آج کے کالمتحسین بخاری

شیخ رشیدکا”چلے“کے بعدانٹرویو

تحسین بخاری

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیدکاشمارپاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتاہے۔انہیں پاکستانی سیاست کا برگزیدہ درخت کہاجائے توغلط نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی بہترسالہ زندگی میں بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں۔پہلے بھی”تبلیغی“جماعت کے ساتھ انہیں وقت گزارنا نصیب ہوالیکن اس بارتوانہوں نے پورا”چلہ“ہی لگادیا۔
میری ان سے کوئی بالمشافہ ملاقات تونہیں ہے کیونکہ میں پنجاب کے آخری ضلع رحیم یارخان، پسماندہ ترین ضلعے کارہائشی ہوں۔شایدمیں لاہور،یااسلام آبادسے اپنے صحافتی کیرئرکاآغازکرتاتوآج میں بھی حسن نثار، حامدمیر، ارشادعارف، رؤف کلاسرا، عمران ریاض، سمیع ابراہیم کی طرح مین سٹریم میڈیاکاحصہ ہوتامگر پسماندہ علاقے کاباسی ہونے کی وجہ سے میں اپنے تیس سالہ صحافتی کیریئر کے باوجودصرف تحسین بخاری ہی بن سکاتاہم مجھے تحسین بخاری ہونے پرہی فخر ہے۔ جتناہوسکتاہے میں اپنے وسیب کی محرومیوں وسیب کے دکھ دردپرآوازاٹھاکردھرتی ماں کاقرض اتارنے کی جستجومیں لگارہتاہوں۔
ہمارے وسیب کے سیاسی جاگیردارابھی جتنی اہمیت لاہوریااسلام آبادکے صحافیوں کودیتے ہیں اتنی ہمیں نہیں دیتے حلانکہ ان پرجب تخت لاہورشکنجہ کستاہے اوران کی چیخ نکلتی ہے توپھرہم وسیبی صحافی ہی انکاسہارابنتے ہیں۔
شیخ رشیدصاحب سے فون پرمیرااکثررابطہ رہتاہے، یہ میری خوش بختی ہے کہ وہ میرے قارئین کی فہرست میں شامل ہیں۔نہ صرف وہ میراکالم پڑھتے ہیں بلکہ فیڈبیک بھی دیتے ہیں۔
”چلے“کے بعد انہوں نے ایک ٹی وی چینل کواپناپہلا انٹرویودیاجس میں ان کی آنکھوں، ان کی آوازاوران کے چہرے پر”چلے“کے واضح اثرات نظرآرہے تھے۔ ان اثرات کاانہوں نے اعتراف بھی کیااورساتھ یہ بھی کہاکہ انکا خیال بھی رکھاگیاہے۔اگرواقعی انکاخیال رکھاگیاہے تویہ یقینااچھی بات ہے۔کیونکہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے کارکن یاراہنماسے سیاسی غلطی ضرورہوسکتی ہے مگروہ نہ تودہشت گردہوسکتاہے ناہی غدار۔پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اگر کسی سیاستدان پربراوقت آتاہے تو اس کے پیچھے بھی کسی مخالف سیاسی پارٹی کا ہاتھ ہوتاہے۔
جب ایک پارٹی زیرعتاب ہوتی ہے تودوسری تالیاں بجارہی ہوتی ہے، اقتدارکی خاطرہمارے ملک کے سیاستدان ہرحدکراس کرجاتے ہیں جوکہ انتہاء غلط بات ہے۔
ہم ہرالزام اسٹیبلشمنٹ پرلگاتے ہیں مگریہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو پارٹی اقتدارسے باہرہوتی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کوناصرف مقتدرپارٹی کے خلاف اُکساتی ہے بلکہ پاؤں پکڑکرترلے کرتی ہے کہ مقتدرپارٹی کوہٹاکرانہیں اقتداردلوانے میں مدددی جائے، اس مددکے بدلے میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہرشرط پوری کرنے کوتیارہوتے ہیں اوریوں اسٹیبلشمنٹ کومداخلت پرمجبورکیاجاتا۔اسٹیبلشمنٹ کی منت کرکے اقتدارمیں آنیوالی پارٹی جب اقتدارکی کرسی سے اُترتی ہے تواسٹیبلشمنٹ کوبرابھلاکہناشروع کردیتی ہے اور یہی پریکٹس پچھلے پچہتربرسوں سے دہرائی جارہی ہے۔میں نے ایک دفعہ پیپلزپارٹی ساؤتھ پنجاب کے صدرمخدوم احمدمحمود سے سوال کیاکہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کیسے ختم ہوسکتی ہے تو انہوں نے کہاکہ اسٹیبشلمنٹ کو سیاست میں مداخلت کے لیے خودسیاسی جماعتیں ہی مجبورکرتی ہیں۔سیاستدان آج کرپشن سے توبہ کرلیں تو مجال ہے کہ اسٹیبشلمنٹ مداخلت کرسکے۔
شیخ رشیدکے اندربحیثیت سیاستدان بہت سی خوبیاں اورخامیاں ہوسکتی ہیں تاہم ایک بات طے ہے کہ وہ انتقامی سیاست دان ہرگزنہیں۔
وہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی ہمیشہ حامی رہے۔اس باراسٹیبلشمنٹ اور ان کے درمیان بداعتمادی کاجو ماحول پیداہواوہ صرف عمران خان سے وفاداری نبھانے پرہوا، اوراسی وفاداری کی خاطرانہیں ”چلہ“کاٹناپڑگیا۔
شیخ رشید جب سے”چلے“پرگئے ہوئے تھے، تب سے طرح طرح کی باتیں بھی سننے کو آرہی تھیں کہ شیخ صاحب عنقریب پریس کانفرنس کرنیوالے ہیں،جس میں وہ عمران خان کے خلاف ہوشرباانکشافات کریں گے لیکن خودکوجس طرح اصلی اور نسلی کہتے تھے ویساانہوں نے ثابت بھی کیااورعمران خان پر ان کے اپنے بغل بچوں کی طرح کوئی بہتان تراشی ہرگز نہ کی۔وہ اگرچہ پی ٹی آئی کے محض اتحادی تھے، پی ٹی آئی کا حصہ نہ تھے، اس کے باوجود وہ کم از کم پی ٹی آئی کے ان لوگوں سے لاکھ درجہ بہترنکلے جنہوں نے عمران خان کی کمر میں چھراگھونپا۔پی ٹی آئی کے بہت سے لوگوں نے جبری حالات کے ہاتھوں مجبورہوکرپارٹی کو چھوڑاضرورمگر پرویز خٹک، فیصل واوڈا،فیاض چوہان،علیم خان اور فرخ حبیب کی طرح عمران خان پربہتان تراشی نہیں کی۔شیریں مزاری، فوادچودھری، ابرارالحق، اسدعمر، ملائکہ بخاری، عثمان ڈار اور عامرنوازچانڈیہ نے مجبور ہوکر پارٹی سے علیحدگی ضروراختیارکی تاہم انہوں نے عمران خان پر کوئی الزام ہرگزعائدنہ کیا۔اب اگرپی ٹی آئی کے جولوگ یہ کہہ کر عمران خان کی پیٹھ میں چھراگھونپنے والوں کادفاع کرتے ہیں کہ جان ہے توجہان ہے انہوں نے جان بچانے کے لیے ایسا کیاتومیراان سے سوال ہے کہ جنہوں نے بہتان تراشی کے بغیرعمران خان سے اپنی راہیں خاموشی کے ساتھ جداکرلیں کیا اسٹیبلشمنٹ نے انہیں پھانسی چڑھایادیاہے۔
مگربات وہی ہے شیخ رشیدوالی کہ جواصلی اورنسلی ہوتاہے وہی نبھاجاتاہے۔مجبوری کے پیش نظر کسی سے راہیں جداکرنا اتنا بڑاجرم نہیں جرم تویہ ہے کہ علیحدگی کے بعدکسی پرالزام تراشی شروع کردینا۔
تاہم اس حوالے سے شیخ رشیدنے اصلی اور نسلی ہونے کا ثبوت پیش کیاہے، اس نے عمران خان پرکوئی الزام عائد نہ کیا، نہ ہی کوئی ایسی بات کی جس سے ان کی شخصیت یاانکے سیاسی کیریئرپرمنفی اثر پڑتا۔ان کی بندوق کارخ پی ڈی ایم کی طرف آج بھی اسی طرح ہے جس طرح”چلے“سے پہلے تھا۔ اپنے انٹرویومیں وہ بہت سی باتیں نہ کہہ کربھی کہہ گئے۔ان کی گفتگومیں چھپی خاموشی،ان کی بے بسی کوبیان توکررہی تھی تاہم انہوں نے جکڑے ہاتھوں کے باجودکوئی ایسی بات نہ کی جو کسی کی چاپلوسی کوظاہرکرتی یاپھر کسی کی پیٹھ میں خنجر ثابت ہوتی۔اس انٹرویوکے دوران انہوں نے سب سے اچھی بات جو کی اور جس نے پریشانیوں کی آگ میں سلگتی عوام کے سینے پرٹھنڈ بھی ڈالی وہ یہ تھی کہ وہ آرمی چیف سیدعاصم منیرسے سے مل کر 9مئی کے الزام کی وجہ سے پابند سلاسل لوگوں کے لیے عام معافی کی درخواست کریں گے۔ اگراس میں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کاوش ہوگی کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کی عوام ملک میں گھٹن زدہ ماحول محسوس کررہی ہے۔اس حبس زدہ ماحول سے ملک کی سانس بھی رک رک کر چلتی نظرآتی ہے۔معیشت کی تباہی سے ملک کا عام آدمی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بھوک افلاس بے روزگاری سے تنگ آکر لوگ خود کشیاں کررہے ہیں۔شیخ رشیدکو چاہیے کہ وہ اس پرسنجیدگی سے کوشش کریں۔اپنے زرائع کو استعمال کرتے ہوئے جی ایچ کیو جائیں اورحبس زدہ ملکی ماحول کوسازگاربنانے میں اپناکرداراداکریں۔ تو امیدہے کہ آرمی چیف سیدعاصم منیرصاحب بھی فتح مکہ کے موقع پرہونے والی عام معافی کی سنت کوزندہ کرتے ہوئے فراخدلی کا مظاہرہ کریں گے۔
کیونکہ شیخ صاحب اب”چلہ“بھی کاٹ چکے ہیں تواب ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔یہ کوشش شایدبہت سے دلوں پرگراں گزرے اور ہوسکتاہے اس میں روڑے بھی اٹکانے جائیں تاہم اس ملک کا حبس زدہ ماحول سے نکلناملک اورقوم دونوں کے لیے ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button