قائد کی زندگی کے دلچسپ واقعات
غلام مصطفیٰ
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور بانی پاکستان قائداعظم محمد جناح ؒکا شمار بھی ایسی ہی گوہر نایاب شخصیات میں ہوتا ہے۔آئیے ہم قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چند دلچسپ مگر سبق آموز واقعات پر غور کرتے ہیں۔٭ 1920ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح کی شادی ہوئی تو انہوں نے اپنے غسل خانہ کی تعمیر میں اس وقت کے پچاس ہزار روپے خرچ کئے، مگر یہی جب گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو ڈیڑھ روپے کا موزہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غریب مسلمان ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں پہننی چاہیے۔
٭ ایک مرتبہ برطانیہ کے سفیر نے آپ سے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آ رہا ہے، آپ انہیں ایئرپورٹ لینے جائیں۔ قائد اعظم نے یہ شرط رکھی کہ میں تب ایئر پورٹ جائوں گا، اگر میرے بھائی کی برطانیہ آمد پر وہاں کا بادشاہ اسے لینے آئے۔
٭ 1943ء کو الہ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلبہ کے درمیان اس بات پر تنازع ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرایا جائے۔ مسلمان طلبہ کا کہنا تھا کہ کانگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں کرتا اور چونکہ الہ آباد یورنیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم تھی، اس لئے یہ پرچم اصولاً وہاں نہیں لہرایا جا سکتا۔ ابھی یہ تنازع جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کی یونین سالانہ انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی۔ یونین کے طلبہ کا ایک وفد قائد اعظم کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی رسم ادا کریں۔ قائد اعظم نے طلبہ کو مبارک باد دی اور کہا اگر تمہیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نازیبا حرکت ہے۔ کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ کیا یہ نامناسب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔
٭ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ اپنے دور کے بہت نیک سیرت، اللہ کے بندوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ محمد علی جناح اللہ کا ولی ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آپ اس شخص کی بات کر رہے ہیں جو دیکھنے میں گورا یعنی انگریز نظر آتا ہے اور اس نے داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی، تو امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ نے فرمایا ’’ کہ تم اس کو نہیں جانتے وہ ہمارا کام کر رہا ہے‘‘۔ پیر صاحب کے اس دور میں قریباً 10 لاکھ مرید تھے۔ آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ اگر کسی نے مسلم لیگ اور قائد اعظم کو ووٹ نہ دیا، وہ میرا مرید نہیں۔ آخر میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا ایک قول جو انہوں نے قائد اعظم کیلئے فرمایا ‘‘محمد علی جناح کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کر سکتا ہے‘‘۔
٭ ایک مرتبہ سرکاری استعمال کیلئے 37 روپے کا فرنیچر لایا گیا۔ قائد اعظم نے لسٹ دیکھی تو سات روپے کی کرسیاں اضافی تھیں، آپ نے پوچھا یہ کس لئے ہیں تو کہا گیا کہ آپ کی بہن فاطمہ جناح کیلئے۔ آپ نے وہ کاٹ کے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لو۔٭کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتی تھیں، قائد اعظم محمد علی جناح نے منع فرمایا تھا کہ کچھ بھی کھانے کیلئے نہ دیا جائے۔ 1933ء سے لے کر 1946ء تک قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک اندازے کے مطابق 17 قراردادیں پیش کیں جس میں فلسطین کے حق خود ارادیت کی بات کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا، مگر اس کے باوجود ان کے دل میں امت مسلمہ کیلئے جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔
٭ اس وقت انگریزوں نے ایک قانون بنایا تھا کہ جس کے پاس بھی سائیکلیں ہیں، اس کے آگے لائٹ لگائی جائے۔ ایک مرتبہ قائد اعظم کچھ نوجوانوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کون کون پاکستان میں شامل ہو گا، سب مسلمان بچوں نے ہاتھ کھڑے کئے پھرآپ نے پوچھا کہ کس کس بچے کی سائیکل پر لائٹ موجود ہے۔ اس موقع پر صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ صرف یہ پاکستان میں جائے گا، نوجوانوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا جو قانون پر عمل نہیں کرتا، اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
٭ قائد اعظم جب بیمار تھے تو ایک خاتون ڈاکٹر ان کی خدمت پر مامور تھیں۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے بتائو میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں، تو اس نے کہا کہ میری ٹرانسفر میرے آبائی شہر میں کروا دیں تو آپ نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں یہ وزارتِ صحت کا کام ہے۔
٭ ایک دفعہ آپ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے ٹریک بند ہو گیا۔ آپ کا ڈرائیور اتر کے وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر جنرل آئے ہیں، ٹریک کھولو، مگر ہمارے عظیم لیڈر اور بانی پاکستان نے فرمایا کہ نہیں اسے بند رہنے دو۔ میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔
٭ محمد علی جناح وہ لیڈر تھے جن کے بارے میں انگریزوں نے بھی کہا تھا کہ اگر ہمیں پتہ ہوتا قائد اعظم کو اتنی بڑی بیماری ہے تو ہم کبھی پاکستان نہ بننے دیتے، کیونکہ قائد اعظم نے آخری وقت تک اپنی بیماری کو پوشیدہ رکھا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر میری بیماری کا ہندوئوں اور انگریزوں کو پتہ چل گیا تو ہندوستان کی تقسیم کو انگریز موخر کر دیں گے۔ مرنے سے پہلے آپ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا کہ ’’پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا، اگر اس میں فیضان نبوی ﷺ شامل نہ ہوتا‘‘۔
٭قائد اعظم وقت کے بڑے پابند تھے۔اس بارے میں کئی واقعات مشہور ہیں لیکن ایک واقعہ بہت مثالی ہے۔قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد اسٹیٹ بینک کا افتتاح ہوا۔قائد اس تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔وہ ٹھیک وقت پر تشریف لائے لیکن کئی وزراء اور سرکاری افسران نے ابھی تک تقریب گاہ میں قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا۔ان میں وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔اگلی قطار کی کئی کرسیاں جو بڑے افسران اور وزرائے کرام کیلئے مخصوص تھیں، خالی پڑی ہوئی تھیں۔یہ دیکھ کر قائداعظم کے چہرے پر سرخی سی دوڑ گئی۔انہوں نے کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔اس کے ساتھ ہی فرمایاکہ تقریب گاہ میں موجود تمام خالی کرسیاں اٹھالی جائیں تا کہ جو حضرات بعدمیں آئیں، انہیں کھڑا رہنا پڑے۔اس طرح انہیں پابندی وقت کا خیال رہے گا۔حکم کی تعمیل ہوئی۔تقریب شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد جناب لیاقت علی خان تشریف لے آئے۔ان کے ساتھ چند دوسرے وزراء بھی تھے لیکن کسی شخص کو ان کیلئے کرسی لے کر آنے یا انہیں اپنی کرسی پیش کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔دوسری طرف قائد ملت اور وزیر اعظم کا ظرف بھی یہ تھا کہ کسی کو کرسی سے نہ اٹھایابلکہ تقریب کے دوران لیاقت علی خاں اور ان کے کئی رفقاء کھڑے رہے۔قائد روانہ ہونے لگے تو ان حضرات نے دیر سے آنے پر معذرت کی۔قائد نے کہا:آئندہ وقت کی پابندی کریں۔ اس واقعے کے بعد کسی مقتدر سے مقتدر شخص کو یہ جرات نہ ہوسکی کہ وہ سرکاری تقریب میں دیر سے آئے۔(بشکریہ‘ گوگل اینڈ انٹرنیٹ)
قائداعظم کی زندگی کے ان چند واقعات سے پتہ چلتاہے کہ بانی پاکستان کیسی شخصیت تھے اور وہ پاکستان کو کس قسم کی ریاست بناناچاہتے ہیں،جن لوگوں نے قائداعظم کے انتقال کے بعد ریاست خداداد پاکستان کے قیام کے مقاصد کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کیلئے سیاست کی یا پھر سرکاری عہدوں کا استعمال کیا وہ سب لوگ ملک کے غدار ہیں اور عنقریب اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے اور اگر کچھ وقت کیلئے وہ اپنی لوٹی ہوئی دولت اور طاقت کے بل بوتے پراپنی دنیاوی زندگی میں بچ بھی گئی تو اللہ کے ہاں نہیں بچ سکیں گے۔ پہلے قیام پاکستان اور پھر اس کی آبیاری کیلئے ہمارے آجائو اجداد سمیت لاکھوں لوگوں نے بے شمار اور لازوال جانی و مالی قربانیاں دی ہیں لیکن افسوس کہ ملک خداداد ریاست پاکستان کو ایک گہری عالمی سازش کے تحت ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہوا ،شاید ہم نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔دشمنوں کی دشمنی تو اپنی جگہ ہے لیکن افسوس تو اس بات پر ہورہاہے ہمارے اپنے ہی لوگوں نے ملک سے غداری کی، اس کی تباہی وبربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ‘ آج ہمارا تعلیمی نظام‘ سیاسی کلچر‘ثقافتی کلچر‘ ہمارا معاشی نظام‘ ہمارا عدالتی نظام ہمارا پارلیمانی نظام اور سینیٹ اور دیگر ادارے کیا کررہے ہیں انہیں اپنی اپنی کارکردگی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے‘آخر ہم اس ملک کو کس طرف لے جارہے ہیں؟ یہاں سب کیلئے یکساں انصاف اور برابری کی بنیادپر حقوق کیوں نہیں دیئے جارہے؟ سفارشی کلچر‘ پرچی سسٹم کے ذریعے میرٹ کا قتل کیاجارہاہے؟ اور نااہل لوگوں کو اکثریت پر مسلط کیاجارہاہے یہ سب راستے تباہی وبربادی کی علامت ہیں‘ خدارا ہوش سے کام لیجئے ‘ یہ ملک جتنا ارباب اختیار اور بیورو کریسی کا ہے اتنا ہی ایک عام شہری یادیہاتی کا بھی ہے۔ سب کو ایک نظر سے دیکھنے کی روش اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے کیلئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اصولوں اور فرمانوں کو اپنے ملک میں رائج کیجئے پھر کوئی ہمیں ترقی اور خوشحالی سے نہیں روک سکتا ہے۔ زبان اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرنے بجائے خود ایک قوم بنانے کی کوشش کیجئے۔اگرچہ موجودہ حالات یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ اس پر ایک بار نہیں بلکہ بار بار سوچیئے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ادب معاشرے کی تہذیب وترقی کیلئے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ زندگی اور معاشرے کو ساکت و جامد نہیں ہونے دیتا‘ خود متحرک رہتا ہے اور افراد میں تحرک پیدا کرتا رہتا ہے۔
لاہور()قومی وصوبائی اسمبلی پنجاب اور اقلیتی امیدواروں کی بڑی تعداد پنجاب کے دور افتادہ علاقوں سے شدید سردی اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے لاعلمی کے باعث گزشتہ روز اپنے کاغذات کی سکروٹنی کیلئے صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچ گئی جبکہ شیڈول کے مطابق سوموار کے دن سکروٹنی کیلئےکسی جماعت کے امیدواروں کو نہیں بلایاگیا تھا۔ امیدوار الیکشن کمیشن کے عملے سے توتکرار کرتے بمشکل واپس لوٹ گئے۔ تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کے نئے ترمیمی شیڈول کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے لئے آج بروزمنگل 26 دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی جبکہ پہلے شیڈول کے مطابق 25 دسمبر کو اِن کی سکروٹنی کی جانی تھی لیکن الیکشن کمیشن کے ترمیمی شیڈول سے لاعلم پنجاب کے دور دراز علاقوں سے مخصوص نشستوں کیلئے خواتین اور اقلیتی امیدوار گذشتہ روز صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچ گئے جہاں انہیں بحث و تکرار کے بعد نئے شیڈول سے آگاہ کیاگیا ۔بعض اقلیتی امیدواروںکا کہنا تھا کہ انہوں نے کرسمس کی خوشیاں منانے کی بجائے سارا دن سفر میں گزارا انکی عید خراب ہوگئی جبکہ خواتین بھی اپنی اپنی مجبوریاں بیان کرتی رہیںکہ شدید سردی میں کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد یہاں پہنچے ہیں مگر عملے نے اپنی بے بسی کا اظہار کیااور پولیس نے بھی انہیں الیکشن کمیشن کی عمارت میں داخل ہونے سے روک دیا۔ واضح رہے کہ نئے شیڈول کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز اورمسلم لیگ نون کی مخصوص نشستوں کیلئے سکروٹنی آج 26 دسمبر۔ تحریک لبیک اور جماعت اسلامی پاکستان کی 27 دسمبر جبکہ مسلم لیگ ق، استحکام پاکستان پارٹی، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی سکروٹنی 28 دسمبر کو ہوگی۔