آج کے کالمظفر اقبال ظفر

کالم نگار

ظفر اقبال ظفر

(کالم) اخباری صفحے کا صحافتی جز وہوتا ہے جس میں ہر کالم نگار اپنے مخصوص انداز میں تحریریں لکھتے ہیں،کالم لکھنے والے کا زاتی اداریہ اظہاریہ جستجوہوتا ہے جس کے لیے وسیع مطالعہ مشاہدہ ہونا ضروری ہے کالم نگاری عصری شعور کا نثر کے زریعے جمالیاتی اظہار ہے، کالم نگار سماج کے کڑوے تلخ کسیلے مسائل کو ناصرف ارباب اختیار اور عوام تک پہنچاتا ہے بلکہ اپنی تجرباتی تحقیقاتی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کا حل بھی پیش کرتا ہے جو عوامی ملکی مفادات پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اصلاحی نتاظر کا رخ شامل حال ہوتا ہے اس میں زاتی رائے کے ساتھ ساتھ ریفرنس اور مثالیں بھی تحریری حسن کا حصہ بنتی ہیںروزمرہ کے حالات و واقعات دلکش پیرائے میں لکھنے کا قلمی فن بھی کالم نگاری کا حصہ ہے جس میں کسی دقیق موضوع کو عمدہ الفاظ میں تحریر کرکے قابل توجہ بنایا جاتا ہے کالم ایک ہزار سے بارہ سو الفاظ تک ہوتا ہے اور یہ اخبار میں لگتا ہے میگزین میں نہیں۔
کالم کے بارے میں مزید کہا جائے تو یہ بنیادی طور پر ایک وہ زاتی رائے ہوتی ہے جسے تاریخی تناظر میں تنقید یا تائید کسی اقدام کی عملی استد لال پر بحث کسی مستقبل میں ہونے والی پیشرفت پر رائے زنی۔بنیادی طور پر ایک علمی اور عقلی استدلال بھی کہا جا سکتا ہے۔ہر کالم والے اخبار کے صفحے کو سامنے رکھیں تو سیدھے ہاتھ پر شروع میں آپ کو اداریہ کا حصہ ملے گا جیسے زیادہ تر کالم کی اشاعت کے انچارج ایڈٹیوریل ایڈیٹر لکھتے ہیں اور یہ حالات وحاضرہ کے کرنٹ ایشو پر مبنی ایک نچوڑکن لفظی خزانہ ہوتا ہے جیسے اس کے پورے اصولوں پر لکھا جائے تو اس کے پڑھنے والوں کے لیے کالم نگار بنناکوئی مشکل بات نہیں رہتی اداریہ سیکھنے، سمجھنے اور لکھنے کے لیے بھی مدد کن مواد ہوتا ہے چھوٹے اخباروں میں کالم لگوانے کے لیے تھوڑی سی کوشش سے بڑے موقع مل سکتے ہیںمگر بڑے اخباروں میں کالم لگوانے کے لیے چھوٹے موقع بھی آسانی سے نہیں ملتے۔ مجھے زاتی طور پر دوسرے ممالک میں اردو اخبار میں کالم لگوانے کے لیے عزت بھری درخواست پر حوصلہ افزائی کے جذبے سے سرشار اشاعت کا موقع مل رہا ہے اور پاکستان میں ایسے بھی مرد ملے جو میری تحریر جاندار ہونے کی بنا پرمیرے فیس بک اکاونٹ میں میرے ساتھ منسلک بااختیار صاحبان اسے کاپی کرتے اور میرے نام کے ساتھ شائع کرکے مجھے لنک سینڈ کر دیتے اور یہی لوگ اصل میں قلمی اور لفظی فروغ کا زریعہ ہوتے ہیںاسی لیے میں ہمیشہ ان ہستیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔آپ لکھنا چاہتے ہیں تو کالم اچھا آغاز ہے۔غلطیوں سے خوفزدہ نہ ہوں آپ لکھیں گے تو آپ کی غلطیاں ہی آپ کے لیے اصلاح کروانے والے لوگ سامنے لے آتی ہیں۔
اب آتے ہیں (مضمون)کی طرف تومضمون طے شدہ موضوع پراس کی مکمل جزیات اور حوالوں کے ساتھ دستاویزی حقائق کی فراہمی پر مبنی ہوتا ہے جسے کسی عنوان کا معلوماتی تعارف بھی کہا جا سکتا ہے جس میں تحقیقاتی انداز میںنہایت سنجیدہ لفظی موادجو ریسرچ پر مبنی ہو اسے پیش کرنا ہے۔مضمون کے الفاظ دوہزار تک ہوتے ہیںمضمون سدا بہار تحریر بھی ہوتی ہے جیسے کسی دور میں بھی لکھاجائے تو اس کی اہمیت برقرار رہتی ہے کسی بھی چیز یا شے سے متعلق لکھاری کا مشاہدہ متعلقہ موضوع سے متعلق مفید اور سچی معلومات کو بھی مضمون کہا جاتا ہے۔
(فیچر) سماج میں اردگرد بکھرے مسائل اور حالات حاضرہ کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کی رائے پر ہوتا ہے مثالوں اور حوالوں سے واقعاتی صورتحال کا باتصویر تجزیہ۔اخبارات کے علاوہ میگزین میں فیچر کو خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے جو اعلیٰ مضبوط توانا قسم شمار ہوتی ہے تمام بڑے پیمانے پر شہرت کے حامل اخبارات میں روزانہ اور میگزین میں ہفتہ وار کئی فیچر لازمی طور پر شائع ہوتے ہیںفیچر قارئین کی نفسیات کو لبانے کاکام کرتا ہے کیونکہ قارئین روزانہ کی بنیاد پر ایک ہی طرز کی تحریروں کو پسند نہیں کرتے یا اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ایسے میں فیچر قارئین کو پرکشش پہلو پوشیدہ اور نئی زہنی توجہ پر مبنی مواد دیتا ہیے۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ اخبار مالکان ایڈیٹران منتظمین انچارج حضرات معاشراتی طلب کے پیش نظر عوامی دلچسپی کا مسودہ ان تک پہناتے ہے عام و خاص کی رائے کی روشنی میں فیچر جس کے معنی ہی کسی چیز کے نقوش چہرے مہرے خدوخال شکل صورت وضع قطع علامتی نشاہدہی کی ترجمانی کے ہیںجرنلزم کی تعلیم میں فیچرنگاری کا مفہوم کسی واقعے معاملے کو لفظی منظر کشی میں اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے کہ حقیقت کا یا کسی خاص معاملے کا پس منظرسچائی یا سچ کے قریب ترکی کیفیت کے ساتھ ڈرامائی افسانوی اظہار کا عکس ہو۔ یعنی کسی موضوع کا پورا پوسٹ مارٹم کر کے پیش کرناجو معاشرت کے شعبوں کی صورتحال کا اظہار کرنے کے لیے ہاف پیج یا فل پیج پر منحصر ہوتا ہے اور یہ اخبار میں نہیں بلکہ اخبار کے ساتھ آنے والے میگزین کی زینت بنتا ہے جس میں بہت سی تصاویر بھی تحریر کی عکاسی کا حصہ بنتی ہیں۔
باقی اخبار ات کی عام روزمرہ کی خبروں میں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں کرنا پڑتی کچھ ہی اصول ہوتے ہیں جو سب میں ایک جیسے ہوتے ہیں بس اس میں کسی بھی واقعے کی سُرخی بنانا منفرد پہلو ہوتا ہے باقی زرائع اور تفصیلات پر مبنی دیکھا سنا لکھنا ہوتاہے یعنی ایک رپورٹ پیش کرنا کہ یہ ہوا تھا۔بس اتنا یاد رکھیے کہ کاغذ قلم سیاہی کی طرح سب ایک جیسے ہوتے ہیں بس لکھنے والے کی سوچ میں فرق ہوتا ہے جھوٹے لفظ اور لکھاری کبھی روشن نہیں ہوتے۔

جواب دیں

Back to top button