میاں نوازشریف کی وطن واپسی
سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف چار سال کے بعد آج وطن واپس آئیں گے۔ یہاں ان کا طیارہ پہلے اسلام آباد میں اُترے گا، اِس کے بعد وہ لاہور پہنچیں گے۔ میاں محمد نوازشریف آج مینار پاکستان کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کریں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ مسلم لیگ نون کی قیادت اپنے قائد کے فقید المثال استقبال کے لیے پرجوش ہے، مسلم لیگ نون کے عہدیداران اورکارکنان بھی میاں نوازشریف کے استقبال کے لیے خاصے متحرک اور خوش ہیں۔ میاں محمد شہبازشریف اور مریم نواز نے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا پروگرام فائنل ہوتے ہی رابطہ عوام مہم کا آغاز کیا اور کم وقت میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنے کی کوشش کی، یہی وجہ ہے کہ آج کا دن مسلم لیگ نون کی سیاست کے لیے اہم قرار دیا جارہا ہے، اِس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی قائد شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا فقید المثال استقبال کرکے تاریخ رقم کی تھی اور اب مسلم لیگ نون کی قیادت میاں محمد نوازشریف کا ایسا استقبال کرکے وہ ریکارڈ توڑنا چاہتی ہے جو پیپلز پارٹی نے قائم کیا تھا۔ بہرکیف میاں محمد نوازشریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ نون کی سیاست میں نئی جان پڑ جائے گی کیونکہ اِس وقت پاکستان کی سیاست میں سیاسی قیادت کا ایک طرح سے قحط محسوس ہورہا ہے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو ملکی سیاست میں ویسے متحرک نہیں ہیں جیسا قبل از انتخابات انہیں متحرک نظر آنا چاہیے تھا، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان مقدمات کا سامنا کررہے ہیں اور پابند سلاسل ہیں اس لیے مسلم لیگ نون سیاسی میدان میں زیادہ متحرک نظر آتی ہے، باقی چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے طور پر رابطہ عوام مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میاں محمد نوازشریف کو وطن واپسی پر کن قانونی معاملات کا سامنا ہوگا یقینا وہ اور اُن کی قانونی ٹیم اِن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن میاں محمد نوازشریف کو سب سے زیادہ توجہ ملک کے معاشی معاملات پر دینا ہوگی کیونکہ عوام کی اِن سے توقعات وابستہ ہیں، کاروباری طبقہ بھی اِنہیں اسی لیے پسند کرتا ہے کہ میاں نوازشریف معاشی معاملات پر خاصی گرفت رکھتے ہیں، اِس وقت عوامِ پاکستان ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، روزگار کے مواقعے گھٹتے جارہے ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، کیونکہ کاروبار کم لیکن مہنگائی بتدریج بڑھ رہی ہے، خصوصاً اتحادی حکومت کے سولہ ماہ میں معاشی اصلاحات کے نام پر ایسے اقدامات کیے گئے جن کی وجہ سے مہنگائی بتدریج بڑھتی رہی اور تاحال دو وقت کی روٹی عام متوسط گھرانے کے لیے مشکل ترین بلکہ ناممکنات میں شامل ہوچکی ہے، لوگ روزگار سے محروم ہورہے ہیں کیونکہ کاروبار نہیں ہے، کاروباری طبقہ الگ پریشان ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں ناقابل برداشت ہوچکی ہیں، اِس صورت میں انڈسٹری کی بندش یقینی ہوتی ہے، عوام اشیائے خورونوش کے معاملے میں محتاجی کا اظہار کررہے ہیں، لہٰذا ماضی کے تجربات اور عوام دوست معاشی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہوگی تاکہ عوام نے میاں نوازشریف کی واپسی سے جو اُمیدیں باندھی ہیں وہ اُمیدیں نہ ٹوٹیں۔ پھر ملکی سیاسی حالات شدید تناؤ اور دباؤ کا شکار ہیں، سیاسی عدم برداشت عروج پر ہے، نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر لوگ کسی بھی نہج پر پہنچ جاتے ہیں، اِس لیے نوازشریف کو اپنے تجربے، دانائی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو ہر لحاظ سے ساز گار بنانے کی کوشش کرنا پڑے گی کیونکہ حالات اِس وقت واقعی ناقابل بیان ہیں اور بلاشبہ میاں نوازشریف ملکی حالات سے بخوبی واقف ہیں اور اِن کی واپسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کچھ کردِکھانے کا ساماں لیکر ہی آج وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ ملک کو جتنے خارجی مسائل کا سامنا ہے شاید اُس سے کہیں زیادہ داخلی مسائل کا سامنا ہے جس میں سرفہرست سیاسی عدم استحکام اور عدم برداشت جبکہ دوسرا معاشی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے غربت میں بڑھ رہی ہے اور لوگ جمہوری نظام سے یا تو لاتعلقی اختیار کررہے ہیں یا پھر اپنے نظریات بدل رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ میاں محمد نوازشریف موجودہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے قوم کو سیاسی اور معاشی بحران سے باہر نکالیں گے، اِس کے ساتھ ساتھ ہم ملکی سیاسی قیادت سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ سیاسی نظریات کو فی الحال ایک طرف رکھ کر اِن دونوں بڑے مسائل کے لیے سرجوڑ کا اِن کا دیرپا بلکہ مستقل حل نکالیں تاکہ ملک و قوم اِن عفریت کا مزید شکار نہ ہوں، عامۃ الناس کو دو وقت کی روٹی آسانی سے میسر ہو، کاروباری سرگرمیاں ایک بار پھر دیکھنے کو ملیں اور نوجوان نسل مایوسی سے باہر نکل سکے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لیے دن رات وقف کردیں گے۔