آج کے کالمحافظ محمد قاسم مغیرہ

نواز شریف کی واپسی

حافظ محمد قاسم مغیرہ

میاں نواز شریف خود ساختہ جلاوطنی کے بعد بالآخر وطن واپس پہنچ گئے۔ میاں نواز شریف کی واپسی کے بعد دانش ور بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ نواز شریف سے ایک بار پھر توقعات وابستہ کی جارہی ہیں۔ دانش وروں کی توقعات کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
1۔ دانش وروں کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف گالی کی سیاست کے جواب میں شائستگی کی سیاست متعارف کرائیں گے۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے تو اس میں یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف ایک شائستہ سیاست دان ہیں اور ان کے مخالف گالیاں دیتے ہیں۔ یہ بات حقائق کے برعکس ہے۔ وطن عزیز کی سیاست میں گالی کا رواج قیام پاکستان کے فوراً بعد سے چلا آرہا ہے۔ میاں صاحب کی جماعت اور گالی کی سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ میاں صاحب کی جماعت میں دشنام گو لوگوں کا انبوہ کثیر ہے۔ عطاء تارڑ ، طلال چودہری، جاوید لطیف ، رانا ثناء اللہ اور مفتاح اسماعیل کی گالیاں ریکارڈ کا حصہ ہیں جب کہ جماعت کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مخالفین کی کردار کشی کرنا اس جماعت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ گزشتہ دنوں مریم نواز ایک پریس کانفرنس میں عطاء تارڑ اور طلال چودہری کو دائیں بائیں بٹھاکر کہہ رہی تھیں کہ ہم گالی کی سیاست نہیں کرتے۔ اس وقت جب کہ میاں صاحب اپنے سیاسی کیریئر کی پانچویں دہائی میں داخل ہوچکے ہیں، پنجاب کی وزارت خزانہ ، وزارت اعلیٰ اور تین بار وزارتِ عظمیٰ کا مزہ چکھ چکے ہیں ، اس عمر میں ان سے یہ توقع کرنا عبث ہے۔ ماضی میں بھی ایسی ہی خوش فہمیاں وابستہ کی گئی تھیں کہ میاں صاحب جلاوطنی کے بعد ایک بہتر سیاست دان کے طور پر سامنے آئیں گے لیکن انہوں نے اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھا۔
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
2۔ ایک گروہ کے خیال میں میاں نواز شریف انتقام کی سیاست کے بجائے مفاہمت کی سیاست کریں گے۔ میاں نواز شریف جن حالات میں واپس آئے ہیں ، ان کے مخالفین جیل میں ہیں، کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ہے یعنی انتقام کا عمل تو پہلے سے جاری ہے۔ میاں صاحب کے لیے میدان خالی اور رستہ ہموار ہے۔ میاں صاحب نے طاقت ور طبقات کے احتساب کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے اور کم زور طبقات کے معاملات فوجی عدالتوں کے سپرد۔
انتقام کی سیاست تاحال جاری ہے۔ میاں صاحب کے جلسے سے اگلے ہی دن لاہور کے علاقے کاہنہ میں پاکستان تحریک انصاف کے ایک کنونشن پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور درجنوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایک ہی دن کے فرق سے اتنا بڑا تضاد قانون سے متعلق بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
3۔ کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میاں صاحب کے آنے سے ترقی کا دور ( جو کبھی آیا نہیں تھا) لوٹ آئے گا۔ میاں صاحب کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ پائیدار ترقی کبھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ گورننس کے بحران کے تانے بانے میاں صاحب کے سابقہ ادوار سے ملتے ہیں۔ خاص طور آئی پی پیز سے مہنگی بجلی کے سب سے زیادہ معاہدے نواز شریف کے دور میں کیے گئے۔ ان معاہدوں کا خمیازہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ میاں صاحب کے دور اقتدار میں بھی لوگوں کو علاج کے لیے نجی ہسپتالوں سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔
4۔ ایک گروہ میاں صاحب کی واپسی کو جمہوریت کی فتح قرار دے رہا ہے۔ ملک تو کجا میاں صاحب نے کبھی اپنی جماعت میں بھی جمہوریت متعارف نہیں کرائی۔ انٹرا پارٹی الیکشنز سے ہمیشہ خدا واسطے کا بیر رکھا۔ بلدیاتی انتخابات بھی کبھی ان کی ترجیحات نہیں رہے۔ متبادل قیادت کا خوف پاکستانی سیاست دانوں پہ ہمیشہ طاری رہا۔ میاں صاحب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
5۔ میاں صاحب کی واپسی ان کے بیانیے کی فتح ہے۔ میاں صاحب کا کبھی کوئی بیانیہ نہیں رہا سوائے اس کے کہ نادیدہ قوتیں مجھے ایک بار پھر سہارا دیں۔ جب تک یہ سہارا نہ ملا، احتساب کا نعرہ بلند رہا۔ جوں ہی گرین سگنل ملا،فوراً پتلی گلی سے نکلنے میں عافیت جانی۔ اس لیے میاں صاحب کی اس طرح واپسی نہ صرف ان کے بیانیے کی شکست ہے بل کہ قول و فعل کے تضاد کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے بیانیے کو اسی وقت شکست ہوگئی تھی جب عمران خان کی حکومت کے آغاز میں ہی مسلم لیگ نون نے نادیدہ قوتوں سے رابطے شروع کر دیئے تھے۔
6۔ کچھ خوش خیال لوگ میاں صاحب سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ اب سیاسی کلچر بدلے گا۔ میاں صاحب کی واپسی سے سیاسی کلچر بدلنے کی توقع بھی عبث ہے۔ میاں صاحب کے جلسے کو کام یاب بنانے کے لیے ملک بھر سے دیہاڑی پر لوگوں کو اکٹھا گیا۔ سرکاری وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ اشتہارات کی مد میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ آغاز ہی بتارہا ہے کہ آئندہ سیاسی کلچر کیا ہوگا۔
7۔ میاں صاحب کی واپسی کو کچھ لوگ ان کے صبر کا کرشمہ قرار دے رہے ہیں۔ اتنے صبر کے بعد بھی مسلم لیگ نے عوام سے رجوع کرنے کے بجائے نادیدہ قوتوں پر انحصار کرنا مناسب سمجھا۔ یہ سہارے عارضی اقتدار تو بخش سکتے ہیں لیکن یہ بڑے ناپائیدار ہوتے ہیں۔ کسی بھی وقت سیڑھی کھسک سکتی ہے۔ بیساکھی چھن سکتی ہے۔ انہی رویوں نے جمہوریت کی گاڑی کبھی پٹری پر چڑھنے نہیں دی۔
8۔ یہ آئین اور قانون کی فتح بھی نہیں ہے۔ سیاست میں میاں صاحب کی دوبارہ واپسی کے لیے آئین اور قانون کو بری طرح پامال کیا گیا۔ مسلم لیگ نون نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ جب سامنے صرف محدود اور وقتی اہداف ہوں تو ترجیحات ایسی ہی ہوتی ہیں۔ دور اندیشی کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ فی الحال دور اندیشی مسلم لیگ نون کے پیش نظر نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button