40 لاکھ صارفین کی خفیہ نگرانی کی صلاحیت کے حامل نظام کا انچارج کون ہے، حکومت چھ ہفتے میں رپورٹ دے: اسلام آباد ہائیکورٹ

سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی آڈیو لیکس کیس میں جسٹس بابر ستار نے 29 صفحات کا تفصیلی حکم نامہ جاری کیا ہے۔
حکم نامے میں وفاقی حکومت سے استفسار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت رپورٹ دے کہ ’ لا فل انٹرسپشن مینجمنٹ سسٹم لگانے کا ذمہ دار اورانچارج کون ہے جو شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نگرانی کے لیے شہریوں کی ٹیلیفون کالز کی ریکارڈنگز بادی النظر میں قانونا درست نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم نامے کے مطابق ٹیلی کام کمپنیز آئندہ سماعت تک یقینی بنائیں کہ نگرانی کے نظام تک رسائی نا ہو۔
تحریری حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے یہ سوال بھی ہے کہ آیا ملک میں غیر قانونی نگرانی کی جا رہی ہے یا نہیں؟ اور اگر ایسا کیا جا رہا ہے تو ایسی غیر قانونی کارروائی کا ذمہ دار کون ہے؟
عدالت کے مطابق تقریباً 40 لاکھ موبائل صارفین کی ایک وقت میں کال اور ایس ایم ایس تک رسائی کی جا رہی ہے، موبائل کمپنیوں نے شہریوں کے دو فیصد ڈیٹا تک جو رسائی کا سسٹم لگا کر دے رکھا ہے، بادی النظر میں قانوناً درست نہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دو فیصد ڈیٹا تک رسائی کے سسٹم کو کون استعمال کر رہا ہے اس حوالے سے عدالت کو نہیں بتایا گیا۔ توقع ہے وزیر اعظم خفیہ اداروں سے رپورٹس طلب کر کے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے۔
یاد رہے کہ آٹھ دسمبر2022 کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک ہوئی تھی۔
21 سیکنڈ پر مشتمل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو میں زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی کو گھڑیوں کے بارے میں بات چیت کرتے سنا گیا۔
بشری بی بی نے عدالت میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی ذاتی آڈیو کال کو میڈیا پر توڑ مروڑ کر پیش اور پبلک کیا گیا جس کا مقصد انھیں ہراساں کرنا اور خاندانی زندگی پر منفی اثرات ڈالنا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’جو گفتگو ریکارڈ کی گئی اور سوشل میڈیا پر لیک ہوئی ان کا قومی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں۔‘
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور پی ٹی اے عدالت کو بتا چکے کہ کسی ایجنسی کو سرویلنس کی اجازت نہیں دی، لا فل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم کے حوالے سے غلط بیانی پر پی ٹی اے چیئرمین اور ممبران کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جائے۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ بادی النظر میں وزرائے اعظم ، سیاسی لیڈران ، ججوں اور ان کی فیملی ، بزنس مینوں کی آڈیو ریکارڈنگ سرویلنس کا میکنزم موجود ہے، بادی النظر میں آڈیو ریکارڈنگ کر بعد مخصوص سوشل اکاؤنٹس پر پھر مین سٹریم میڈیا پر آتی ہے۔
عدالت نے حکم نامے میں کہا ہے کہ ٹیلی کام آپریٹرز اور پی ٹی اے کے درمیان خط و کتابت کی تفصیل پی ٹی اے سربمہر لفافے میں جمع کرائی جبکہ ٹیلی کام کمپنیز بھی پی ٹی اے کے ساتھ سسٹم لگانے کی سر بمہررپورٹ جمع کرائیں۔
عدالت نے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیزآئندہ سماعت تک سی ڈی آر، لائیو لوکیشن وزارت داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق شئیر کریں۔
حکم نامے کے مطابق شہریوں کی موبائل فون کالز ریکارڈ کرنے کا سسٹم اتنا جدید اور خودکار ہے کہ ٹیلی کام آپریٹر کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ ان کے کس صارف کی گفتگو سنی یا ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ ٹیلی کام صارفین کی کل تعداد کے دو فیصد کی ہر وقت سرویلنس کی جا سکتی ہے۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ چیمبر میں کچھ دستاویزات دکھانا چاہتے ہیں تاہم چیمبر سماعت کی استدعا مسترد کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ توقع ہے وزیراعظم خفیہ اداروں سے رپورٹس طلب کر کے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے۔
حکم نامے کے مطابق ’وفاقی حکومت چھ ہفتے میں بتائے کون شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتا ہے اور پھر سوشل میڈیا پر ڈیٹا لیک کرتا ہے۔ ذمہ داروں کا تعین کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائِے۔‘
’بادی النظر میں وزرااعظم، سیاسی لیڈرز، ججز، ان کی فیملیز، بزنس مینوں کی آڈیو ریکارڈنگ سرویلنس کا میکنزم موجود ہے، بادی النظر میں آڈیو ریکارڈنگ کے بعد مخصوص سوشل اکاؤنٹس پر پھر مین سٹریم میڈیا پر لائی جاتی ہے۔‘
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ تقریبا ًچالیس لاکھ موبائل صارفین کی ایک وقت میں کال اور ایس ایم ایس تک رسائی ہو رہی ہے،موبائل کمپنیز نے شہریوں کے 2 فیصد ڈیٹا تک جو رسائی کا سسٹم لگا کر کے دے رکھا ہے بادی النظر میں قانوناً درست نہیں۔‘
عدالت کے مطابق ’ قانونی فریم ورک کی تفصیلات جو موجود ہیں اس صورت میں جب نگرانی کی جانی ہے تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کو راز میں رکھا جانا چاہیے۔‘
حکم نامے میں کہا گیا کہ ’قانون کی حکمرانی کا پورا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف شہریوں کو ان قوانین کی طرف توجہ دلانا ہے جن کی انھیں پابندی کرنی چاہیے اور دوسری طرف ریاستی اداروں کی زمہ داری ہے کہ جس طریقے سے انھیں ریاستی اختیار استعمال کرنے کی اجازت عطا کی گئی اسے عوامی اعتماد کے ساتھ ہی استعمال کیا جانا لازم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران چار محکموں نے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی درخواست کی تھی۔
پیمرا پی ٹی اے، ایف آئی سے اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی تھی۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا، ایف آئی اے، پی ٹی اے کی جانب سے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی متفرق درخواستیں خارج کردیں تھیں، عدالت نے پیمرا، پی ٹی اے، ایف آئی اے کی درخواستیں پانچ پانچ لاکھ روپے کے جرمانوں کے ساتھ خارج کر دی تھیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آگئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا۔
مبینہ آڈیو میں حلقہ 137 سے امیدوار ابوذر چدھڑ سابق چیف جسٹس کے بیٹے سے کہتے ہیں کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں، جس پر نجم ثاقب کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن آگئی ہے۔
بشریٰ بی بی اور نجم ثاقب کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے عدالت میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔







