کاغذاتِ غلامزدگی!

کیا دیکھتے ہیں کہ چندروز سے ہزاروں غلام سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ صبح ہی صبح اپنے اپنے آقا کے ہاں پہنچتے ہیں، کہ الیکشن تک اِن کا ناشتہ آقا کے گھر سے ملنے کا اعلان ہوا ہے۔ اِس عمل کو تضاد نہ جانا جائے کہ غلاموں کا اپنا کونسا گھر ہوتا ہے؟ آج کل کے غلام بہت ماڈرن ہیں، غلامی اور آقائی کے تقاضے بھی صدیوں پرانے والے نہیں رہے۔ بہرحال ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد یہ اپنے آقا کو کندھوں وغیرہ پر اٹھا کر ایک ایسے مقام پر لے جاتے ہیں جہاں موصوف نے اپنے غلامی کے کاغذات جمع کروانے ہوتے ہیں۔ جسے یار لوگوں نے ’’کاغذاتِ نامزدگی‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ چھوٹے غلام بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ اُن کا آقا بھی دراصل غلام ہی ہے، بس یہ ایسی خفیہ سچائی ہے جس سے تمام لوگ ہی آگاہ ہوتے ہیں، مگر کوئی یہ سچ زبان پر نہیں لاتا۔ وہ نعرے لگاتے، شور مچاتے، رونق بڑھاتے بلکہ ہنگام مچاتے اپنا حقِ غلامی ادا کرتے ہیں۔ اُن کا آقا چند اہم اور پختہ کار غلاموں کے ساتھ اندر دفتر میں جاتا ، اپنی غلامی کی دستاویز جمع کرواتا، فاتحانہ کامیابی کا نشان بناتاباہر آتا ہے، یوں یہ قافلہ اپنے مقامی آقا کے گھر واپس آتا اور مجمعِ غلاماں بکھر جاتا ہے۔
ابھی اگلے قریباً ڈیڑھ ماہ تک ہزاروں غلام اپنے اپنے آقائوں کو کندھوں پر اٹھا کر گلی گلی پھریں گے، گھر گھر دستک دیں گے، دکان دکان پر جائیں گے، فرداً فرداً ملاقاتیں کریں گے، آقا اپنے حلقے میں پھیلے ہوئے غلاموں اور ان کے ملنے والوں کو فرشی سلام کرکے اتنا متاثر کر دے گا کہ کئی کئی روز تک سلام وصول کرنے والے کی طبیعت مخمور رہے گی۔ پھر آٹھ فروری آ جائے گی، اگرچہ یہ ہر سال آتی ہے، مگر اس دفعہ پہلے سے کچھ مختلف ہوگی۔ سات فروری کی رات غلام اور آقا میں سے کوئی بھی چین سے نہیں سو سکے گا،کہ کل کیا ہونے والا ہے، کیسے ایک ایک دروازہ کھٹکھٹانا ہے، کیسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غلامی کا طوق پہنانے والے مقام تک لے جانا ہے؟ جہاںتمام غلام مخصوص جگہوں پر جمع ہو کر اپنی امانتیں اپنے آقا کے سپرد کریں گے؟ کیسے غلامی کی پرچیوں پر مہریں لگانی ہیں؟ اور شام کو نتیجہ آنے پر کیسے آقا کو ایک بار پھر کندھوں پر اٹھا کر پورے شہر کا چکر لگانا ہے۔ عام غلاموں کا اپنے آقا کے ساتھ یہ آخری موقع ہوگا، اس کے بعد پانچ برس تک صرف خاص غلام ہی ساتھ رہ سکیں گے۔
جو آقا شہر شہر ، گائوں گائوں سے منتخب ہو کر لاہور یا اسلام آباد جائیں گے وہ بھی یہاں تو آقاتھے، مگر ’’اوپر والوں‘‘ کے وہ بھی غلام ہیں۔ وہ اپنے آقائوں کے ٹکٹ پر ہی انتخابی میدان میں اترتے ہیں۔ اُنہیں اپنے اپنے آقا کو راضی کرنے اور خوش رکھنے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کبھی نگاہ مِلا کر اُن سے بات نہیں کر سکتے ، ٹکٹ کے لئے پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے جمع کروانے ہوتے ہیں، جو لفظ آقا کی زبان سے نکلے اُسی کو بیانیہ بنانا ہوتا ہے، آقا کی تعریفوں کے پُل باندھنے ہوتے ہیں، آقا کے مخالفوں کو منہ توڑ جواب دینا ہوتا ہے، اپنے غلاموں کو اپنے آقا کے نام پر جذباتی کرنا ہوتا ہے۔ اپنے آقا سے ہونے والی بے عزتیوں کو اپنے غلاموں سے چھپانا ہوتا ہے۔ اِن تمام اہم فرائض کی انجام دہی کے بعد پھر بہت حد تک آزادی ہوتی ہے کہ جتنا مال بنا سکیں بنا لیں۔ مال جتنا زیادہ ہوگا، غلام اُتنے ہی زیادہ متاثر اور خوش ہوں گے ۔ کوئی عام آدمی سیاست میں آکر دیکھ لے، سیاسی غلام اُس کا کیا حشر کرتے ہیں؟متاثر کرنے کے لئے اخلاق، کردار اور خدمت وغیرہ ثانوی اوصاف ہیں، سب سے ترجیحی چیز مال و دولت ہے۔
یہ منتخب ہونے والے تمام مقامی آقا اقتدار کے ایوانوں میں جا کر اپنے سیاسی قائدین کے عملی غلام ہوتے ہیں۔ فنڈ اور خوشامد کی بنیاد پر وزارتوں سے نوازے جاتے ہیں، انہی خوبیوں کی بنا پر مشاورتیں اور اداروں کی سربراہیاں عنایت ہوتی ہیں، مراعات کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ آقا کے سامنے آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور نظریں ملا کر بات کرنے کامطلب عہدے سے ہاتھ دھونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت ہی محتاط طریقے سے خاردار راہوں پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اپنے آقا کو خوش رکھ کر اپنے خرچے پورے کرنا، اپنے چیدہ چیدہ غلاموں کے مفادات کا خیال رکھنا، اپنی ذات اور قریبی حلقہ احباب کو بہتی گنگا میں اشنان کروانا ہی اُن کا مقصدِ حیات قرار پاتا ہے۔
غلامی کا یہ سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لیتا، اب حکومت کا کام شروع ہوتا ہے۔ عوام تو ٹھہرے اُن کے غلاموں کے غلام، اور حکمران قرار پائے آقائوں کے آقا۔ عوام کے لئے تو حکمران بہت بڑی اور اعلیٰ تر چیز ہوتے ہیں، جن سے ہاتھ ملانا تو در کنار ، اُن کی شکل بھی دور سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ بس ٹی وی یا آج کل سوشل میڈیا پر اُن کی تصویریں دیکھ کر ہی آنکھیں ٹھنڈی کر لی جاتی ہیں۔ اِن مقدس ہستیوں میںسے اگر کوئی کسی خاص موقع پر عوام میں آ ہی جائے تو یہ پلکوں سے اپنے آقا کے آقا کی بلائیں لیتے اور دعائیں دیتے ہیں۔ اِس قربت کو اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ بنا کر وہ ہمیشہ دل میں بسا کر رکھتے ہیں۔ یہ غلامی جبر کے زمانے والی نہیں، اِس میں عقیدت اور اندھی تقلید بھی شامل ہوتی ہے، بہت سے اپنی مرضی سے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں نچلے غلام ایک لفظ سننے کے روادار نہیں ہوتے، وہ بناوٹ اور تصنع کے تہہ در تہہ غلافوں میں چھُپے مکروہات کے ڈھیر ہوتے ہیں، پردے نہ بھی ہٹائے جائیں تو نگاہِ دور بیں سے دیکھا جا سکتا ہے، کہ جن کی پوجا کی جارہی ہوتی ہے ، وہ بھی کسی کے غلام ہوتے ہیں۔ در اصل وہ اپنے ماتحت غلاموں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ایسے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں کہ نیچے والے اُن پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ وہ کسی کے غلام ہو ہی نہیں سکتے۔ یہاں تو بیوروکریسی نے بھی عوام کو غلام بنا رکھا ہے، کسی حکمران کے مقامی دورے پر بیوروکریسی کی پھُرتیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں، وہ کس طرح عوام کو دباتے اور حکمرانوں کو خوش کرتے ہیں۔ ہمارے آقا نما حکمران بیرونی دنیا اور آئی ایم ایف کے سامنے عین غلامانہ ذہنیت کے مطابق کشکول لئے کھڑے ہوتے ہیں، اِس خیال سے کہ مسکین اور مظلوم شکل دیکھ کر شاید اُنہیں ترس آجائے۔ عوام نامی غلاموں کا خون نچوڑ کر آئی ایم ایف جیسے آقائوں کے قرضے اتارے جاتے ہیں، اُنہی قرضوں سے عیاشیاں کی جاتی ہیں اور اپنی نسلوں کے مقدر سنوارے جاتے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک تمام غلاموں کے حصے میں کچھ نہ کچھ آ جاتا ہے، سوائے عوام غلام ابنِ غلام کے۔