بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کاپاکستان
بانی پاکستان و بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا 147واں یوم ولادت آج 25 دسمبر پیر کو ملک بھر میں قومی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔آج کے دن کی مناسبت سے وفاقی و صوبائی دارالحکومتوں میں توپوں کی سلامی دی جائے گی اور کراچی میں مزار قائد پر گارڈز کی تبدیلی کی تقریب بھی منعقد ہوگی۔ ملک بھر میں بابائے قوم کے یوم ولادت کے سلسلہ میں تقریبات کا انعقاد ہوگا اور ملکی قیادت بابائے قوم کی مدبرانہ صلاحیتوں، فہم و فراست، غیر متزلزل عزم و ہمت، سیاسی بصیرت، دانشمندی اور بے مثل قائدانہ صفات کا اعتراف کرے گی بالخصوص قوم کو درس دیا جائے گا کہ قائدؒ کے پاکستان کو بچانے، اسے مضبوط کرنے، دہشت گردی کے جڑ سے خاتمہ اور ہر قسم کے استحکام کے لئے متحد ہوجائے۔اور قوم دشمنی، عداوت، تباہی و بربادی، فرقہ واریت، انتہاپسندی، دہشت گردی، افراتفری، بدامنی کا پرچار کرنے والے عناصر کے خاتمہ کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے لیکن افسوس قوم کوبانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے فرمودات پر عمل کرنے کی تلقین کرنے والوں میں وہ تمام کمی اور خامیاں محسوس کا جارہی ہیں جنہیں دور کرنے کا قوم کو کئی دہائیوں سے درس دیا جارہاہے۔ کیونکہ آج بھی کچھ بجھتی آنکھیں جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے آزاد وطن کے خواب کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے اپنی جوانی، تن، من ، دھن سمیت اپنے پیاروںکی جانوں کے نذرانے پیش کیے، وہ آنکھیں آج بھی وہ مناظر دیکھنے کو بے چین ہیں جو آزادی کی تحریک کے دوران کے ذہنوں اور آنکھوں میں بار بار آرہے تھے، لیکن آزادی کے بعد اب وہ ڈھونڈے سے نہیں مل رہے، جنہوں نے اپنے پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کیے، مال و املاک چھوڑ کر آگ و خون کے کئی سمندر عبور کرکے اِس پاک دھرتی پر قدم رکھے، آج وہ بزرگ یہ پوچھنےمیں حق بجانب ہیں کہ کیا وطن عزیز اتنی قربانیوں اور اتنی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعداسی لئے حاصل کیا گیا تھا کہ انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی کے بعد ہم اپنے ہی آزاد ملک میں اپنے ہی ہم وطنوں کے غلام بن جائیں، قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد بھول کر نفسانفسی اور ہیجانی میں مبتلا ہوجائیں، نظریات کی جگہ دولت اور اقتدار کے لالچ لے لیں۔ ہم وطنوں کی عزت، وقار اور خون ہر شےسے ارزاں ہوجائے، مفاد پرستی انسانیت اور پاکستانیت پرغائب آجائے۔ ہمارے بزرگ جنہوں نے بانی پاکستان کی آواز پر لبیک کہتےہوئے اُن کے خواب کی تکمیل کے لئے قربانیاں دیں اور بلاشبہ ان گنت دیں، وہ آج ہم سے خوش نظر نہیں آتے، وہ تو چاہتے تھے کہ ہم آزاد مملکت کو ناقابل تسخیر اور اسلام کا قلعہ بنائیں گے، ہر مسلمان نسل در نسل اسی سوچ کو پروان چڑھائے گا اور دنیا پرہماری وجہ سے ہی غلبہ اسلام ہوگا مگرآج کا پاکستان ویسا پاکستان قطعی نہیں جس پاکستان کا تصور آزادی سے پہلے سوچا گیا تھا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آج وطن عزیز کو جن چیلنجز کا سامناہے، بانیان پاکستان کو ان سے کہیں زیادہ مشکل چیلنجز درپیش تھے، لیکن انہوں نے گروہوں میں تقسیم مسلمانوں کو ایک قوم بنایا اور پھر اسی قوم نے آزادمملکت کا خواب سچ کردکھایا، مگر آج ہم ایک بار پھر قوم سے گروہوں، برادریوں، فرقوں، ذات پات ، امیر اور غریب میں تقسیم ہوچکےہیں کل ہمارے مدمقابل مکار ہندو اور انگریز تھے، مگر آج قوم کی بڑی تعداد اپنے ہی ہم وطنوں کے زیرعتاب ہے، قول و فعل کا تضاد، انفرادی مفادات، لالچ اور طاقت اور غلبہ حاصل کرنے کی خواہش نے آج قوم کو منتشر کردیا ہے ۔ کوئی اقتدار کے حصول کے لئے ریاست کےمفادات کے خلاف ہرزہ سرزائی سے باز نہیں آتا۔ کوئی ملک میں رشوت اورچور بازاری کو کاروبار قرار دے بیٹھا ہے جیسے غریب ہم وطنوں کا استحصال اِس پر فرض ہوا۔ در حقیقت آج ہم اتنے بطور ریاست اتنے طاقت ور ہیں کہ دیگر اقوام ہم پر رشک کرتی ہیں مگر دوسری طرف اپنی خامیوں اور لالچ اور بے مقصد طاقت کے حصول کی دوڑ میں داخلی طور پر بطور قوم انتہائی کمزور بلکہ لاغر ہوچکےہیں کیونکہ امیر اور غریب کے درمیان تفریق بہت بڑھ چکی ہے، ہمارے سربراہان خواہ وہ سیاسی ہوں یا اداروں کے، انہوں نے کبھی اس فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ملک کے موجودہ حالات کا قائدؒ کے پاکستان کے ساتھ کبھی موازنہ کیا۔ لہٰذا ضروری یہی محسوس ہوتا ہے کہ عوام سے زیادہ عوام پر حکمرانی کرنے والوں کو سمجھا یا جائے کہ یہ قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے خواب کی تعبیر والا پاکستان نہیں ہے۔