براہمن کلاس کو سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کے نام پہ بندر بانٹ

عامر محمود بٹ
براہمن ہر نئے وزیراعلیٰ کو اس طرح اپنے حصار میں لے لیتے ہیں کہ وزیراعلیٰ تک اصل حقائق ہی نہیں پہنچتے۔ اگر میڈیا پہ کوئی خبر چل جائے تو بھی براہمن دوسرے براہمنوں کے لیے دفاع کا کام کرتاہے اور یوں چند روز بعد ایک واجبی سی رپورٹ بنا کر پیش کر دی جاتی ہے۔ اس وقت لاہور میں تمام جی او آرز میں اصل الاٹیز اور غیر قانونی رہائش پذیر لوگوں کی تعداد کا تعین کرنا بھی مشکل کام لیکن ناممکن نہیں۔ جس کے لیے ایک غیر جانبدار کمیٹی عمل میں لائی جائے جس میں نسیم صادق جیسے دلیر آفیسر ہوں اور ساتھ ریٹائرڈ جج ہوں جو تمام گھروں کی الاٹمنٹ۔غیر قانونی افراد کی بیدخلی اور الاٹمنٹ پالیسی پہ عمل پیرا کرائیں۔
سرکاری گھروں میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو خود سروس سے ریٹائرڈہو چکے ہیں لیکن اپنے دوست اور عزیز رشتہ دار کے نام پر الاٹمنٹ کرا رکھی ہے، اور ایسے لوگ سرکاری رہائشگاہوں کو غیرقانونی و منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ اگر آپ کے پاس سیاسی، بیوروکریٹ یا پھر سی ایم آفس کی تگڑی سفارش ہو تو گھر کی الاٹمنٹ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔بصورت دیگر یہ ایک خواب ہے اور آپ پکھی واس بن کے بھٹکتے رہیں گے،اور کوئی شنوائی نہ ہو گی۔جب سی ایم آفس کا دباؤ آتا ہے تو فی الفور گھر الاٹ بھی ہو جاتا ہے اور خالی بھی کرا لیا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ گھر کسی پی اے ایس بوائے کو الاٹ ہوا ہو۔اور اگر کسی پی ایم ایس کے آفیسر کو غلطی سے الاٹ ہو جائے تو وہ بیچاروہ گھر خالی کرانے لیے ایک کٹھن جان جوکھوں والے کام میں پڑا رہتا ہے، اس طرح معاملہ قانونی چارہ جوئی/کورٹ میں چلا جاتا ہے۔اور معاملہ ایک طویل عرصے کے لیے لٹک جاتا ہے۔گھروں کی الاٹمنٹ میں بھی دوہرا معیار آخر کیوں کیا؟معین قریشی دور میں شیئرنگ فارمولے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ گھر وں کی الاٹمنٹ بھی شیئرنگ(براہمن،ویش،شودر) کی بنیاد پہ ہو گی۔؟ بہت سے ایسے الاٹیز بھی ہیں جنہوں نے گھر الاٹ کرا کے آگے مختلف لوگوں کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو خود گریڈ 17 میں ہیں اور گھر گریڈ 18 یا 19 والے الاٹ کرا رکھے ہیں۔اس کا مقصد پی اے ایس آفیسرز (برہمنوں) کو نوازنا ہے۔جب تک وہ اس گریڈ میں پہنچتا ہے تو وہ پہلے سے ہی اس گھر میں براجمان ہوتا ہے۔
ایک افسر نے 2013 میں سروس جائن کی تھی اور سرکاری گھر کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن آج تک باری ہی نہیں آئی،کیونکہ نہ تو وہ براہمن تھا، نہ کسی براہمن کیساتھ رشتہ داری تھی اور نہ ہی کسی براہمن کا بھائی، بیٹا، بھتیجا، بھانجا اور دامادتھا،لیکن بعد میں آنے والے بہت سے جونیئرز کو گھر بھی مل گئے اور مل جاتے ہیں۔ وجہ صرف یہ کہ یا تو آپ کی ویلفیئر ونگ میں پوسٹنگ ہو یا پھر سی ایم آفس میں تعیناتی کا مقصد ہی گھر کی الاٹمنٹ اور اچھی پوسٹنگ ہے۔ سرکار کی جانب سے گریڈ 17 یا 18 کے آفیسر کو جتنا ہاوس رینٹ ملتا ہے اتنے پیسوں میں تو آجکل کسی مناسب سے ایریا میں کمرہ بھی کرائے پر نہیں ملتا۔وفاق میں ہاوس ہائرنگ کی پالیسی ہے، لیکن پنجاب میں یہ سہولت میسر نہیں۔البتہ پی اے ایس آفیسرز گریڈ 17 میں دیگر صوبوں میں 5سال گزارنے کے بعد گریڈ 18 میں ترقی ملنے کے بعد پنجاب میں لینڈ کرتے ہیں تو ان کے لیے سب سے پہلے گھر کی الاٹمنٹ اور اچھی پوسٹنگ کی سہولت بہم میسر ہوتی ہے۔(مجاں مجاں دیاں بہیناں) جبکہ پی ایم ایس سروس کے آفیسرزجن کی سروس نازل ہونے والے(براہمنوں) پی اے ایس آفیسرز سے دوگنا یا تین گنا زیادہ ہوتی ہے، ان کے لیے گھر کی الاٹمنٹ اور پوسٹنگ شجرہ ممنوعہ ہوتی ہے۔ ان کو صرف انتظار کرنے کا کہا جاتا ہے۔جہاں پر الاٹمنٹ پالیسی میں ابہام پیدا ہو جائے تو الاٹمنٹ پالیسی میں ترمیم بھی صرف پی اے ایس کے لوگوں کو نوازنے کے لیے منشا کے مطابق کرائی جاتی ہے اور اس بات کا خصوصی طور خیال رکھا جاتا ھے کہ کہیں اس کا صوبائی سروس کے لوگوں کو فائدہ نہ مل جائے۔ اسی طرح پی اے ایس کے لوگ فیلڈ میں سرکاری گھروں کے مزے لیتے ہیں اور ساتھ لاہور میں بھی گھروں پہ قابض رہتے ھیں۔اور اگر صوبائی سروس کا آفیسر ایسا کرے تو پھر ان کو پالیسی یاد آ جاتی ہے اور اس آفیسر کے خلاف انکوائری بھی شروع کر دی جاتی ہے، تاکہ دوسروں کو بھی خبر ہو جائے کہ یہ استحقاق صرف براہمنوں کو حاصل ہے۔ ایسے بہت سے الاٹیز ہیں جو کہ دیگر کیڈر اور محکموں کے لوگ ھیں جو ایس اینڈ جی اے ڈی کے ملازم بھی نہ ہیں ان کو بھی جی او آرز میں گھر الاٹ کر رکھے ہیں۔ ان کی الاٹمنٹ کی اہلیت صرف یہ ہے کہ وہ براہمنوں کے دوست احباب اور عزیز و اقارب ہیں۔ یاکسی بڑے براہمن کے منظور نظر ہیں۔ پنجاب میں براہمن کلاس کب تک اقرباپروری کا کھیل جاری رکھے گی۔دنیا بدل گئی لیکن پنجاب میں براہمنوں کی محدود سوچ نہ بدلی۔
نوٹ:۔ متذکرہ تحریر کے جواب میں کوئی ادارہ یا شخصیت اپنا موقف دینا چاہے، تو ہمارے صفحات حاضر ہیں۔ (ادارہ)