اف یہ شور شرابا

محمد انور گریوال
صبح نماز کے بعد سونے کی عادت نہیں جاتی، روز رات کو سونے سے قبل ارادہ کرتا ہوں کہ کل نماز کے بعد نہیں سوئوں گا، مگر صبح نحوست لوریاں دینے لگتی ہے۔ مگر کمال ہے اُس وین والے کا جو ہمسایوں کے بچوں کو سکول لے جانے کے لئے آتا ہے، اور خوب ہارن بجاتا ہے، اُس نے کیری ڈبہ کو اصل والا نہیں بلکہ ’’پاں ‘‘ والا ہارن لگا رکھا ہے۔ دو ایک مرتبہ دوسرے ہمسایوں نے اُس سے ہارن کم بجانے کی درخواست کی، اُلٹی گنگا یوں بہنے لگی کہ خود بچوں کے والد صاحب بنیان اور دھوتی میں ملبوس خود برآمد ہو ئے، اور ہمسایوں کو ’حد‘ اور ’اوقات‘ وغیرہ میں رہنے کی تلقین کرنے لگے۔ جس شور سے بچنے کی کوشش ہو رہی تھی اُس میں مزید اضافہ ہوگیا، خیر ہمسایوں کو جلد سمجھ آگئی، اب وہ گاڑی والا روزانہ اپنا کام تسلی سے کرتا ہے، گھر والے بھی بچوں کو باہر تک نکالنے میں خوب ہنگامی حالات پیدا کرتے ہیں، اُن کی بلا سے اِرد گرد والے جاگیں یا سوئیں ۔۔۔ یا پھر روئیں۔
کام پر جاتے ہوئے لاری اڈہ راستے میں پڑتا ہے، بسیں اور کوچیں اڈے سے نکل کر سڑک پر آرہی ہوتی ہیں، اور باہر سے آکر اڈے میں داخل ہو رہی ہوتی ہیں، انہوں نے بسوں کے ہارن نہ جانے کس ملک سے درآمد کر رکھے ہیں، اچانک ہی آپ کے قریب آکر اس زور کا ہارن بجائے گی گویا بجلی کی کوئی طویل لہر نے کانوں اور سر کو جکڑ کر رکھ دیا، چند ساعت تو آنکھوںکے آگے اندھیرا ہی پھیل جاتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہ ستم اڈہ سے گزرتے ہوئے ہر روز متعدد مرتبہ بار سہنا پڑتا ہے۔ اڈے کے ساتھ ہی وہ ٹائون ہے جہاں میں نے جانا ہوتا ہے، ٹائون کی بڑی سڑک پر بہت چہل پہل ہوتی ہے، سکولوں کا وقت سواریاں، موٹر سائیکل اور بہت سے بچے بچیاں پیدل بھی سکولوں کو جارہی ہوتی ہیں۔ ٹریفک کا ایک بے ہنگم سا شور تو اٹھ ہی رہا ہوتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ٹماٹر، کیلے، سبزیاں، پیاز اور نہ جانے کیا کچھ بیچنے والوں نے اب اپنا کام آسان کر لیا ہے۔ تمام لوگوں نے کچھ خرچہ کرکے ایک عدد بیٹری اور چھوٹے سپیکر وغیرہ خرید لئے ہیں، لائوڈ سپیکر جانیں اور عوام جانیں۔
چند ہی برس قبل تک سبزی والا یا کوئی بھی پھیرے والا گلی میں چکر لگاتا تھا، اس نے کسی گھنٹی سے رسی باندھ رکھی ہوتی تھی، اس کو ہلاتا جاتا اور لوگ جان جاتے کہ فلاں چیز فروخت کرنے والا گلی میں آیا ہے۔ سبزیوں والے بھی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنی سبزیوں کے نام گنواتے اور آگے کا سفر جاری رکھتے، کچھ دیر انتظار بھی کرتے ۔ اب موٹر سائیکل کے پیچھے ریڑھی بندھی ہے، موٹر سائیکل چلتی جارہی ہے، بلند آواز ٹیپ چلتی جارہی ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ریڑھی ابھی گلی کے کونے میں نہیں پہنچی اُدھر سے دوسری داخل ہو گئی اور بلند آہنگ انداز میں رہائشیوں کو اطلاع دی کہ اب پتیسے والا اُن کی گلی میں داخل ہو چکا ہے، جو کہ پرانی جوتیوں، کپڑوں ، لوہے کے ناکارہ برتنوں اور اسی نوع کی دیگر چیزوں کے عوض آپ کے بچوںکو پتیسا فراہم کر سکتا ہے، ساتھ ساتھ وہ جس شور سے آپ کو مستفید کرتا ہے، اُس کا کوئی مول ہی نہیں۔
کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک گلی میں ایک ہی موقع پر کئی ریڑھیوں والے داخل ہو چکے ہوتے ہیں، اُن کی فروخت ہونے والی اشیا بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیں۔ سبزیاں اور پھل (شور کے حساب سے )آپس میں گڈ مڈ بھی ہو جاتے ہیں۔ بھکاریوں نے بھی اپنی سہولت اِسی کام میں پائی ہے کہ اب وہ بھی صدا نہیں لگاتے، وہ زمانے بیتے زمانہ بیت گیا، جب دروازے پر فقیر آتا، دعائیہ صدا لگاتا، اندر سے اُسے کچھ نہ کچھ ضرور دے دیا جاتا تھا، اب تو مقابلہ سخت ہوتا ہے، وقت کم ہوتا ہے، گلے میں لگی ٹیپ پر چھوٹا لائوڈ سپیکر لگا ہے، یا کسی میگا فون میں کوئی فقیر خود بھی اپنی آواز کا جادو جگا رہا ہوتا ہے، گاتا جاتا ہے، چلتا جاتا ہے۔ کس گھر والے نے کس سپیکر والے کی بات سنی، سنی بھی یا نہیں، یا پھر سنی اَن سنی کر دی۔ یا اِس شور شرابے میں بہت کوشش کے بعد اپنے پسند کے شور پر وہ باہر نکلے اور اپنا کام کر لیا یا فرض نبھا دیا؟
کبھی شام کو شہر کی پُر رونق جگہوں پر جا کر دیکھیں، دماغ ہی چکر ا جائے گا۔ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد پھلوں وغیرہ والوں کا مال جب بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے، تو وہ بہت سے ریڑھیوں والے ایک جگہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں، اپنی جنس کی قیمت مزید کم کر کے اپنے اپنے لائوڈ سپیکر کھول دیتے ہیں۔ایسے میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، بس ایک ہنگامہ سا برپا ہوتا ہے اور بہت سے عقلمند گاہک سستا پھل خریدنے میں مصروف ہوتے ہیں، اس موقع پر بھائو تائو کا مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ ’’لوٹ سیل‘‘ لگی ہوتی ہے۔ شام کو گھر پہنچنے تک کانوں میں سائیں سائیں کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں، سر چکر ا رہا ہوتا ہے، زیادہ تر سر میں درد بھی ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر گھروالی ذرا تحمل اور صبر سے بات کر لے تو پچھلا غم کسی حد تک بھول جاتا ہے، اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے حالات ہاتھ میں نہ رہیں تو جس شور سے باہر واسطہ پڑا تھا، یہاں معاملہ اُس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتا ہے۔
دن بھر پاگل کر دینے والے شورکے بعد سکون کی تلاش ہوتی ہے، ایسے میں علّامہ اقبالؒ کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ دل کا بڑا سہارا بنتی ہے، ویسے تو پوری نظم ہی دلکش ہے مگر تین شعر ملاحظہ فرمائیں؛
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے چھوٹا سا اک جھونپڑا ہو
پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی موٗذن
میں اس کا ہمنوا ہوں، وہ میری ہمنوا ہو
مگر کیا کیجئے کہ عمل اور آرزو میں بہت فرق ہے، اور ستم بالائے ستم یہ کہ شور بڑھتا جارہا ہے اور آروزئیں خاک میں ملتی جا رہی ہیں۔