صوفیانہ دانش رویہ یا نظریہ!
خیر زمان راشد
صوفیانہ اپروچ، نظریہ ہے یا رویہ ،اس بحث کا جواز ایمرا ڈیجیٹل پر نشر ہونے والا ڈاکٹر صغریٰ صدف صاحبہ کا انٹرویو ہے۔ڈاکٹر صغرا صدف ۔مضافات سے مرکزی ادبی اور علمی دھارے میں شامل ہوئی ایک لکھاری ہیں ۔ جو اپنی جستجو لگن محنت اور اپنے تخلیقی شعور کی وجہ سے اب قومی سطح کی معروف شخصیت شمار ہوتی ہیں۔
ایمرا ڈیجیٹل پر ان کا یہ انٹرویو ملیحہ سید کے ساتھ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ مضافات کا وہ کردار ہیں جنھوں نے حوصلہ دیا کہ انسانی جدوجہد سے کچھ بعید نہیں۔ ان کا اردو اور پنجابی ادب میں بڑا نام ہے۔ انٹرویو میں وہ اپنے گھر دیہات کے ماحول اور اپنی جدوجہد کے بارے میں بتاتی ہیں ۔ اس انٹرویو میں نوجواں نسل کیلئے ایک پیام ہے کہ منزلیں اہل عزم کیلئے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے گھر اور مضافات کی علم و ادب کے حوالے سے کسمپرسی کا ذکر کیا کہ ہمارا تعلق علمی گھرانے سے نہیں تھا نہ کتاب اور علمی مجالس کا ماحول تھا۔گاؤں میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج بھی نہیں تھا۔ ان حالات میں ان کے کم پڑھے لکھے لیکن روشن خیال والد نے بیٹی کو اعتماد دیا اور یوں وہ علم اور ادب کے سفر پر بہت آگے تک گئیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ ڈی جی پلاک رہی ہیں۔ نصاب کے قومی اداروں سے وابستگی، میڈلز، انعامات، خدماتِ قومی کے ساتھ نوجوانوں اور خواتین کے شعور کیلئے کام کیا ۔اس اہم انٹرویو میں وہ تصوف کے حوالے سے بہت اہم نکات پر بات کرتی ہیں۔ ان کی گفتگو کا محور یہ عنوان ہے کہ تصوف ایک نظریہ ہے۔ ان کی اس رائے کو میں بہ صد ادب ایک الگ اور منفرد پہلو سے دیکھتا ہوں۔ آپ اس فکر ونظر کو اختلافی کے بجائے ایک اور زیادہ اہم اور بنیادی پہلو کی طرف اشارہ تفہیم اور توضیح شمار کریں ۔
میں صوفیانہ اپروچ کو نظریہ سے الگ اور بلند فکر اور شعور سمجھتا ہوں ۔ جس کے ہوتے نظریاتی ،گروہی اور نصابی متصوفانہ سرگرمیاں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ صوفی ہی تو اس شعور کا اصل مالک ہے جو کسی منشور نصاب اور جماعت سے معاشرے کو بے نیاز کردیتا ہے۔ صوفی کا شعور مینوفیسٹو سے بلند درجہ کی چیز ہے۔ صوفی جماعتیں مسلک اور گروہ نہیں بناتا ۔ صوفی کے اپنے لوگوں سے تعلق کو زیادہ سے زیادہ استاد شاگرد کا تعلق کہا جا سکتا ہے۔ اور ایسا کوئی تعلق نظریہ یا نصاب نہیں ہوتا نہ منشور ہوتا ہے۔ یہ گروہی مسلکی اور تنظیمی محاورے ہیں۔ جس کیلئے آئیڈیالوجی کی اصطلاح اختیار کی گئی ہے۔ صوفی انسانیت کا اصل خیر خواہ اسی لئے ہے کہ وہ بنی آدم کی تقسیم کی بات نہیں کرتا ۔ وہ اپنے بلند شعور کے سائے میں احترام آدمیت کی بات کرتا اور اس کے لئے ملامت اور طعنے بھی سمیٹ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے زمانے میں کم اور بعد میں مرجع خلائق رہتا ہے۔ وہ بادشاہوں کی طرف قدم نہیں بڑھاتا دولت اور شہرت سے ڈرتا ہے۔ لوگوں کو قریب کرتا اور طبقاتی معاشروں میں رواداری مروت اور باہمی ایثار کا چلن عام کرتا ہے۔ جس کے لئے اسے صرف تعلیم اور طرزِ عمل سے کام لینا ہوتا ہے۔ یہی صوفی فکر کی طاقت ہے کہ وہ یہ کام جماعت منشور باقاعدہ نظریہ یا منشور کے بغیر سر انجام دیتا ہے۔سو ان سطور میں تصوف پہ یہ گفتگو بھی غیر نصابی اور غیر نظریاتی ہے۔ جس کیلئے صوفیانہ لٹریچر سے زیادہ اس شعور سے اخذ کچھ سطور ہیں۔
میں تصوف کو نظریاتی بدعت سے الگ اس لئے بھی دیکھتا ہوں کہ نظریہ کے بطن سے گروہ مسلک جماعت نصاب اور پھر اسی راہ سے زعم تقدس، خبط عظمت، تسلط پسندی اور شدت پسندی رواج پاتی ہے۔ اور صوفیانہ اپروچ اس سے یکسر مختلف ہے۔ تصوف جذبات واحساسات کی تہذیب ہے۔ جو نظریہ اور نصاب سے الگ اور بلند ہے۔ میں آسانی کیلئے تصوف کو ایک رویہ کہوں گا۔جو انسانی جذبوں اور احساسات کی تہذیب کرتا ہے۔ تصوف آرٹ میں ہے ، صوفیانہ رویوں کو مذہب کے بجائے آرٹ اور آرٹ سے وابستہ لوگوں میں تلاش کریں تب پتہ چلے گا کہ تصوف کیا اور صوفی کیسا ہوتا ہے۔
ہر آرٹ تصوف اور ہر تخلیق کار صوفی ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر صرف نسبتوں اور صحبتوں کا اثر ہوتا ہے۔ اور لوگ اپنی وابستگیوں کو اپنے انداز سے مشتہر کرتے اور سماجی اور معاشی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ اس میں صوفی کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔ یہ معاملہ اکثر ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو تصوف میں خلعت اور بیعت کا رواج بنا کر گئے ہیں۔ اس تعلق میں جو اصل رشتہ ہے وہ استاد شاگرد کا ہے۔ اور استاد کبھی بھی اپنے شاگرد کو سند فراغت نہیں دیتا۔ شاگرد کو صوفی سے لی ہوئی فکری روشنی میں اپنا راستہ اور اپنا سفر خود کرنا ہوتا ہے۔ یہی وہ لچک ہے جو تصوف کی وابستگی اور ترجیحات کو انسانیت اور آدمیت کی بلندی تک لے جاتی ہے۔تصوف ایک رویہ ہے۔ جو نظریئے نصاب اور دستاویزات سے زیادہ قوت اور تاثیر رکھتا ہے اور آگے جا کر کہیں نظریہ اور نصاب بن جاتا ہے۔ یہی رویہ جب لوگوں کی معیشت بنتا ہے تو گدی نشینی اور وراثتی ہو کر پورے تصوف کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔
یہ گدی نشینی کے جھگڑے اور وراثتی خلعتیں تصوف کو ایک ادراہ بنا چکی ہیں۔ جس کا اپنا نصاب ہے۔ منشور ہے اور عام آدمی اس میں صرف ایک صارف ہے صوفیانہ رویہ تو انسان کیا کسی ذرے کو بھی ایک پراڈکٹ نہیں سمجھتا۔ صوفی ازم پیراڈاکس نہیں، ایک عظیم ہم آہنگی ہے۔ جس کا ساز اور سوز آفاق میں آہستہ سانس لینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔
صوفی ازم ہی تکریم انسانیت کا اصل وارث ہے۔ میں اسے ایک نظریہ بہرحال نہیں کہوں گا۔ اس لئے کہ یہ آئیڈیالوجی سے الگ اور اس سے بڑی چیز ہے۔ یہ ایک رویہ ہے جو کوئی نصاب نہیں دیتا۔ یہ پند و نصیحت یا مذہبی ارکان یا نصاب کی طرح کی چیز نہیں۔ اس لئے اسے ایک ایسے رویے کے طور پر دیکھیں جو کلچر اور تہذیب میں ہر بلند کردار کی روح ہے۔ ہم اس رویے کی تلاش میں ماضی میں جائیں تو حمورابی کے عہد اور گلگامش سے سکندر یونانی تک کے عہد میں یہ رویہ پوری قوت کے ساتھ موجود تھا
اور بادشاہ اس سے سہمے رہتے ۔ حالانکہ صوفی کے پاس نہ جتھا ہوتا تھا نہ کوئی مذہبی گدی۔ اس کے پاس تو محبت آدمیت اور انسانیت ہوتی تھی۔صوفی دورے اشتہار اور نجات کے پروانے نہیں بانٹتا۔وہ سکھا دیتا ہے کہ خود خدا اور کائنات کو کس نگاہ سے دیکھیں۔آپ صوفیانہ اپروچ کا اس سے اندازہ لگائیں کہ صوفی کبھی بھی ظالم کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا وہ کسی سٹیٹس اور گروہ کی شناخت کے بجائے عام آدمی میں رہنا پسند کرتا ہےاس کا رویہ اور طرز عمل ہی اس کی تعلیم ہے صوفی چونکہ انسانی تفریق کا قائل نہیں اسی وجہ سے اس مزاج کی شخصیات پر عتاب بھی آئے ہیں۔ تاریخ میں بہت سے صوفیا اپنے ان رویوں کی وجہ سے گمراہ اور زندیقیت کے فتووں کی زد میں آئے گمراہی اور غداری کے الزامات لگا کر جاں سے مار بھی دیا گیا صوفہ کا نسائی شعور ہمیشہ بلند رہا ہے۔ یہ تصوف ہی جس میں عورت کو آدھی نہیں مکمل گواہی سمجھا اور اس کے وقار کو درجہ انسانیت پہ قائم رکھا اور یہ راز بھی صرف صوفی ہی جانتا ہے کہ عورت کی مکمل اور کامل گواہی کے خوف نے ہی آدھی گواہی کا جواز پیدا کیا۔
صوفی اپنی فکر کو نظریہ نہیں سمجھتا نہ وہ اسے ایک تھیوری کی طرح پیش کرتا ہے۔صوفی کا اگر کہیں کوئی پیام ہے تو وہ صرف اس کا رویہ ہے۔ لوگوں نے صوفی کے رویے اور اس کے شعور سے ہی تصوف کا نصاب نظریہ اور سلسلہ اصفیا تراش کر پیش کیے۔ عام طور پر صوفی ایک مخصوص گروہ کو سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک رویہ ہے۔ جو انتہائی غور و فکر کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ اس لئے صوفیا کا ادراک احمقانہ نہیں ہوتا ممکن ہے انھیں پرکھنے والا اخود یہ ادراک نہ رکھتا ہو۔ جلال پوری صاحب اور دیگر لوگوں نے صوفیانہ یا اس نوعیت کے جذب وادراک کو مذہب کی کسی وضاحت کے ذیل میں رکھا ہو۔ صوفیانہ مزاج میں روایتی مذہبیت ہمیشہ ثانوی رہی ہے۔ صوفہ مذہبی سٹیٹمنٹ پی کھڑا نہیں ہوتا ۔ اس کی دلیل آفاقی اور انسانی ہوتی ہے۔ وہ جبر اور انعام و اکرام کے شر سے آزاد ہوتا ہے۔یہ سوچ اور اپروچ ہمیں ہر دور میں متوازی ملتی ہے۔ مماثلت اور مشترکات یہ ہے کہ صوفی نے انسانی تفریق نہیں کی۔ یوں اسلامی دنیا کے بھی اکثر صوفیا پر الحاد و زندقہ کا الزام لگا۔ اس سے پہلے کے ادوار میں ایسے لوگ ملتے ہیں جنھوں نے عصر موجود کی عوام دشمن رویوں کو اہمیت نہ دی اور ریاستوں اور پوش بستیوں کے ٹرینڈ سے الگ مجذوبانہ یا ملامتی زندگی گزاری یونان روم اور پھر اسلامی دنیا اور مغرب میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔
تصوف آپ مذہب میں نہ ڈھونڈیں تصوف آرٹ میں ہے، تصوف آپ کو گریز سے گزرتے بے نیاز اور خود میں ڈوبے لوگوں میں ملے گا۔ مذہبی سیاسی اور نصابی مفکرین تو قلب انتشار کے قرار کیلئے خود کسی کی صحبت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ صوفیانہ کردار آپ کو کھلی فضا میں سانس لیتے ملیں گے۔ اور ہمت دکھا سکیں گے۔ کہ فاتحین کو انکار کر سکیں گے۔
صوفیانہ مزاج ذہانت کا ایک خاص درجہ ہے۔ یہ فطرت اور مزاج انسانی کی ہم آہنگی ہے۔ آدمیت اور انسانیت کی شرح صرف صوفی کر سکتا ہے۔ جب ہم تصوف کو آرٹ میں دیکھیں گے تو آپ کو ہر بڑا آرٹسٹ انسانیت اور آدمیت سے انسلاک کی کیفیت میں ملے گا۔ صوفیانہ کردار کو تلاش کرنے اور پرکھنے کا جو روایتی پیٹرن ہے کہ مسلک گروہ فالونگ یا کرامتوں سے تصوف نکال لائیں ۔ تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ ہم لوگوں نے کرامتیں اور معجزے کو تصوف سمجھ لیا جو ایسے شعبدے دکھانے کا شوق رکھتے ہیں۔ وہ اس رویے سے کوسوں دور ہیں۔ صوفی کبھی گروہ نہیں بناتا نجات اور بخشش کے پروانے نہیں بانٹتا صوفی مذہبی پروہتوں سے بلند آدرش اور اعلا شعور کا مالک ہوتا ہے۔ اس کا مذہب آدمیت اور انسانیت ہوتی ہے۔ ہم اسے کسی جماعت گروہ یا مسلک میں نہ ڈھونڈیں ۔ صوفی عام آدمی میں موجود ہوتا ہے۔ آپ غوث اعظم بڑے ادب آرٹ اور سائنس کی سراغ گاہوں میں تلاش کریں۔ آپ صوفی کو کرامتوں اور خوارق عادت وارداتوں میں تلاش نہ کریں۔