آج کے کالماحمد خان

افسر بے بدل

احمد خان

سول سروس کے ایسے افسران جن میں عوام کا درد اور خوف خدا کا وصف شامل ہو ،ایسے افسران نہ صرف اپنے محکمے کا حُسن ہوا کرتے ہیں بلکہ خلق خدا کے دلوں میں بھی وہ امر ہو جاتے ہیں، شعبہ تعلیم میں بھی ہمیشہ سے ایسے اساتذہ اور افسران دل کو لبھا تے ہیں جو اپنے طلبہ کے لئے ایک باپ کے طور پر اپنی جان لڑا تے ہیں ، ملک محسن عباس سے رشتہ تو بھا ئی کا ہے لیکن ایک استاد ایک منتظم اور شعبہ تعلیم کے اعلیٰ افسر کے طور پر ایک زمانہ ان کی خدمات کا معترف ہے ، ایک بہترین استاد ایک اعلیٰ پا ئے کے منتظم اور سب سے بڑ ھ کر محبت کی چلتی پھر تی تصویر ، دنیا محبت کے پیچھے بھا گتی ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے ، محبت ان کے سامنے ہاتھ جو ڑ کر کھڑی ہو تی ہے کہ حکم میرے آقا، کسی کس طرح سے اپنی محبت کا جام پلا نا ہے ، کس کو کس طرح عزت سے نواز نا ہے ، کو ئی ان سے سیکھے ، دوستوں کے جگری دوست ، ایک بار دوستی کا ہاتھ بڑ ھا ئیے پھر بھول جا ئیے کہ محسن آپ کا ہاتھ چھوڑے گا ، اپنے دوستوں کے لئے کس طر ح سے قربانی دینی ہے ، اپنے دوستوں کو محبت سے کیسے سرفراز کر نا ہے ، اپنے دوستوں کی عزت کو کس طر ح سے چار چاند لگا نے ہیں کو ئی سیکھنا چا ہے تو محسن عباس کی شاگردی اختیار کر ے ، کھلے ڈھلے مزاج اور خوب صورت لہجے کے مالک محسن عباس نہ صرف مختلف نامی گرامی تعلیمی درس گاہوں کے سربراہ رہے ، بلکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بھی طویل عرصہ فائز رہ کر عزت کما تے رہے۔
، عہدوں سے عموماً شخصیات کی پہچان بنا کر تی ہیں ، عام طور پر دنیاوی چلن یہ ہے کہ اعلیٰ انتظامی عہدے شخصیات کو ’’ عزت ‘‘ سے نوازتے ہیں ، محسن عباس نے یہاں پر بھی اس دنیاوی ریت کو یکسر غلط ثابت کیا ، ملک محسن عباس نے اعلیٰ انتظامی عہدوں کو اپنی خوبیوں سے نہ صرف منفرد پہچان عطا کی بلکہ ان اعلیٰ عہدوں کی شان میں اضافے کا باعث بنے ، بہت سے احباب ملک محسن عباس کی نرم مزاجی اور حلیم طبع کو ان کی کمزور ی سے تعبیر کر تے رہے ہیں ، ایسا ہر گز نہیں ، ان کے مزاج میں سر تاپا محبت شہد کی مٹھاس کی طر ح شامل ہے ، انتظامی عہدوں پر فائز ہو نے کے باوجود معاملات اور مسائل کو ڈنڈے کے زور پر حل کر نے کے بجا ئے ہمیشہ حسن تد بر سے حل کر نے کی روش پر آخر دم تک قائم رہے ، ان کی اسی خاصیت کی وجہ سے نہ صرف عوامی حلقوں سائلین بلکہ اپنے ماتحتوں میں بھی ’’ ڈارلنگ ‘‘ رہے۔
در یادلی کا وصف الگ سے ملک محسن عباس کا وصف رہا ہے ، بہت سے احباب ان کی محبت اور خلوص سے ناجائز فائدہ اٹھالیتے تھے ، اس صورت حال پر ہماری گھنٹوں بحث چھڑی رہتی ، گزارش یہی ہوتی کہ اصل اور کھوٹ میں فرق دیکھ کر چلیں ، جواباً دھمی مسکراہٹ سے کہتے کہ ان کا اپنا ایمان ہے اور میرااپنا ایمان ہے ، ہم دونوں بھا ئیوں کی خلوص نیت اور دلوں کا حال رب کریم جا نتا ہے ، زندگی کے ماہ و سال میں کئی ایسی مشکلات کا بھی سامنا کیا جو اہمارے اپنو ں نے کھڑی کیں ، لیکن حوصلہ ہا رنے کے بجا ئے ان مشکلات سے جاں خلاصی کے لئے ہم مردانہ وار لڑے اور رب کریم کے خاص کرم سے فتح ہمارا نصیب بنتی رہی۔ کچھ ایسے معرکے بھی گلے کا ہار بنے کہ جہاں شاید بڑے بڑے طر م خاں بلکہ تیس مار خاں بھی خاموشی سے کنارے ہوجاتے ، لیکن ایسے جاں گسل معرکو ں میں بھی محسن عباس کے چہرے پر فکر مندی کا تاثر ایک پل کے لئے بھی نظر نہیں آیا ، ایک بار تو معاملہ یہا ں تک پہنچا کہ ایک طرف پنجاب حکومت تھی ذرا سو چئے مقابلے میں پنجاب حکومت ہو اور پنجاب حکومت کی کمان شہباز شریف کے ہاتھ میں ہو تو پھر بس ، لیکن پوری صوبائی حکومت کے مقابلے میں ہم نے بے خوف و خطر لڑ نے کی ٹھا ن لی ، اعصاب کو تھکا دینے والا معرکہ تھا ، ایک طرف شعبہ تعلیم کے ساتھ ہو نے والی زیادتی تھی دوسری جانب جاذب نظر اانتظامی عہدہ لیکن ایک لمحہ سو چے بغیر محسن عباس نے شعبہ تعلیم کے خلاف پنجاب حکومت کے تعلیم کش اقدام کے خلاف لڑ نے کا فیصلہ کیا ، اعصاب کو تو ڑنے والی جنگ شروع ہوئی ، محسن عباس قافلہ کے سالاروں میں شامل تھے ، لڑ ے اور جم کر لڑے ، اسی معرکہ جاں گسل میں ذرائع بلاغ کا فریضہ میرے ذمے لگا ، صحافی دوستوں نے اس جنگ میں کما ل کا ساتھ دیا اپنے ان صحافی دوستوں کے آج بھی ہم تہ دل سے مشکور ہیں ، قصہ مختصر چند دنوں میں ہی محسن عباس کی کمان داری میں شروع ہو نے والے معرکہ میں پنجاب حکومت کو دن میں تارے نظر آنے لگے ، بہر طور نشیب و فراز کا دریا پار کر تے کر تے ملک محسن عباس چالیس سال کی مدت ملا زمت پو ری ہو نے پر سی ای او تعلیم کے عہدے سے گھر ہو لئے ، زما نے کا دستور ہے کہ جا نے والوں کو خداحافظ اور آنے والو ں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ طویل عرصہ تک ملک محسن عباس ایک انسان دوست ااور مہربان ا فسر کے طور پر خلق خدا کے دلو ں پر راج کر تے رہیں گے۔

جواب دیں

Back to top button