آج کے کالمغلام مصطفی

ظلم کیخلاف خاموشی بھی ظلم ہے۔۔۔!

غلام مصطفی

یہ حقیقت ہے کہ ظالم ظلم کرنا جانتاہے لیکن ظلم سہنا نہیں جانتا۔کہتے ہیں کہ ظلم وزیادتیوں کو برداشت کرتے رہنا اور اس کیخلاف جہدوجہد نہ کرنا۔ آواز نہ اٹھانااور ظلم کو کسی بھی طرح روکنے کے لئے کوشش نہ کرنا بھی ظلم وزیادتیوں کے ہی زمرے میں آتاہے۔ ہر وہ شخص جو ظلم ہوتادیکھنے کے باوجود اس کیخلاف بولنے سے ڈرتاہے وہ بھی ظالم کے ساتھ برابر کا شریک ہوتاہے۔برائی کو روکنے کا حکم دین اسلام کی تعلیمات میں واضح طور پردیا گیا ہے۔ اسلام چھوٹی سے چھوٹی برائی کو بھی روکنے کا حکم دیتا ہے لیکن یہاں تو لاکھوں انسانوں کو ناحق اور بے گناہ ہونے کے باوجود کہیں قتل اور کہیں شہید کیاجارہا ہے۔( فلسطین اور کشمیر میں ناحق اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام سب سے بڑی برائی نہیںہے) لہٰذا اس برائی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ہر انسان اور خاص طور پر مسلمانوں کے لئے لازم ہے۔ حدیث میں آتاہے کہ ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے،لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔‘ اسی طرح ایک حدیث کے مطابق ’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو پھر اپنی زبان سے بدل (روک)دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے اوریہ ایمان کا کم تر درجہ ہے۔‘‘ اور یہ حکم ہر مرد وعورت، چھوٹے بڑے سب کے لئے ہے۔ دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کی موجودہ قیادت کی جانب سے فلسطین اور کشمیری مسلمانو ں کے خلاف ہونے والے ظلم وبربریت اوربرائی کو اپنے ہاتھ سے نہ روکنے سے ثابت ہورہاہے کہ اب مسلمانوں کی موجودہ قیادت میں کوئی بھی ایمان کے اول درجے پر فائز نہیں ہے بلکہ مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس اور شرمندگی ہورہی ہے کہ آج کی مسلمان قیادت میں شاید اب ایمان کے آخری درجے جیسی قوت بھی باقی نہیں بچی ہے یہی وجہ ہے کہ آج کے مسلمان کے دل میں دوسرے مسلمان کے لئے وہ دھڑکن اور درد محسوس نہیں کیا جارہاہے جس کاحکم دین اسلام نے مسلمانوں دیا ہے اور درس دیاہے۔ کہتے ہیں کہ ہرایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، لیکن یہاں ایک بھائی کشمیر اور دوسرا فلسطین میں بے رحمانہ طریقے سے شہید کیاجارہاہے اور تیسرا بھائی(پوری دنیا کے مسلمان) خاموش ہیں؟ بلکہ اپنی عیش وعشرت کی زندگی میں ذرا برابر بھی کمی کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہم اب تک اپنے ہی معاشروں سے ہی برائیوں اور ظلم وستم کا خاتمہ نہیں کرسکے تو دوسروں کو اس ظلم و زیادتیوں سے کیسے بچائیں گے؟ جب ہم خود اپنے ہی لوگوں پر ظلم وزیادتی کرنے سے نہیں کتراتے تو پھر دوسروں کے لئے اپنے دل میں کیسے نرم گوشہ رکھ سکتے ہیں۔اس بارے میں نہ صرف سوچنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ دین اسلام کے احکامات پر عمل پابندی سے عمل کرنے بھی ضرورت ہے،جو لوگ اپنے اپنے معاشروں میں ظلم وزیادتی کرکے سمجھ رہے ہیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں اور طاقت کے بولے بوتے پر سب کچھ اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے؟ لیکن حقیقت میں ہرگز ایسا نہیں ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ظالم بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں اور ان کے ساتھ وہ بھی نہیں بچیں گے جو ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے ہیں صرف ظلم سہتے رہتے ہیں۔اب یہ فیصلہ ہم نے کرناہے کہ مظلوم بن کر ظلم سہتے رہتے ہیں یا پھر ظلم کے خاتمے کے لئے میدان عمل میں آتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد اور عالمی امن کے حوالے سے انتباہات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسرائیل غزہ کو بمباری کے ذریعے کھنڈرات بناتاجارہاہے،رہائشی عمارتوں اور آبادیوں کو بمباری کے ذریعے تہس نہس کررہاہے، جبکہ پورے علاقے کو گھیر رکھاہے اور کھانے پینے کی اشیا کو داخل نہیں ہونے دے رہا جس کے باعث لاکھوں زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے جاری اس حیوانیات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران اسلام فوبیا، مذہبی شدت پسندی اور انسانیت کے خلاف نفرت میں حیرت انگیز طور پراضافہ ہوا ہے اور اس کا ایک خطرناک پہلویہ بھی ہے کہ بعض معاملوں میں حکومتیں بھی مذہبی شدت پسندی کو ہوادینے میں مصروف رہی ہیں جس کے نتیجے میں پوری دنیامیں انسانیت پر مظالم اور تشدد نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہے ۔انسانیت پر مظالم کی بدترین مثال اسرائیل نے قائم کی ہے اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی (خاص طور پر معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں) پر بمباری کرکے اپنے آپ کو حیوانوں سے آگے کی کوئی ظالم وجابر مخلوق ثابت کیاہے اور اسی طرح مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم بھی اپنی مثال آپ ہیں۔لیکن سب سے زیادہ افسوس اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کئے جانے والے مظالم کے باوجود مغربی دنیااس ظلم وبربریت کے ساتھ کھڑی ہے۔جبکہ مغربی ممالک اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی تہذیب گردانتے ہیں؟ جوکچھ اسرائیل نے فلسطین میں اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کیاہے۔ کیایہ ہوتی ہے انسانیت ؟ اسے کہتے ہیں انصاف ؟ اس ظلم وبربریت کو کیانام دیا جاسکتا ہے؟اسرائیل نے معصوم فلسطینی بچوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے ہیں جس کی سزا کاتعین کرنا بھی مشکل ہے۔ اسرائیل کے ناپاک وجود کاخاتمہ کرنا بہت ضروری ہوچکاہے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو اسرائیل ایک ایک کرکے تمام مسلمانوں کویا تو ختم کردے گا یا پھر انہیں اپنا غلام بناکررکھے گا۔ اسرائیل کے پرکانٹنے کے لئے تمام مسلمانوں کااتحاد وقت کی شدید ترین ضرورت بن چکا ہے اور مسلمانوں کا یہ اتحاد نہ صرف فلسطینیوں کو بچانے کے لئے ضروری ہے بلکہ خود ان کے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا فلسطینیوں کے لئے ۔

اسرائیل کے سفیر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا ملک دور ریاستی حل کو غزہ میں جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کسی صورت قبول نہیں کریگا بلکہ اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے‘ اسرائیلی سفیر کے اس بیان نے اسرائیل کے خطرناک عزائم بھی ظاہر کردیئے ہیں جبکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسرائیل کی پشت پناہی امریکہ کررہاہے‘ امریکہ نے فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں انصاف نہیں کیا ‘امریکہ نے ہمیشہ اس معاملے میں جانبداری کامظاہرہ کیاہے‘وہ ظلم کے ساتھ کھڑا ہے اس لئے اس کا بھی انجام وہی ہوگا جو سب ظالموںکا ہوناہے۔صہیونی وزراء کے معنی خیز بیانات کے باوجود عالمی برادری خاموشی انسانیت کی پیٹ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل غزہ میں مسلسل وحشت وبربریت کا مظاہرہ کررہاہے‘ اتنے بڑے پیمانے ظلم وجبر کے بعد ایک اور ظلم و زیادتی کرنے کی طرف بڑھ رہاہے۔ امریکی پشت پناہی کے باعث اسرائیل اب فلسطین کے دور ریاستی حل سے بھی بھاگ رہا ہے جس پر امریکہ سمیت کئی ممالک برسوں سے متفق تھے ‘یہ بیان غزہ کی جنگ محدود کرنے کی بجائے مزید بڑھانے کا سبب بننے گا۔دوسری طرف یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ علمائے کرام اور دیگر اہم شخصیات کا ایک جگہ بیٹھ کر مذہبی تعلیمات کو پیش کردینا‘ تقریریں کرنا اور یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے کہ دنیامیں بسنے والے تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اس لئے سب کو آپس میں مل کر رہنا چاہئے‘ بلکہ دنیا میں تیزی سے پھیلتی منافرت، مذہبی شدت پسندی اور تشدد کے خاتمہ کیلئے ہمیں اجتماعات‘ سمیناروں اور بیانات کے دائرہ سے باہر نکل کر عوامی سطح پر کام کرناہوگا اور ان کے سامنے مذہب کی سچی تصویر پیش کرنا ہوگی۔ مذہب کے نام پر کسی بھی طرح کا تشدد قابل قبول نہیں ہوسکتا اس لئے کہ دنیا کا ہر مذہب انسانیت‘ رواداری‘ باہمی اخوت اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کا پیغام دیتا ہے، اس لئے جو لوگ قتل و غارت گری منافرت اور تشدد برپا کرنے کیلئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے ماننے والے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ پوری دنیا میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بستے ہیں اس لئے مستقبل کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے آج سے ہی مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پیارومحبت‘ باہمی اخوت اورانسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور محبت کرنے کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کے غیر قانونی‘ غیر اخلاقی اقدامات کی وجہ سے حماس نے اپنے حقوق کی بازیابی اور زمین کو بچانے کیلئے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیل اپنے جنگی جہازوں اور ٹینکوں کے ذریعے غز ہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کرکے آگ برسارہاہے۔روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بچے ‘ بوڑھے ‘ جوان اورعورتیں شہید ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا اور مختلف ٹی وی چینلز پر فلسطینیوں کی اموات کا منظر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے‘ لیکن کوئی بھی اسرائیلی حملے نہیں روک پارہاا ور نہ ہی کسی جانب سے حماس کی کوئی مدد کی جارہی ہے ‘ فلسطینیوں سے غزہ سے نکالنے کیلئے انہیں خوف ہراس میں مبتلا کرکے جبری ہجرت پر مجبور کیارہاہے‘حالانکہ ایران‘ سعودی عرب اورعرب ممالک سمیت کوئی بھی اسلامی ملک کھل کر ان کی مدد نہیں کررہاہے جبکہ 57اسلامی ممالک میں سے اچھی خاصی تعداد کے پاس بے پناہ وسائل اور طاقت بھی موجودہے جواس ناجائز ریاست اسرائیل کو موثرجواب بھی دے سکتے ہیں لیکن دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں اور انہیں آخرت کی نعمتوں پر پختہ یقین بھی نہیں ہے یہی چیزیں انہیں اسرائیل کے ظلم کاموثر جواب دینے سے روکے ہوئے ہے۔ میرے خیال کے مطابق اگر اسرائیل عالمی دبائو کے تحت جنگ بندی پر راضی بھی ہوجاتا ہے۔ تب بھی اس کے تباہ کن اثرات کئی سالوں تک عوام کے ذہنوں پر حاوی رہیں گے اور وہ بھلائے نہیں جاسکیں گے۔ دراصل ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ اب اسرائیل اپنی بے لگام طاقت اور جارحیت اور مغربی ممالک کی حمایت سے اپنے گردونواح میں واقع عرب علاقوں پر ناجائز قبضہ کرنے سے باز نہیں آئیگا۔ یقینا اس سلسلے میں عرب ممالک کو سوچنا چاہیے کہ ان کا آئندہ ردعمل کیا ہوسکتاہے۔محض اخباری بیانات سے اسرائیل کی توسیع پسندی کو نہیں روکاجاسکتاہے۔ نیز اگر عرب ممالک اوراسلامی ممالک نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات پر خاموشی اختیار کرلی اور غزہ کی بربادی پر صرف نگاہ کیا تو بہت جلد یہ ممالک بھی کسی نہ کسی طرح اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس وقت مسئلہ حماس کی حمایت کا نہیں ہے‘ بلکہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کوروکنے کا ہے جوعربوں کو اپنا غلام بناناچاہتا ہے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ بھی عارضی ہی رہا اور اس جنگ بندی میں کچھ روز کا اضافہ بھی کردیاجاتا تب بھی یہ جنگ روکے گی نہیں کیونکہ اسرائیل اپنی جارحیت سے باز نہیں آئے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button