استعارہ وفا
خدیجہ طاہر
نبی کا اور خدا کا مدح گو صدیق اکبر ہے
نبی صدیق اکبر کا خدا صدیق اکبر کا
ہوئے فاروق وعثمان و علی جب داخل بیعت
بنا فخر سلاسل سلسلہ صدیق اکبر کا
سیدنا صدیق اکبر کی رضی اللہ تعالی عنہ کی ابتدا ادب اور انتہاء عشق محبوب کریم علیہ السلام ہے۔ساتھی ایسے کہ آج بھی پہلوئے یار میں آرام فرما ہیں ۔ اور خادم ایسے کہ وفا کا استعارہ کہلائیں ۔ آپ جان وفا ہیں، رد جفا ہیں ۔ اور تا صبح قیامت تمام وفادار در صدیق سے دست بستہ آئین وفا کا درس لیتے رہیں گے کہ وفاؤں کی آن بان و شان صدیق اکبر ہیں ۔
پہلی پکار پر لبیک کہنے والے ! تن من دھن کی بازی لگا دینے والوں کی فہرست میں صف اول کا سالار! جو جان وفا ہوں ۔ شان صداقت ہوں۔ عاشقِ صادق اس درجے کے کہ امام العاشقین کہلائیں۔آپ سب سے نرالے سب سے جدا ہیں۔ خلیل ایسا جس پر ملائک ناز کریں۔ امام ایسا جس کے مقتدی عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیھم اجمعین ہوں۔ خلیفہ ایسا کہ خلافت ناز کرے۔میرے کریم علیہ السلام کا پہلا صحابی پہلا مددگار!! وہ جو پہلے خلیفہ بلا فصل ہیں ۔ جاں نثار ایسے کہ پھر یار غار ہیں!! یہ وہی تو ہیں جن کو میرے سیدی علیہ السلام محبت میں’’میرے ابوبکر‘‘ کہہ کر یاد فرمائیں!! ناموس رسالت کا پہلا محافظ !! منکرین زکوٰۃ کے لئے ننگی تلوار کی مانند ڈٹ جانے والا میرے نبی کا دلیر غلام !! ختم نبوت کا پہلا پہرے دار!! میرے مصطفیٰ کریم علیہ السلام کا پہلا ہم سفر!!
جب ہجرت کا حکم ہوا اور سب صحابہ بہ اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے لگے تو جنھیں آقا نے خود کچھ روز انتظار کا حکم دیا تاکہ انہیں اعلیٰ رفاقت نصیب ہو یار غار کا لقب ان کی شان بڑھائے!!
یہ ہیں مردوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہونے والی ہستی جنہیں دنیا صدیق اکبر کے نام سے جانتی ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عبداللہ ، کنیت ابو بکر، لقب صدیق اور عتیق، والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ،والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت ام الخیر ہے۔ سیدنا صدیق اکبر کا سلسلہ نسب چھٹی پشت پر کریم آقا علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔والدہ نے اوائل اسلام ہی میں جبکہ والد نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔
قبول اسلام سے پہلے بھی آپ ایک دیانت دار اور راست باز شخص کے طور پر مشہور تھے۔ اہل مکہ آپ کو علم، تجربہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے۔ایام جاہلیت میں بھی خون بہاء کا مال آپ کے ہی ہاں جمع ہوتا تھا۔
سیدنا صدیق اکبر کی حیات مبارکہ آقا جانِ عالم کی اتباع میں گزری۔لفظوں کا گورکھ دھندہ ،حیل وحجت، بحث و مباحثے کا تو کبھی گزر ہی نہ ہوا۔ یقیناً محبت ایسی ہی ہوتی ہے کہ بلا چوں و چراں عمل اور خاموش پیروی۔
میرے آقا بھی پسند فرماتے کہ ابوبکر کی جاں نثاریاں ہر جاں نثار پر بازی لے جائیں ۔ دنیاداروں کی بھی کچھ دوستیاں ایسی ہوتی ہیں جن پر مان ہوتا ہے یقین ہوتا ہے ۔ میرے کریم کو اپنے ابوبکر کی یاری پر ایسا ہی مان تھا۔ سرکار علیہ السلام کے فرامین کا مفہوم ہے کہ
(ترجمہ)اسلام کو کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر کے مال نے دیا۔
ایک اور جگہ فرمایا کہ:
باقی سب کا مال میں دوسروں کا سمجھ کر خرچ کرتا ہوں مگر ابوبکر کا مال اپنا سمجھ کر خرچ کرتا ہوں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے کریم علیہ السلام کے وہ رازدار ساتھی ہیں۔جن کے ساتھ ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر دیر تک راز کی باتیں گفت گو فرماتے۔
سیدنا صدیق اکبر کےعشق کا کیا کمال درجہ ہے یہ !! کیونکہ جب تک ذات سے پیار نہ ہو تعلیمات اندر تک نہیں اترتیں۔
مولانا الشاہ احمد رضا خان کیا خوب فرماتے ہیں۔
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چھٹے سستے
وہ آگ لگائی ہےجوآگ بجھادےگی
میرے کریم نے بھی صدیق اکبر کو چاہا تو کمال کر دیا محبت و مان میں’’ میرے ابوبکر‘‘ کہہ کر پکارا۔
سیدنا صدیق اکبر نے اس طرح اپنے آپ کو مزاج یار میں ڈھالا ہوا تھا کہ کچھ لوگوں کو شبہ ہونے لگا کہ نبی علیہ السلام کون سے ہیں !! کہ کچھ نووارد مجلس میں آتے اور حضور علیہ السلام سے ہاتھ ملا کر بیٹھ جاتے اور کچھ سیدنا صدیق اکبر سے سلام لے کر بیٹھ جاتے۔یہ شبہ اس لئے ہونے لگا کچھ محدثین فرماتے ہیں کہ صدیق اکبر بات چیت میں ، بیٹھنے میں بھی حتی کہ امامہ باندھنے میں بھی محبوب علیہ السلام کے انداز کو اپناتے کہ
تو من شدی من تو شدہ
جب صدیق اکبر نے دیکھا کہ لوگ شبہ میں مبتلا ہو رہے ہیں تو اٹھے اور اپنی چادر کا حضور علیہ السلام پر سایہ کر دیا ۔یوں لوگوں کو پتا چل گیا کہ سایہ کرنے والا غلام ہے اور جن پر سایہ کیا گیا ہے وہ آقا ہیں۔ شارحین کیا ہی حسین انداز میں فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لئے حضرت ابوبکر صدیق نے حضور علیہ السلام کے سر انور پر اپنی چادر کا سایہ کیا تھا اللہ کے رسول علیہ السلام نے احسان کا بدلہ یہ دیا کہ قیامت تک ان کی قبر پر اپنے گنبد کا سایہ فرما دیا ۔
بیدل دھلوی کے اس شعر کا پیر سید نصیر الدین نصیر نے کیا خوب ترجمہ کیا ہے
بیدل ستم است رفضیانِ خودسر
دارند ز ما توقعِ فحش و نظر
حاشا کہ ه شود بہ فحش و بهتانی چند
فرزندِ علی دشمنِ بوبکر و عمر
بیدل یہ تو ستم کی بات ہے کہ خودسر اور دیوانے رافضی ہم سے فحش،کلامی اور ناپاکیِ نظر کی توقع رکھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ چند لوگوں کی فحش،گوئی اور الزام تراشی کے بدلے علی رضی اللہ عنہ کا کوئی بیٹا ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کا دشمن بن جائے۔
قریب وصال سیدنا صدیق اکبر نے مولی علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا کہ مجھے حضور علیہ السلام کے روضہ اقدس کے پاس پہنچا کر تدفین کے لئے اجازت طلب کرنا اگر دروازہ کھل جائے تو وہیں دفن کر دینا جانا اور دروازے پر رکھ دینا ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ سیدنا علی المرتضی فرماتے ہیں ہم نے روضہ رسول کے دروازے پر لے جاکر اجازت طلب کی ۔ تو نہ صرف دروازہ کھل گیا بلکہ اندر سے آواز آئی :
حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کردو ، بےشک حبیب ملاقات حبیب کے لئے مشتاق ہے
لے سجناں اساں توڑ نبھائی تے جاں دتی راہ تیرے
اور یوں 22 جمادی الثانی کو پیکرِ عزم و وفا اپنے رب کے حضور پیش ہو کر پہلوئے خلیل میں مدفون ہوئے۔
کیوں بگڑتا ہے وہ پہلو میں سلائے ہوئے ہیں
رضی اللہ تعالی عنہ و نور اللہ مرقدہ