آج کے کالماحمد خان

وہی کھیل وہی تما شا

احمد خان

جناب زرداری کی زباں پر چرکے نواز شریف کو کال کو ٹھڑی میں دھکیلنے اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہو نے والا ناروا سلوک چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بے شک مہینے سالو ں میں بدلے اور سالوں نے دہائیوں کا سفر طے کیا لیکن سیاست دانوں کا طرزعمل وہی ایک دوسرے کو محض نیچا دکھا نے والا کل بھی تھا ور آج بھی ہے ، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے تہی جبر کا اچھا بھلا سامنا کیا ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ جو شرم ناک سلوک روا رکھا گیا وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب بن چکا پھر وقت نے پلٹا کھا یا اور مشرف کے ہاتھوں نوازشریف کو ستم بالائے ستم کا سامنا کر نا پڑ ا ، ما ضی قریب تک جناب خان اور ان کے ہم نوالہ ہم پیالہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہو کر اپنے سیاسی مخالفین پر زمین تنگ کیے ہوئے تھے ، لمحہ مو جود میں جناب خان نہ صرف ’’ چوپٹ راج ‘‘ کی ستم ظریفی بھگت رہے ہیں بلکہ ان کی جماعت سے تعلق خاطر رکھنے والے بھی پس زنداں ہیں ، کل تلک پی پی پی کے رہنما ناروا جبر کا گلہ کر تے رہے لیکن ان کے سیاسی حریف پی پی پی کے زیر عتاب ہو نے سے لطف اندوز ہو تے رہے پھر مسلم لیگ ن اور نوازشریف خاندان پر کٹھن وقت کو سیاست کے خانوادوں نے اپنے لئے غنیمت جانااور مسلم لیگ ن کی سخت کو شی کو مقدر کا لکھا قرار دے کر اپنے لئے انعام سمجھا ، جناب خان مغربی جمہوریت کے نہ صرف دلدادہ تھے بلکہ مغربی جمہوریت کے زریں اقدار کو ملکی سیاست میں راسخ کر نے کے کھلے بندوں متمنی بھی تھے ، اقتدار میں آنے کے بعد لیکن جناب خان بھی مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی طرح دیسی سیاست کے خو گر بنے، ملک میں جمہوریت کے نازک پن اور قانون کی حکمرانی صفر بٹا صفر ہو نے سے جہاں عام شہری ہر گام پر حکومتی ستم برداشت کر تے چلے آرہے ہیں۔ وہیں قانون قدرت کے عین مطابق خود کو قانون سے بالا بلکہ بہت ہی بالا سمجھنے والے بھی قانون کے ’’ جا لے ‘‘ میں گا ہے گاہے پھنستے رہے۔
ملکی سیاست کا خلاصہ کیا ہے،جو سیاسی جماعت اقتدار میں ہو تی ہے ریاستی اختیار سے لطف لیتی ہے دوسری جانب جو سیاسی جماعتیں حزب اختلاف کی صف میں ہوتی ہیں وہ ملک کی تمام تر قوانین کے نر غے میں ہوتی ہیں ، یوں سمجھ لیجیے کہ ادلے بدلے کی رسم بد ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی ، ہو نا کیا چاہیے تھا ، تما م سیاسی جماعتوں کو آئین کی حاکمیت اور قانون کی حکمرانی قائم کر نے کے لئے حقیقی معنوں میں ایڑ ی چوٹی کا زور لگا نا چاہیے تھا ، پی پی پی کے ساتھ قانون کی حکمرانی کے نام پر جو کچھ ہوا ، مسلم لیگ ن کے ساتھ آئین کے پس منظر میں جو کچھ ہوا ، تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی ماحول کے زمرے میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس پر کامل اتفاق ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہو نا چاہیے ، چاہے وہ پی پی پی مسلم لیگ ن ہو یاتحریک انصاف، سوال لیکن یہ ہے کہ جن حالات سے ملک کے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو کل اور آج گزرنا پڑ رہا ہے ، اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔
سیاست دان خود ان تلخ حالات کے ذمہ دار ہیں ، تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کے مواقع ملے ، چاہیے تو یہ تھا ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنا اپنا کر دار ادا کرتیں ، سچ پوچھئے تو جناب خان سے سیاست کے اکھاڑے کے پہلوانوں نے امید باندھی تھی کہ جمہوریت کے علم بردار جناب خان ملکی سیاست میں مثبت رجحانات کو نہ صرف متعارف کروائیں گے بلکہ ملکی سیاست میں انتقامی سیاست کی ریت کا قلع قمع کر نے میں بھی نمایاں رنگ دکھا ئیں گے ، لیکن جناب خان نے بھی اقتدار کی کمان سنبھال کر ’’ بابر بگوش عیش ‘‘ کی روش اپنا کر اپنی ساری کی ساری توجہ اپنے سیاسی مخالفین کو زمیں بوس کر نے پر مرکوز کیے رکھی ، جناب خان کے دور میں انہی کالموں میں بار ہا عرض کر تے رہے کہ چور ڈاکو کی گردان کو ترک کر کے ملک اور عوام کی ترقی کے لئے دن رات ایک کیجیے ، دوم سیاست میں انتقام کے غبارے میں ہوا بھر نے کے بجا ئے اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوا نکالنے کی سبیل کر لیجیے، لیکن حکمران ہو اور وہ صائب مشورے پر عمل کر ے ، وطن عزیز کی تاریخ کے اوراق ایسے حکمرانوں سے خالی ہیں ، کل تک جناب خان نے حیلے بہا نوں سے اپنے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیے رکھا ، سیانوں نے خوب کہا ہے کہ نہ تو وقت ایک سا رہتا ہے نہ اقتدار ہمیشہ مہرباں رہتا ہے ، جناب خان جیسے ہی اقتدار سے رخصت ہو ئے اس کے ساتھ ہی قانون کا چابک جناب خان اور تحریک انصاف سے وابستہ رہنمائوں کے خلاف حرکت میں آیا اور ہنوز سربراہ تحریک انصاف اور ان کے رفقا ء کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے ، اس ساری طولانی داستاں کے پیچھے بس ایک سوال سراٹھائے ہو ئے ہے وہ یہ کہ مملکت پاکستان میں سیاست کے بازار میں ہمہ وقت ’’ تو تو میں میں ‘‘ کی جاری گردان کبھی رک بھی سکے گی، اس سوال کا جواب نفی میں ہے ، جب تک سیاسی رہنما ور سیاسی کارکن سیاست میں ایک دوسرے کو احسن طریقے سے برداشت کر نے کے وصف کو فروغ نہیں دیتے جب تک سیاست دان اپنے سیاسی مخالفین کے لئے سمندر جتنا دل وسیع نہیں کر تے اس وقت تک ملکی سیاست میں ہیجان اسی طر ح برقرار رہے گا، اس وقت تک سیاست دان اسی طر ح ایک دوسرے کو’’ آگے ‘‘ لگا ئے رکھیں گے ، یو ں سمجھ لیجیے کہ جو کھیل تما شا ملکی سیاست میں جاری ہے وہ اسی طر ح جاری رہے گا ، جب تک سیاست کے بڑے ایک دوسرے کو بچھا ڑنے کی عادت ترک نہیں کرتے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button