آج کے کالمساجدہ صدیق

قائد اعظمؒ کی حیات پر ایک نظر

ساجدہ صدیق

محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876 کو کرچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناحؒ کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر اُبھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کیلئے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنمائوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔
1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کیلئے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کیلئے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کیلئے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کیلئے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
١٩٣٠ سے جناح تپ دق کے شکار چلے آ رہے تھے اور یہ بات صرف ان کی بہن اور چند دیگر ساتھیوں کو معلوم تھی۔ جناح نے اس کا اعلان عوام میں نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ انہیں سیاسی طور پر نقصان دے سکتی تھی۔ 1938ء میں اپنے ایک حامی کو خط میں وہ لکھتے ہیں’’تم نے اخبار میں میرے دوروں کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ میں اپنی خرابی صحت کی وجہ سے اپنے دوروں میں بے قاعدگیوں کا شکار تھا جس کی وجہ میری خراب صحت تھی‘‘۔کئی سال بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ اگر انہیں جناح کی خرابی صحت کا معلوم ہوتا تو یقیناً وہ انکی موت تک انتظار کرتے اور اس طرح تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔فاطمہ جناح بعد میں لکھتی ہیں کہ’’ جناح اپنے کامیابیوں کے دور میں بھی سخت بیمار تھے۔وہ جنون کی حد تک پاکستان کو سہارا دینے کیلئے کام کرتے رہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اپنی صحت کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا‘‘جناح اپنے میزپر کراؤن اے سگریٹ اور کیوبا کا سگار رکھتے تھے اور پچھلے تیس سال میں انہوں نے سگریٹ نوشی بہت زیادہ کردی تھی۔گورنمنٹ ہائوس کراچی کے پرائیویٹ حصے میں وہ لمبے وقفے آرام کے واسطے لینے لگے تھے اور فاطمہ جناح اور ذاتی عملے کو ہی ان کے قریب رہنے کی اجازت تھی۔
جون 1948ء میں وہ اور فاطمہ جناح کوئٹہ روانہ ہوئے جہاں کی ہوا کراچی کے مقابل سرد تھی۔ وہاں بھی انہوں نے مکمل آرام نہ کیا بلکہ انہوں نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے افسروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا’’آپ دیگر افواج کے ساتھ پاکستان کے لوگوں کی جانوں، املاک اور عزت کے محافظ ہیں۔‘‘وہ یکم جولائی کو کراچی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جلسے سے خطاب کیا،اسی شام کینیڈا کے تجارتی کمیشن کی جانب سے آذادی کے حوالے سے منعقد تقریب میں شرکت کی جو انکا آخری عوامی جلسہ ثابت ہوا۔
6 جولائی 1948ء کو جناح واپس کوئٹہ روانہ ہوئے اور ڈاکٹروں کے مشورے پر آپ مزید اونچے مقام زیارت منتقل ہوئے۔ اس دوران میں جناح کا مسلسل طبعی معائنہ کیا گیا اور انکی طبعی نزاکت دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بہترین ڈاکٹروں کو ان کے علاج کیلئے روانہ کیا۔ مختلف ٹیسٹ ہوئے جنہوں نے ٹی بی کی موجودگی اور پھیپھڑوں کے سرطان کا بتایا۔ جناح کو ان کی صحت کی جانکاری دی گئی اور انھیں ڈاکٹروں کو اپنی حالت کے حوالے سے آگاہ رکھنے کا کہا گیا نیز فاطمہ جناح کو بھی انکا خیال رکھنے کا کہا گیا۔ انھیں اس دور کے نئے’’معجزاتی دوائی‘‘سٹریپٹو مائیسن دی گئی لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا۔ لوگوں کی نماز عید میں ان کیلئے کی گئی خصوصی دعاؤں کے باوجود انکی صحت برابر گرتی رہی۔ انہیں آزادی سے ایک دن قبل 13 اگست کو کم اونچے مقام کوئٹہ لایا گیا انہوں نے اس دن کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا۔ ان کا اسوقت وزن گر کر محض 36 کلو رہ گیا تھا ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ اگر اس حالت میں انہیں کراچی زندہ حالت میں لے جایا گیا تو تب بھی وہ کم عرصہ ہی زندہ رہ پائیں گے۔ لیکن جناح کراچی جانے پر تذبذب کا شکار تھے ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے معالج انہیں بے کار سٹریچر پر بیٹھا معذور خیال کریں۔
9 ستمبر کو جناح کو نمونیا نے آگھیرا۔ اب ڈاکٹروں نے انہیں کراچی کا مشورہ دیاجہاں وہ بہتر علاج کر سکتے تھے اور ان کی رضامندی پر وہ 11 ستمبر کو کراچی روانہ ہوئے۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر الہٰی بخش کا اندازہ ہے کہ جناح کی کراچی جانے کی رضامندی انہیں اپنے زندگی سے مایوس ہونے کی وجہ سے تھی۔ جب اس طیارے نے کراچی میں لینڈنگ کی تو فوراً جناح کو ایک ایمبولینس میں لٹایا گیا۔ لیکن یہ ایمبولینس راستے میں خراب ہو گئی تب تک جناح اور ان کے رفقاءمتبادل ایمبولینس کا انتظار کرتے رہے، انہیں کار میں بٹھایا نہیں جاسکتا تھاکیونکہ وہ سیدھے بیٹھنے کی حالت میں نہ تھے۔ وہ لوگ شدید گرمی میں وہاں انتظار کرتے رہے اور ان کے سامنے سے گاڑیاں اور ٹرکیں گزرتی رہی جنہیں اس قریب المرگ شخص کی پہچان نہ تھی۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک ایمبولینس پہنچی اور جناح کو سرکاری گھر میں منتقل کیا گیا۔ جناح صبح کے 10:20 منٹ پر اپنے کراچی گھر میں 11 ستمبر 1948ء کو پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد انتقال کر گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button