھی ساتھ لیااورعمرکوٹ روانہ ہوگئے۔
اقبال آبادسے نظام آبادانٹر چینج، ظاہرپیراورپھربینظیرپل سے ہوتے ہوئے خواجہ غلام فریدکی نگری کی معطر فضاؤں کوچھوکرڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم عمرکوٹ پہنچ گئے۔ اگرشیخ زیدپل چالوہوجائے توہمارایہ ساراسفر محض تیس منٹ سے زیادہ کانہیں تھا مگر پتا نہیں کیوں اس پل کو چالونہیں کیاجارہاحالانکہ پل بھی بن چکاہے دونوں اطراف سے سڑک بھی مکمل ہوچکی ہے صرف پل کے لنک نہ بن پانے کی وجہ سے پار اروار کے لوگوں کا تیس منٹ کا سفر ڈیڑھ سے دوگھنٹے میں طے کرناپڑتاہے۔قاضی راشدکے پاس ہم پہنچے توتھوڑی دیربعدابراہیم مزاری کے بھائی ولی مزاری بھی وہاں پہنچ گئے کیونکہ ابراہیم خان مزاری اپنے رقبے پرگئے ہوئے تھے۔ لطیف مزاری جوکہ میرے بہت پرانے دوست ہیں، وہ بھی آگئے ان سے قریباً پانچ سال بعد ملاقات ہورہی تھی۔ اسلم ساغرکی کمی بہت محسوس ہوئی وہ ابراہیم خان مزاری کے ساتھ نکل چکے تھے تاہم ہمارے ساتھ فون پررابطے میں رہے۔ پنچایت شروع ہوگئی اورتھوڑی دیرکے بحث مباحثے کے بعد وسیم باجوہ نے اقرارجرم کرتے ہوئے رقم کی ادائیگی کے لیے کچھ وقت مانگا۔ پنچایت نے اس سے بطورگارنٹی چیک لیکراسے دوماہ کی مہلت دے دی۔
ہم واپس روانہ ہونے لگے تو قاضی راشد نے بتایاکہ کھاناتیارہے آپ لوگ کھانا کھائے بغیرنہیں جائیں گے اورپھروہ ہمیں اپنے ڈیرے پرلے گئے۔ قاضی راشد نے بڑے ہی شاندارقسم کے کھانے کا اہتمام کررکھاتھا۔ دیسی مرغا، دریاکی تازہ مچھلی اوراس کے علاوہ مزید کئی شاندار کھانے تیارکروارکھے تھے۔ انتہائی لذیذاورشاندارکھانوں سے سجے دسترخوان کومزیدپرلطف بنانے کے لیے ہم نے اپنی صحافتی چابی سے تخیلات کی الماری کھولی اوراس میں سے سیاسی مصالحے کی ڈبی نکال کرچھڑکنے کی حرکت کرڈالی۔اورہم اس حرکت سے بازرہ بھی کیسے سکتے تھے کیونکہ ہم جس علاقے میں موجود تھے سیاسی لحاظ سے یہ خاصا تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ سابق وزیراعظم تمن مزاری، چیف سردارمیربلخ شیرمزاری مرحوم، سابق ڈپٹی سپیکرپنجاب اسمبلی سردارشوکت خان مزاری مرحوم، ایم این اے سردار عاطف خان مزاری مرحوم اور پی ٹی آئی کی حکومت کے مزے لوٹ کراس کی پیٹھ میں چھراگھونپنے اورصوبہ محاذکوبیچ کرڈپٹی سپیکرشپ حاصل کرنے والے میردوست محمدمزاری کاتعلق بھی یہیں سے ہے۔