سچ کا بار کس کے سر

احمد خان
بڑے میاں صاحب نے پارٹی اجلاس سے خطاب میں پھر فرمایا ہے کہ اقوام غیر ترقی کے آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور ہم چار دن ترقی کے بعد پھر سے وہیں پر آجا تے ہیں جہاں سے ترقی کا سفر خدا خدا کر کے شروع کرتے ہیں۔ صرف بڑے میاں صاحب ہی نہیں بلکہ ہر با شعور پاکستانی کے لبوں پر یہی سوال رقص کر رہا ہے ، ہر حکمران نے اقتدار میں آنے کے بعد ملک اور قوم کو مثالی خوش حالی کے ساتویں آسماں پر پہنچانے کے وعدے کیے لیکن ’’مر ض بڑھتا گیا جو ں جو ں دوا کی‘‘ کے مصداق ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے والے انہی حکمرانوں کی پالیسیوں سے ملک ترقی کے بجا ئے بتدریج زبوں حالی کا شکار ہوتا چلا گیا ، اقوام غیر کی نظیر ہمارے ہر دور کے حاکم بالخصوص جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو خوب دیتے ہیں ، سوال صرف اتنا سا ہے کیا اقوام غیر کے باسیوں نے اس بنا پر ترقی کا سفر سالوں کے بجائے مہینوں میں طے کیا کہ ان کے دو کے بجائے چار ہاتھ ہیں یا ان کے ایک بجا ئے دو دو دماغ ہیں؟
عیاں سی بات ہے کہ قطعاً ایسا کچھ نہیں ہے، جان سے عزیز وطن عزیز کے باسیوں کی طر ح ان کے بھی دو ہاتھ اور ایک ایک دماغ ہیں وہ اسی طر ح کے گوشت پوشت کے انسان ہیں جس طرح سے پاکستان کے باسی ہیں ، اقوام غیر کے باسیوں نے انہی دو ہاتھوں اور ایک دماغ کو استعمال میں لا کر اپنے اپنے ممالک اور معاشروں کو ترقی کے راہ پر ڈالا ۔ فرق دراصل کیا ہے ، اقوام عالم کے حاکم اپنے ممالک سے مخلص ہیں انہوں نے اپنے ممالک کی ترقی اورعوام کی فلا ح کے لئے عوام اور انسان دوست پالیسیوں پر نہ صرف باریکی سے سر کھپا یا بلکہ پھر پوری خلوص نیت سے ان ملک اور عوام دوست پالیسیوں کو عملی جا مہ پہنایا ، اقوام عالم کی ہر شعبہ ہا ئے زندگی میں مثالی کامرانی کا دوسرا اہم راز تمام تر فیصلوں میں اہلیت پر عمل اور قانون کی پاس داری رہا ہے، جتنے بھی ممالک کو آج وطن عزیز میں ترقی کے ’’مینار ‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، ان ممالک میں ہر حاکم نے انفرادی اور اجتماعی امور میں ہر لحظہ اہلیت کو مقدم رکھا، اہلیت دراصل وہ کسوٹی ہے جسے معیار بنا کر معاشرے ہوائوں میں اڑنے لگتے ہیں ، اہلیت کے وصف کے ساتھ پھر ان ترقی یافتہ ممالک میں قانون کے آگے سر تسلیم خم کر نے کی روش نے گویا سو نے پہ سہاگے کا کام کیا ، ان ترقی یافتہ ممالک میں عام شہری سے لے کر حکمران قبیلے تک قانون سے ہیرا پھیر ی کر نا تو دور کی بات ایسا کچھ کر نے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، قانون پر بے لاگ عمل درآمد ترقی یافتہ ممالک کا وہ ہتھیار ہے کہ جس کے بل پر ان ممالک میں خوش حالی نے چہار سو ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔
اس کے بر عکس یہا ں کیا ہوتا رہا ، یہاں پہلے تو قانون نام کی شے صرف کتابوں لچھے دار تقریروں اور بیانات میں ملتی ہے ، گر غلطی سے کہیں قانون کی ’’ ہما ‘‘ نظر آئے بھی تو وہ بھی لا چار اور بے کس شہر یوں کی کمر پر چابک برستے نظر آتا ہے ، طاقت وروں کو یہا ں ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کی انمول سہولت حاصل ہے ، طاقت وروں کو قانو ن سے بالا رکھنے کی روش بد نے نہ صرف یہ کہ ہر حوالے سے اس اہم ترین ملک کا کباڑا کیا بلکہ عوام کے مسائل اور مصائب میں بھی بے پنا ہ بڑھوتری کی ، آئین سے صریحاً رو گر دانی اور قانون کو ہاتھ کی چھڑی بنا نے والے حاکم اور حاکم قبیلے سے جڑے قدر دانوں کے دل میں جو سما یا وہ انہوں نے دھڑلے سے کیا ، طاقت کے وصف سے لیس مقتدر قبیلے کو بھلے طور پر معلوم ہے کہ وہ سیا ہ کر یں یا سفید قانون ان کی گھر کی لونڈی ہے سو انہیں نہ آج نہ کل کلاں کو ئی مائی کا لعل ان سے پو چھ تاچ کر نے کی جرأت رندانہ کر سکتا ہے ، حاکم قبیلے کو آئین اور قانون سے کامل آزاد رکھنے کی روش دراصل اس ملک اور قوم کی تنزلی کی بنیادی وجہ ہے ۔
عوام دوست آئین بنا نے کا ذمہ کن کا تھا ، آئین اور قانون پر بلا امتیاز عمل در آمد کر نے کی ذمہ داری کن پر عائد ہو تی تھی، ملک اور عوام کے حقوق کو پائوں تلے روندنے والوں کو قانون کا ’’زیور ‘‘ کس نے پہنانا تھا ، ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے منصوبے بنا نے کا ’’ ہنر خاص‘‘ کن کے ہاتھوں میں تھا ، عوام کے لئے آسانیاں پیدا کر نے کی ذمہ داریاں کن کے کندھوں پر تھیں ، یہ کو ئی الجبرا کے ٹیڑھے سوال نہیں کہ جن کے جواب کسی کو معلوم نہ ہو ں ، ملک کی ترقی کے لئے جا مع پالیسیاں بنا نے کا فر ض ہر دور کے حاکم پر عائد تھا ، آئین کی علم برداری اور قانون کی پاس داری کو ہر صور ت ہر حال میں یقینی بنا نا ہر دور کے حاکم کا کام تھا ، در یا کو کو زے میں یو ں بند کر نے کی سعی کی جاسکتی ہے کہ ہر وہ حاکم ہر وہ فرد جو اقتدار کا کسی نہ کسی طور حصہ رہا وہ ملک اور قوم کا مجرم ہے کہ اقتدار سے جڑے ان طاقت وروں نے خلوص دل سے ملک اور عوام کی ترقی اور بھلے کے لئے اس طر ح سے اپنے عہدوں سے ’’انصاف ‘‘ نہیں کیا جس طر ح سے ملک اور قوم کی بہتری کے لیے انہیں اپنے اختیارات اور صلاحیتیوں کو استعمال کر نا چا ہیے تھا ، خدا را قوم سے آدھا سچ نہ بولیں قوم سے پورا سچ بولیں اور قوم کے سامنے سچ رکھیں ۔