میاں نوازشریف کا قابل عمل خطاب

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا وطن واپسی کے بعد مینار پاکستان کے مقام پر خطاب تمام حلقوں میں زیر بحث ہے، خصوصاً یہ باتیں کہ ریاستی اداروں، جماعتوں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ میرے دل میں انتقام کی کوئی تمنا نہیں، صرف ایک تمنا ہے عوام کے گھروں میں خوشیاں آئیں۔ باعزت پاکستانی ہو، جہالت نہ ہو۔ آج مشرقی پاکستان ترقی میں آگے نکل گیا، ہم نے اس صورتحال سے باہر نکلنا ہے۔ ہم نے اپنے معاملات ٹھیک طریقے سے چلانا ہیں۔ میاں نوازشریف کے مفصل خطاب میں انہوں نے اپنے ساتھ، اپنے خاندان، پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ماضی میں ہونے والی کارروائیوں پر بھی بات کی لیکن اُن کا زیادہ زور انہی نکات پر رہا کہ ریاستی اداروں، جماعتوں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ نواز شریف تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں اس سے پہلے وہ وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر خزانہ پنجاب جیسے منصب پر بھی رہ چکے ہیں، میاں نوازشریف نے سیاسی سفر میں ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے، شہید محترمہ بینظیر بھٹو ان کی بڑی سیاسی حریف تھیں، میاں نوازشریف کوماضی میں اُن سے متعلق عدالتی فیصلوں پر بھی اعتراض رہا، اُن کی حکومت کا خاتمہ کرکے مارشل لاء بھی آیا غرضیکہ قومی سطح اور صف اول کے سیاست دان کو وہ تمام مصائب دیکھنا پڑے جس کا انہوں نے اپنے خطاب میں ذکر کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ترقی میں یہی بنیادی رکاوٹ ہے کہ ہم ملک و قوم کے مفاد کی بجائے اپنے یعنی انفرادی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں، اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی انتقام کی آگ بجھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا جب مخالفین برسراقتدارآتے ہیں تو یہی روش وہ اپناتے ہیں یوں ملکی و قومی مفاد دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے، دنیا آج کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، بنگلہ دیش ہمارا ہی لخت جگر تھا لیکن وہ اب اُس نے اپنی الگ پہچان لے لی ہے، اِس کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں ہورہا ہے مگر ہم سیاسی مخاصمت سے باہر ہی نہیں نکل رہے۔ ایک دور تھا جب بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان اہم قومی معاملات پر سیاسی شخصیات کو ایک میز پر بٹھالیتے تھے اور اُن کا احترام تھا کہ قومی مفاد میں سیاسی مخالفین بھی بھلے وقتی طور پر، مگر مل بیٹھتے تھے یوں ایک بحران جنم لیتے ہی ختم ہوجاتا تھا مگر اُن کے انتقال کے بعد شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے جو بلاشبہ خوش آئند بات تھی مگر سیاسی جماعتیں اس میثاق کو کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں اور اب پھر وہی مخالفت برائے مخالفت کی سیاست چل رہی ہے، سیاست دان اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے، حالانکہ انہیں نظرآتا ہے کہ اُن کا ملک ترقی میں پڑوسی ممالک سے بہت پیچھے ہے، مگر ملک و قوم کے بہترین مفاد میں مل بیٹھنا شاید گناہ سمجھا جاتا ہے، اچھے بھلے چلتے معاملات کو متنازعہ بناکر سیاست کی نذر کردیاجاتا ہے یوں ملک و قوم وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے ہیں کیونکہ ایک بحران سے بمشکل باہر نکلتے ہیں تو دوسرا بحران اپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے، کون نہیں جانتا کہ پاکستان کا عالمی برادری میں اِس وقت کیا مقام ہے، ہماری کتنی اہمیت ہے، ہمارے سبز پاسپورٹ کو دنیا بھر میں کتنی اور کیسے عزت دی جاتی ہے، عوام کا معیار زندگی کیا ہے، عامۃ الناس اوراشرافیہ کے طرز زندگی میں کتنا فرق پیدا ہوچکا ہے، یہ ساری چیزیں ہر ذی شعور جانتا ہے، سیاست دان بھی اپنے خطابات میں یہی باتیں دھراتے ہیں مگر وہ ان کے لیے یا تو عملی اقدامات نہیں کرتے یا پھر انہیں کرنے نہیں دیئے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس بنیادی مرض کی وجہ سے ملک بار بار حادثے کا شکار ہوجاتا ہے، کیا دنیا نہیں دیکھتی کہ ہم اپنا ملک کیسے چلارہے ہیں؟ ہماری نیک نامی اور طرز سیاست کسی سے مخفی ہے؟ ایسا قطعی نہیں کہ عالمی برادری ہمارے داخلی معاملات سے لاعلم ہے، بلکہ وہ ہمارے اسی طرز عمل کا فائدہ اٹھاکر ہمیں زمین پر بٹھاتے ہیں، ہمارے لیے احکامات جاری کیے جاتے ہیں جن کو ماننا ہمارے لیے لازم ہوتا ہے وگرنہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، آج پاکستان کو داخلی اور خارجی لحاظ سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے، اپنی غلطیاں سدھارنے کے لیے، عوام کی غربت دور اور روزگار عام کرنے کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہیے، یہ کون نہیں جانتا مگر پھر بھی ہم غلطی پہ غلطی دھراتے ہیں۔ چونکہ میاں نوازشریف ملک کے سنیئر ترین سیاست دان ہیں وزارت اعظمیٰ اور اِس کے چیلنجز سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا اُن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی قیادت کو سیاسی ہیجان اور مخاصمت ختم کرکے ملک و قوم کے لیے متحد و متفق کریں، سیاست دانوں نے سیاسی کھیل میں جھوٹے مقدمات اور جیلوں کو معمول بنالیا ہے، مگر یہ ضروری تو نہیں کہ جس کا اقتدار ختم ہو اس کے لیے جیل میں کوٹھڑی خالی کرادی جائے اور مقدمات قائم کرکے اُس کو الجھائے رکھا جائے۔ سیاست دانوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ سیدھے معاملات کو سیدھے طریقے سے ہی چلائیں اب وقت بدل چکا ہے اب بات نعروں سے آگے بڑھ کر عمل تک آن پہنچی ہے، لوگ جمہوری نظام سے لاتعلقی اختیار کرنے لگے ہیں یا پھر اپنے نظریات بدلنے پر مجبور ہوچکے ہیں، اعدادو شمار دیکھیں تو قریباً چالیس فیصد پاکستانی انتخابی عمل سے دور رہتے ہیں اور وہ ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکلتے اسی طرح وہ ووٹرز بھی ہیں جنہیں بضد گھر سے نکال کر پولنگ سٹیشن تک لایا جاتا ہے، یہ ساری چیزیں جمہوریت اور جمہوری قوتوں کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہئیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی رہنما اب جان جاچکے ہیں کہ لوگ اب تقاریر اور وعدوں سے نہیں بہلتے بلکہ ملک کے داخلی حالات اور معاشی میدان میں غلطیوں نے لوگوں کو جگایا ہی نہیں بلکہ جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اب لوگ عمل ہوتا اور اس کے اثرات نظر آنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ پاکستان کی تمام جمہوری قوتیں جو ملکی سیاست میں شروع سے فعال ہیں ان کے لیے سیاست اِس لیے بھی مشکل ہوگئی ہے کیونکہ ہم ترقی میں ہمسایہ ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ سعودی عرب جتنی مالیت کا تیل فروخت کرتا ہے، بھارت سے کہیں زیادہ مالیت کے سافٹ ویئر فروخت کرتا ہے، مگر ہمارے پاس ہے کیا جو ہم بیچیں، مہنگی ترین بجلی اور گیس نے انڈسٹری کی تالہ بندی کرادی ہے، آئی ایم ایف جیسا ادارہ کہتا تھک گیا ہے کہ متوسط پاکستانی عوامی کوریلیف دیں اور اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لائیں مگر ٹیکسوں کا سارا بوجھ متوسط طبقے پر منتقل کردیا جاتا ہے اوراشرافیہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے، ہمارے یہاں ایک پارٹی آئینی مدت پوری کرہی نہیں سکتی، کیونکہ انتخابات کے نتائج مکمل ہوتے ہی پیچھے رہ جانے والے انتخابی عمل کو متنازعہ بنادیتے ہیں اور تب تک منتخب حکومت کے خلاف سڑکوں پر رہتے ہیں جب تک اِس کو اقتدار سے الگ نہیں کردیا جاتا، بالکل ایسا ہی نئی حکومت کے ساتھ ہوتا ہے، انتخابات کے نتائج متنازعہ اور رابطہ عوام شروع۔ سیاست دان خود ہی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے اور اگر انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجائیں تو پھر وہ سارے انتخابی عمل کو ہی متنازعہ بنادیتے ہیں، اسی تسلسل میں اداروں کی ساکھ بھی خراب کی جاتی ہے۔ کوئی بڑے دل کے ساتھ اپنی شکست قبول نہیں کرتا، اپنی سیاسی غلطیوں پر غور نہیں کرتا جن کی وجہ سے ووٹر دوسری پارٹی کی طرف راغب ہوتے ہیں، یوں سمجھ لیجئے کہ ہر پارٹی کا نظریہ یہی ہے کہ وہ قیام پاکستان سے ہر بار منتخب ہوتی رہی خواہ وہ ملک و قوم کے معاملے میں کتنی ہی سنگین غلطیاں کیوں نہ کرچکی ہو۔ جہاں تک اداروں اور ریاست کے ستونوں کی میاں نوازشریف نے بات کی ہے تو ہر سیاسی پارٹی کو ریاستی اداروں اور ستونوں کے معاملات کو سیاسی مفادات سے بالا ہوکر دیکھنا چاہیے، ہراہم ادارے کی سربراہ شخصیت کا جیسے ہی نام تجویز ہوتا ہے ساتھ ہی اُن کو متنازعہ بنانے کے لیے پراپیگنڈا شروع کردیاجاتا ہے، یہ طرز عمل سراسر غیر جمہوری ہے۔ بہرکیف ایسا نہیں ہے کہ سیاست قیادت کو اپنی غلطیوں کا ادراک نہیں تھا یا نہیں ہے، سیاسی قیادت ملک کا عالمی برادری میں مقام نہیں جانتی یا پھر عام پاکستانی کی اجیرن زندگی سے واقف نہیں ہے، سبھی کچھ ہمارے سامنے ہے، مرض بھی، اس کی درست تشخیص بھی اور علاج بھی لیکن شرط یہ ہے کہ معالجین اُلجھنے سے گریز کریں بلکہ اِس مرض کے خاتمے کے لیے اپنے اپنے ذمے کا کام کریں۔