خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان
(گذشتہ سے پیوستہ)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، پھر فرمایا گیا کہ رزق میں دوں گا۔ محنت کرناتگ و دو کرنا ہم پر چھوڑا گیا ـ ہماری برادشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنے کا وعدہ کیا گیا ہے تو پھر ہم مایوسی کے مرتکب کیوں اور کیسے ہو سکتے ہیں ـ اس نے کہا مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا ـ اگر نہیں مل رہا تو سوچیں کہ کہاں غلطی کر رہے ہیں ، اپنے مانگنے کا انداز بدل کر دیکھ لیں ـ صبر کرنے والوں کو اجر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے پھر ہم وہ کام کیوں کرتے ہیں جس سے نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ حرام قرار دیا گیا ہے ـ۔
مانا کہ حالات ناگزیر ہو گئے، دنیا والوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ، گناہ کر بیٹھے ہیں تو معاف کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے، دنیا معاف نہیں کرے گی لیکن ایک بار دل سے اللہ سے معافی مانگ کر دیکھ لیں وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا لیکن موت کو گلے لگانے کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے کسی بھی صورت میںـ آج تک سائنس اتنی ترقی نہیں کر سکی کہ زندگی اور موت کا وقت معلوم کر سکے تو پھر جب ہمیں اپنے اگلے لمحے کا نہیں معلوم تو ہم قبل از وقت کیسے موت کو گلے لگا سکتے ہیں ـ ۔
حضرت ایوب علیہ اسلام نے کئی برس شدید بیماری اور معذوری میں گزارے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اس یقین کے ساتھ کہ جس نے بیماری دی ہے وہ شفا یاب بھی کرے گا اور وہی ہوا اللہ تعالیٰ نے بالآخر شفا نصیب کی ـ، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے پھر وہ نہ پہلے ملے گا ، نہ ہی بعد میں، نہ اس سے زیادہ ملے گا نہ ہی کم ـ
ڈپریشن کی دوسری قسم فنکشنگ ڈپریشن ہے جس میں انسان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے ، شہرت، دولت ، عیش و آرام، خاندان، عزیز و اقارب، دوست احباب ، کامیابیاں ، بظاہر وہ خوش بھی نظر آتے ہیں ، ہنستے بولتے ہیں لیکن پھر بھی خودکشی کر لیتے ہیں ـ جس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی ـ دراصل ایسی صورت میں ہم سب کے ساتھ ہوتے ہوئے اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں ، من چاہے شخص کی توجہ نہ ملنا، ان کا رویہ ، ان کی بے رخی مار دیتی ہے ـ لوگوں کی توجہ نہ ملنا، تعریف نہ ہونا بھی وجہ بن جاتا ہے ـ جب تعریف نہ ہو، سراہا نہ جائے، تب بھی انسان اپنی ہی نظر میں وقعت کھو دیتا ہے وہ سوچتا ہے کہ میں اتنا کر رہا ہوں لیکن کسی کو احساس نہیں ، پرواہ نہیں تو پھر کیا فائدہ ـ دوسری وجہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے، ہمدردی لینے کے لئے بھی ایسا اقدام اٹھایا جاتا ہے لیکن اسی میں جان چلی جاتی ہے ـ ۔
اکثرایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا اور نہ کوئی کسی دوسرے کی بات کو، جزبات کو دلی یا دماغی کیفیت کو سمجھ سکتا ہے ـ ایسے میں تنہائی کا شکار ہو کر بھی لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ ـ
خود کشی کی روک تھام کے لئے ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے جلد نتائج مرتب ہوں جیسا کہ میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ـ ہمیں ایسے ڈرامے ، پروگرام نشر کرنے چاہیے جو آگاہی پیدا کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کیسے انھوں نے ڈپریشن سے باہر آنا ہے ـ علاج کروانا کوئی معیوب بات نہیں ہے ـ۔
ڈپریشن کے علاج کو سستا اور ہر کسی کی پہنچ میں ہونا چاہیے تاکہ کسی ماہرِ نفسیات تک پہنچنا اس سے بات کرنا آسان ہو سکے ـ ۔
اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا شخص ہے جو تنہائی اور مسائل کا شکار ہے تو آگے بڑھ کر اس کی مددد کریں اور کچھ نہیں تو اپنا وقت دیں تاکہ وہ اپنے دل کی بات کر کے اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کر سکے ـ ۔
بچوں خاص طورپر نوجوان بچوں کے ساتھ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ دوستانہ ماحول قائم کریں اور ان کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ ان کی زندگی کا علم ہو سکے ـ۔
دوسروں کی بات کو سنیں ، تنقید نہ کریں ، کوئی نتیجہ اخذ نہ کریں ، تذلیل نہ کریں کبھی مذا ق میں بھی عزتِ نفس کو مجروح نہ کریں کیونکہ معلوم نہیں وہ شخص اُس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہو اور آپ کے کہے الفاظ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں ـ ۔
جب کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے تو اس پر کوئی نصیحت، کوئی دلیل ، کوئی آیت کوئی حوالہ کام نہیں کرتا ہاں اس کو وقت دیں تاکہ وہ اپنے دل کی بات کھل کر ،کر سکے ـ توجہ دیں اور اس کی بات سنیں کسی نتیجے پر نہ پہنچیں بس اس کو اپنا قیمتی وقت دیں تاکہ اس کو محبت کا ، اپنایت کا احساس مل سکے کیا معلوم آپ کے دیے ایک منٹ سے اس کو نئی زندگی مل جائے ـ ۔
منفی رجحانات کی روک تھام اور مثبت سوچ کے کرامات کے بارے میں اوائل عمر سے ہی ذہنی تربیت کی اشد ضرورت ہے،اس سلسلے میں والدین، اساتذہ اور ڈیجیٹل و الیکٹرانک میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا ـ ۔
ہمیں اپنے پروگراموں اور ٹاک شوز کے ذریعہ یہ شعور دینا ہو گا کہ خودکشی کرنا بزدلانہ فعل ہے ہمیں مسائل کا بہادری سے سامنا کرنا چاہیے ،ہر مسئلے کا حل موجود ہے ـ۔ محنت، جستجو، استقامت ، مستقل مزاجی اور صبر کا دامن تھامے رہنا چاہیے اور کبھی بھی کسی بھی صورت میں اللہ پر اپنا بھروسا کمزور نہیں کرنا چاہیے ـ صرف ایک لمحہ ہوتا ہے اگر ہم اپنے مضبوط اعصاب کی بدولت اس لمحے سے نکل آئیں یا نکلنا سیکھ لیں تو اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں ـ۔