فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیاں

ایک صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کو نہیں آ رہا، قابض اسرائیلی فوج کا جب دل کرے، فلسطینیوں کے خون سے ان کے بازار رنگیں کر جاتے ہیں۔ ان کے گھروں کو لمحہ بھر میں مٹی کا ڈھیر بنا جاتے ہیں۔
کہیں والدین اپنے معصوم بچوں کے لاشے اٹھائے نظر آتے ہیں تو کہیں معصوم بچے اپنے والدین کی میتوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں، کہیں بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کے لاشے کو کندھا دیتے نظر آتا ہے تو کہیں جوان بچے اپنے والدین کے دست شفقت سے محروم و مغموم نظر آتے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ ایک، ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود ان کی ہمیت، حوصلے، یا برداشت میں کبھی کمی دیکھی گئی ہو، نسل در نسل جنازوں کو کندھے دیتے، اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے اور کھنڈرات بنے گھروں کو دیکھتے گزر گئے مگر کبھی کسی نے ان کے منہ سے اُف تک نہیں سنا، کبھی واویلا نہیں سنا۔ وہ مقابلہ کر رہے ہیں، اپنی ثابت قدمی سے دشمن کو پسپا کر رہے ہیں، قبلہ اول سے اپنی محبت سے دشمن کی نفرت کو مات دے رہے ہیں۔
علامہ اقبال نے فلسطین کے متعلق کیا ہی خوب تھا کہ
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
تیری دوا نہ جینوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کا آغاز خلافتِ عثمانیہ کے اختتام سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس سے قبل فلسطین کے صرف چار فیصد حصہ پر یہودی آباد تھے جو زمین انہوں نے مقامی لوگوں سے خریدی تھی، مگر جب انہوں نے وسیع پیمانے پر یہودی آباد کاری کے لیے خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی کو ڈیڑھ ملین پاؤنڈ کی پیشکش کی تو اس نے فوراً اسے ٹھکرا دیا۔
سقوط خلافت کے بعد فلسطین پر برطانیہ کی طرف سے جب پہلا یہودی کمشنر ہربرٹ سیموئل مقرر کیا گیا تو یہودیوں کے لیے اب قبضہ کرنا بہت آسان ہو گیا تھا۔ انہوں نے تعلیم اور زراعت کے شعبوں کو یہود کے حوالے کر دیا تاکہ فلسطین کے نوجوانوں کے علمی مستقبل کے ساتھ ساتھ ان کے مالی مستقبل پر بھی قدغن لگائی جا سکے۔ یہودیوں کے لیے جہاں قرضوں اور مختلف الاؤنسز کا اجراء کیا گیا، وہیں دوسری جانب فلسطینیوں پر بھاری ٹکسز عائد کر دیے گئے، پھر انہی ٹیکسز کی مد میں ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جانے لگا۔ چند ہی سالوں میں سب سے بڑی انسانی حقوق کی پامالی یہ کی گئی کہ فلسطین کے اطراف سے آٹھ ہزار کاشت کاروں سے پچاس ہزار ایکڑ زمین ہڑپ کر لی گئی، انہیں انہی کی زمینوں سے بیدخل کر دیا گیا۔ مسلح جتھے فلسطین کا رخ کرنے لگے۔ مقامی یہودیوں کو اسلحہ تقسیم کیا جانے لگا، اور فلسطینیوں کو اسلحہ رکھنے کی جرم میں سزائے موت کے فیصلے سنائے گئے حتی کہ زراعت کے اوزاروں کو اسلحہ کے مشابہ قرار دے کر ان کی زمینیں ضبط کی جاتیں اور سزائیں دی جاتیں۔
اتنی بدمعاشیوں کے باوجود 1947ء تک یہودی صرف چھ عشاریہ پانچ فیصد رقبہ پر قابض ہوئے تھے۔ مگر جب پہلی بار اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین زیر بحث آیا تو اس مسئلہ کے حل کے لیے تقسیم کا فارمولا پیش کیا گیا۔ جس کے تحت چھ فیصد پر ناجائز قابض کو فلسطین کا پچپن فیصد حصہ دے کر دوسری بار تاریخ کی سب سے بڑی انسانی حقوق کی پامالی کی گئی۔ ایسے کمال انصاف کے لیے عاجز صاحب نے کیا خوب کہا کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یہودیوں کو فلسطین کے صرف چھ فیصد حصہ پر قبضہ کرنے کے لیے کئی سال انسان اور انسانی حقوق کا قتل عام کرنا پڑا، جانی و مالی نقصان دینا پڑا، سازشیں کرنا پڑیں، مگر اقوام متحدہ (جس کے قیام کا مقصد ہی آنے والی نسلوں کوجنگ کی لعنت سے بچانا، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا، آزاد فضا اور اجتماعی ترقی کو فروغ دینا تھا) نے کیا ہی کمال مہارت دکھائی اور ایک قطرہ خون بہائے بغیر ہی یہودیوں کے لیے آدھی ریاست کا فیصلہ سنا دیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اسی اقوام متحدہ نے کی جنرل اسمبلی نے اپنے قرار داد نمبر 242، 672، 2334 میں اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اسی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 37/43 میں اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دے کر فلسطینیوں کی مزاحمت کو جائز قرار دیا ہے۔ اس میں واضح لکھا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو ہر دستیاب ذریعہ حتی کہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مزاحمت کا اختیار حاصل ہے۔ گویا دوستی دشمنی ساتھ ساتھ نبھا رہا ہے۔ عاجز صاحب نے ایسے منظر کو کیا خوب کھینچا کہ
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی مار کرو ہو
ایسے موقع پر کہ جب حماس نے اپنے جائز اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قابض اور غاصب فوج پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے ہمنواؤں کو شدید غصہ آیا اور بحری بیڑوں سمیت اسرائیل کی حمایت پر نکل پڑا ہے۔ امریکہ اسلحہ سمیت نکل کر بھی امن پسند ہے اور مسلمانوں کا فلسطینیوں کے حق میں بیان کو بھی دہشت گردی سی جوڑا جا رہا ہے۔ یوکرین اپنے دفاع کی جنگ لڑے تو حق بجانب ہے، فلسطینی اپنا سارا ملک کھو کر بھی اگر اس پر مزاحمت کریں تو دہشت گرد کہلاتا ہے۔
ایسی تمام نا انصافیاں اور پامالیاں برداشت کرنے کے بعد بھی اگر وہ لوگ ڈٹے ہوئے ہیں تو وہ صرف اور صرف قبلہ اول بیت المقدس کی محبت میں ہے۔ بیت المقدس کے اطراف کی مارکیٹ میں ایسی دکانیں موجود ہیں، جہاں بیچنے کو بھی کچھ نہیں، انہیں بھی جب ملین ڈالر کی پیشکش کی جاتی ہے تو فاقوں کے باجود دولت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ بیت المقدس کے اطراف میں ایسے بوسیدہ اور کھنڈرات کا منظر پیش کرتے گھر موجود ہیں جہاں کئی کئی دن فاقے رہتے ہیں۔ مگر جب انہیں اس گھر عوض سو ملین ڈالر کی پیش کش کی جاتی ہے تو فوراً جھٹلا دیتے ہیں۔ ان سے وجہ پوچھی گئی تو بتایا کہ یہ گھر بیت المقدس کے راستے میں ہے، جو اس کے پاس اللہ کی امانت ہے، جو وہ کبھی بھی نہیں بیچے گا، وہ اور اس نسلیں اپنا خون دے کر اس گھر کی حفاظت کریں گے حتی کہ کوئی آئے گا اور بیت المقدس کو آزاد کروا لے گا۔ وہ ایسے خود دار لوگ ہیں کہ ہماری کسی امداد کے طالب نہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پہلے بھی اپنے خون سے اس دھرتی کی حفاظت کی ہے، ہماری نسلیں بھی حفاظت کریں گے (ان شاء اللہ) بس ان کی یہی تمنا ہے کہ ہم ان کے پاس آتے جاتے رہیں۔ تاکہ انہیں حوصلہ رہے، انہیں تنہائی کا خوف نہ ہو۔ ان کے جذبات کی عاجز صاحب کے اشعار کیا خوب ترجمانی کرتے ہیں کہ
لہو دیں گے تو لیں گے پیار، موتی ہم نہیں لیں گے
ہمیں پھولوں کے بدلے پھول دو،شبنم نہیں لیں گے
محبت کرنے والے بھی عجب خود دار ہوتے ہیں
جگر پر زخم لیں گے زخم پر مریم نہیں لیں گے
اس وقت سوشل میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے، ہم کچھ نہیں کر سکتے تو ان کے حق میں اس پر کچھ تو بول سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں،ان کی آواز بن سکتے ہیں۔ آپ کوشش کریں ان شاء اللہ ظالم اس پر بھی تلملا اٹھے گا۔