ظفر اقبال کی ادبی خدمات

شکیل امجد صادق
ظفر اقبال 27 ستمبر، 1933ء کو بہاولنگر، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چک نمبر 49/3Rضلع اوکاڑہ کے ایک معزز زمیندار تھے۔ ظفر اقبال نے ابتدائی تعلیم بہاولنگر سے حاصل کی اور میٹرک ایم سی ہائی سکول اوکاڑہ سے 1950ء میں کیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایف سی کالج لاہور اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ظفر اقبال نے ایل ایل بی کا امتحان لا کالج جامعہ پنجاب سے پاس کیا۔وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس شروع کر دی۔ وہ ایک بار اوکاڑہ ایسوسی ایشن اور دو مرتبہ پریس کلب اوکاڑہ کے صدر بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے قومی سیاست میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ 1977ء کے انتخابات میں ظفر اقبال نے نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے راؤ خورشید علی خاں (پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار) کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
پرائمری کے دوران ان کی طبیعت شاعری کے لیے موزوں ہو چکی تھی، کیونکہ ان کے استاد نور احمد انجم قریشی جو خود بھی شاعر تھے بچوں کو بطور املا اشعار لکھ کر دیتے۔ ظفر اقبال آٹھویں جماعت تک کلیات میر اور دیوانِ غالب کا بھرپور مطالعہ کر چکے تھے۔ شفیق الرحمن کی تحریریں پڑھ کر ان کے اندر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ انہوں نے غزل کے پیرائے میں فنی اور موضوعاتی سطح پر روایت شکنی کے حوالے سے اپنی ایک الگ اور بھرپور پہچان بنائی۔ اْن کے پہلے شعری مجموعے آب رواں کو عوام اور خواص، ہردو حلقوں میں بے حد پزیرائی ملی۔ اس کے بعد انہوں شعری تجربات کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے بام عروج تک پہنچایا۔ 1973ء میں انہوں نے پہلا کالم سرور سکھیرا کے پرچے دھنک کے لیے لکھا۔ ان کے مختلف اخبارات میں ”دال دلیا“ کے نام شائع ہونے والے ان کے کالم بھی اپنے قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔
ظفر اقبال 16 فروری،1995ء سے یکم مارچ، 1997ء تک اردو سائنس بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ظفر اقبال کے ادبی اثاثے میں ”خشت زعفران“،”ہرے ہنیرے“،”آبِ رواں“،”گل آفتاب“،”رطب و یابس“،”سرِعام“،”نوادر“،”تفاوت“،”غبار آلود سمتوں کا سراغ“،”عیب وہنر“،”وہم وگمان،”اطراف،”تجاوز“،”تساہل“،”ہنومان“اب تک‘ (کلیات کے 5 حصے) شامل ہیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا ہے۔یہی نہیں اب اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ملک کا سب سے بڑا ادبی انعام ممتاز شاعر ظفر اقبال کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ انعام کی مالیت دس لاکھ روپے ہے۔2021ء کے ”کمال فن ایوارڈ“ کا فیصلہ معتبر اور مستند اہل دانش پر مشتمل مصنفین کے پینل نے کیا جس میں منیر احمد بادینی، پروفیسر ڈاکٹر نذیر تبسم، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، محترمہ ثروت محی الدین، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی، محترمہ پروفیسر مسرت کلانچوی، ڈاکٹر ادل سومرو، مبین مرزا، ڈاکٹر روبینہ شاہین، محمد قاسم نسیم، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اور افضل مراد شامل تھے۔اجلاس کی صدارت منیر احمد بادینی نے کی۔
”کمال فن ایوارڈ“ کا اجراء 1997ء میں کیا گیا تھا۔اب تک احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین،مشتاق احمد یوسفی، احمد فراز،شوکت صدیقی، منیر نیازی، ادا جعفری،سوبھو گیان چندانی،ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جمیل الدین عالی، محمد اجمل خان خٹک، عبداللہ جان جمالدینی، محمدلطف اللہ خان، بانو قدسیہ، محمد ابراہیم جویو، عبداللہ حسین، افضل احسن رندھاوا، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، امر جلیل، ڈاکٹر جمیل جالبی، منیراحمد بادینی اور اسد محمد خاں کو ”کمال فن ایوارڈ‘ دیے جا چکے ہیں۔