وسوسے اور انتخابات کا انعقاد ؟
ملیحہ سید
ملک میں ان دنوں عام و خاص میں اہم سیاسی موضوع عام انتخابات ہیں، میڈیا پر چلنے والی دلچسپ خبروں اور نت نئے سیاسی تجزیوں نے بھی عوام میں جہاں جوش و خروش پیدا کر رکھا ہے وہیں یہ وسوسے بھی موجود ہیں کہ آیا انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں۔ اگرچہ نگران حکومت بھی بار بار پھر یقین دہانی کرائی رہی ہے کہ مُلک میں انتخابات الیکشن کمیشن کے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوں گے، تمام سیاسی جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے کے یکساں مواقع میسر ہوں گے اورکسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا ۔ الیکشن کمیشن کی سرگرمیاں بھی زور و شور سے جاری و ساری ہیں ۔ تاحال اب تک کسی سیاسی جماعت پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی گئی کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے سکتی سوائے انتخابی نشان الاٹ کرنے اور اس کی منسوخی کے حوالے سے ۔یوں بھی کسی سیاسی جماعت پر آئینی و قانونی وجوہات کے بغیر پابندی عائد کرنا غیر جمہوری عمل ہے ، ایسا کرنے سے عوام میں مایوسی پھیلتی ہے اور حکومت و ریاست کے خلاف ہر جگہ شدید عوامی رد عمل دیکھنے میں آتا ہے جو جمہوری اقدار اور قومی یکجہتی کے لئے نقصان دہ ہے ۔ دوسری جانب عوام اور سیاسی جماعتوں میں پیدا ہونے والی مایوسی کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر سے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی جنرل اور مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی عبوری فہرست بھی جاری کر دی ہے اور جانچ پڑتال کا مرحلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے ۔
الیکشن کمیشن کی عبوری فہرست کے مطابق چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے لئے مجموعی طور پر 7713 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے، قومی اسمبلی کے لئے مرد امیدواروں کی تعداد 7242 اور خواتین امیدواروں کی تعداد 471 ہے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے 18 ہزار 546 نامزدگی فارم جمع کرائے گئے۔چاروں صوبوں میں خواتین امیدواروں کی تعداد 802 اور مرد امیدواروں کی تعداد 17 ہزار 744 ہے۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کے لئے 3594 مرد اور 277 خواتین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ سندھ میں قومی اسمبلی کے لئے 1571 مرد اور 110 خواتین امیدواروں کے فارم جمع ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کے لئے 1283 مرد اور 39 کی مخصوص نشستوں پر 195 فارم جمع ہوئے۔ سندھ اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر 309 نامزدگی فارم جمع کرائے گئے۔ سندھ میں قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر 118 کاغذات جمع ہوئے۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر 321 فارم وصول کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر 97 کاغذات جمع کرائے گئے۔ بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر 134 فارم جمع ہوئے۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر 49 کاغذات جمع کرائے گئے۔قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر 140 مرد اور 10 خواتین امیدواروں کے کاغذات جمع ہوئے۔
ملک بھر میں قومی اسمبلی میں مردوں کی نسبت خواتین امیدواروں کی شرح 6.10 فیصد جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مردوں کے مقابلے میں خواتین امیدواروں کی نمائندگی 4.32 فیصد ہے۔ ملک بھر میں 28626 جنرل اور مخصوص نشستوں کے امیداروں نے مجموعی طور پر 65 کروڑ 57 لاکھ 40 ہزار روپے فیس جمع کرائی۔ ان میں سے قومی اسمبلی جنرل اور مخصوص نشستوں پر 8322 امیدواروں سے 24 کروڑ 96 لاکھ 60 روپے روپے فیس وصول کی گئی۔چاروں اسمبلی میں جنرل اور مخصوص نشستوں کے 20304 امیداروں نے 40 کروڑ 60 لاکھ 80 ہزار روپے فیس جمع کرائی۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کے 7713 امیدواروں نے 23 کروڑ 13 لاکھ 90 ہزار جمع کرائی۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 18546 امیدواروں نے 37 کروڑ 9 لاکھ 20 ہزار روپے فیس جمع کرائی۔قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی 459 خواتین امیدواروں نے 1 کروڑ 37 لاکھ 70 ہزار روپے فیس جمع کرائی۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر 1365 خواتین سے 2 کروڑ 73 لاکھ روپے فیس وصول کی گئی۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نشستوں پر 150 امیدواروں نے 45 لاکھ روپے فیس جمع کرائی۔صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نشستوں پر393 امیدواروں نے 78 لاکھ 60 ہزار روپے فیس جمع کرائی۔
جمہوریت کی استحکام میں انتخابی عمل کی اہمیت مسلمہ ہے خاص طور پر جب ملک میں معاشی حالات دگر گوں ہوں اور معاشی پالیسیوں میں عدم توازن اور موثر اور ملک گیر پالیسیوں کے فقدان اور قومی حکومت کی غیر موجودگی سے عوام کو لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑے ۔پاکستان اس وقت جس قسم کی سیاسی ، معاشی اور سماجی صورتحال سے گزر رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے جس سے نبردآزما ہونے کے لئے ناصرف ایک قومی حکومت کا وجود ناگزیر ہے بلکہ اسے ملک و قوم کے بہترین مفاد کے لئے آزاد کام اور فیصلے کرنے کی آزادی بھی حاصل ہونی چاہیے ۔ معیشت کے تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی ایک اکثریت ہر روز معاشی حالات کو بہتر کرنے کے نسخے بتا رہی ہوتی ہے مگر بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کے موجودہ معاشی حالات میں ہمیں ہمیں ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو مخصوص طبقات کی بجائے پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ مُلک میں موجود قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے میں ہر حکومت کو نہ جانے کیا مشکل پیش آتی ہے کہ استفادہ حاصل کرنے سے محروم چلے آ رہے ہیں ۔ انہی وسائل کی مناسبت سے متعلقہ علاقوں میں صنعتیں لگا کر مقامی آبادی کے لئے روزگار اور خوشحالی کے راستے کھولے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق تھرپارکر میں اعلیٰ اقسام کے گرینائٹ کے پہاڑ ہیں جس کی صنعت اور بر آمد سے مستفید ہوا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے معدنی وسائل معیشت کی بہتری کا سبب بن سکتے ہیں ۔ مُلک بھر کے دیہی علاقوں میں زراعت سے وابستہ صنعتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ توانائی کے مسائل حل طلب ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں پیشہ ور ماہرین کو ہی خود مختاری دی جائے ناکہ ریٹائرڈ اور غیر متعلقہ افراد کو اہم پوسٹس پر تعینات کر دیا جائے۔ غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ اداروں میں اوپر سے نیچے تک شفافیت کا عمل یقینی بنانا ہو گا ۔ ملک گیر اور عوام دوست پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے ۔امن و امان کی صورتحال میں بہتری بڑا اہم مسئلہ ہے ، اسوقت بھی ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ پچھلے سال کے مقابلے میں تیس سے چالیس اضافہ ہو چکا ہے، اس لئے یہ بھی نئی حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے ۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث قوتوں ، بیرونی ایجنٹوں اور خالص جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لئے تو طاقت اور قانون کی عملداری ناگزیر ہے لیکن سیاسی اسباب سے پیدا ہونے والی عدم برداشت کی صورتحال بات چیت کے ذریعے بہتر ہو سکتی ہے ۔
لوگ اپنی اپنی رائے کا اظہار اور پیشگوئیاں کر رہے ہوتے ہیں، کوئی ایک جماعت کو فاتح قرار دیتا ہے تو کوئی کسی دوسری جماعت کا نام لیتا ہے کہ یہ سب سے بڑا مینڈیٹ لے کر آئیں گے لیکن اہل فکر کا کہنا ہے کہ اتحاد کے بغیر کسی کی حکومت نہیں بن سکتی اور ماضی کی طرح اتحادی دور چلتا ہی رہے گا ۔ ان کی رائے بجا مگر اب مُلکی معیشت اور امن و امان کی صورتحال اُسی طرز پہ حکومت کرنے اور اُسی طریقہ سے بہتر ہر گز نہیں ہو سکتی ۔اس کے لئے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ تجربات کرنے کی بجائے شفاف انتخابات پر توجہ دیں اور عوامی رائے کو تسلیم کیا جائے۔ پہلے ہی پسند ناپسند کے چکر میں اچھا خاصا نقصان اٹھایا جا چکا ہے ۔تمام مکاتب فکر کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کی راہ ہموار کرنے کے لئے شفاف انتخابات کا انعقاد ضروری ہے تا کہ نئی قیادت ان مشکلات پر جلد قابو پا سکے ۔ اسی طرح تمام سیاسی جماعتوں پہ بھی یہ لازم ہے کہ ایک دوسرے پر بے بنیاد الزام تراشی اور گالم گلوچ کی بجائے مل کر متفقہ ضابطہ اخلاق ترتیب دیں تا کہ مُلک میں بد امنی نہ ہو اور انتخابی عمل کسی انتشار سے محفوظ رہے ۔ اس وقت عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایسی قیادت برسر اقتدار آئے جو مہنگائی کو کم کر سکے اور قومی معیشت کو مستحکم کرے۔