آج کے کالمعبدالرزاق باجوہ

آئیں، دنیا کو جنت بنائیں

عبدالرزاق باجوہ

دنیا میں ہر کوئی سکون چاہتا ہے۔ ہر سمت جنت کا سماں ہو۔ دکھ، تکلیف، آزمائش، امتحان اور مشکلات تو قریب بھی نہ پھٹکنے پائیں۔ دنیا میں ہر کسی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ چاروں اطراف خوشیاں اور کامیابیاں ہوں۔ کہتے ہیں سکون مادی نہیں روحانی کیفیت کا نام ہے۔ انسان جتنا چاہے مال وزر اور دنیا کے خزانے خرچ کر ڈالے سکون نہیں ملتا۔ دوسروں کو سکون دینے سے ہی سکون ملتا ہے ۔ ویسے تو ساری زندگی انسان کی آزمائش ہے اور یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ اصل آزمائش تب شروع ہوتی ہے جب نکاح کے بعد مرد اور عورت ایک نئی زندگی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا منظر نامہ معمول سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔ اسی عالم ازدواج میں کچھ جوڑے تو اس قدر مثالی ثابت ہوتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں جنت بنالیتے ہیں اور دنیا تعریف کرتی ہے۔ ان کی مثالیں دے کر رشک کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کچھ بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں جہنم بنالیتے ہیں، دنیا کے سامنے نشان عبرت بن جاتے ہیں۔ دنیا ان کی مثالیں دے کر توبہ توبہ کرتی ہے۔ ہم آئے روز الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر کئی واقعات رونما ہوتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ کبھی میاں بیوی کی لڑائی میں نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔ کبھی گھریلو ناچاقی پر بیوی کو قتل کر دیتا ہے ۔ کبھی گھریلو ناچاقی پر میاں کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ کبھی اسی ناچاقی میں بچوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی اسی ناچاقی میں میاں بیوی اور دونوں کے خاندان عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام عائد کر کے دنیا بالکل جہنم بنادی جاتی ہے۔ میاں بیوی کی ناچاقی میں خاندانی نظام بالکل تباہ ہوجاتا ہے۔
قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقات قرار دیا تو ابلیس نے اللہ پاک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے، اپنے بس میں کرلوں گا۔ (بنی اسرائیل،62 )
ایک اور مقام پر اللہ پاک کا فرمان ہے:
توہم نے کہا اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے۔ ( طحہ، 117)۔
اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہوجاتا ہے، اور کس طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف ہوتا ہے۔
شیطان کی انسان دشمنی کا مظاہرہ اسی وقت ہو چکا تھا، جب آدم علیہ السلام اور حوا علیہم السلام نے خود دیکھ لیا تھا کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے سے انکار کر دیا تھا اور صاف صاف کہہ دیا تھا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے (اعراف 12، ص 76)
ذرا دیکھ تو سہی، یہ ہے وہ ہستی جس کو تونے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تونے مٹی سے بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل 61،62)۔
کھلی دشمنی کے باوجود ایسے انداز سے شیطان نے آدم علیہ السلام اور آپ کی بیوی کو اپنی باتوں میں ورغلایا کہ نتیجتاً جنت سے نکلنا پڑا۔ شیطان کی ازل سے یہ کوشش ہے اور تا قیامت جاری رہے گی کہ انسان کو برباد کیسے کرنا ہے اور انسان بھی نادانی میں اس کے جال میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ دونوں جہاں کی ذلت اور رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج بھی وہی انسان ذلت اور رسوائی سے بچ سکتا ہے، جو شیطان سے بچ کر اللہ پاک کے احکامات پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاندانی نظام کو تباہی سے کیسے بچایا جائے۔ شیطان کی ناپاک چالوں سے کیسے اللہ کی پناہ حاصل کی جائے۔ میاں بیوی ناچاقی سے بچ کر اپنی زندگی کو کیسے جنت بنائیں۔ قارئین! اس کا جواب یہی ہے کہ ہر حال میں مخلوق اپنے خالق حقیقی سے مربوط رہے اور رہبر کائنات پیارے محبوب پیغمبر حضرت محمد خاتم النبیین ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر زندگی گزارنے پر آمادہ ہوجائے ۔
خاندانی نظام کی اصلاح کے لئے، اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ماں کی گود کو امہات المومنین، ازواج مطہرات اور صحابیات کرامؓ کی گود کی طرح ایک تربیتی مدرسہ بنایا جائے۔ ماں اپنے بچوں کو جو بنانا چاہے بناسکتی ہے۔ ایک بیٹی کی تربیت سے پورے خاندان کی تربیت ہوتی ہے ۔ اپنے گھر میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں بچے پرورش پاکر اسلام کے سپاہی بن جائیں، ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر قربان کرنے والے بن جائیں۔ ان کے اندر صبر ، تحمل، پیار، اخوت، ایثار، جرأت اور بہادری کا جذبہ پیدا کیا جائے اس کے نتیجے میں یہ دنیا بھی جنت بن سکتی ہے اور آخرت بھی سنور سکتی ہے۔ آئیے عہد کریں کہ انسان کے ازلی دشمن شیطان کی ناپاک چالوں میں آکر دوسروں کا سکون برباد کرنے کی بجائے ان کے لئے سکون کا باعث بن جائیں ہماری زندگی خود بخود جنت بن جائے گی۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

جواب دیں

Back to top button