ڈیجیٹل سیاسی شعور اور انتخابات
آصف رفیق
موجودہ دو ر میں ترقی کرنے والے ممالک اس تیزرفتار ترقی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے بہت اہم کردار ادا کیاہے اور یہ بات اب یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے آئندہ جو بھی ملک یا قوم تیزترین ترقی کرے گی وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دنیا میں نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جارہی ہیں ‘ اس تیزرفتار دور میں وہی قومیں پیچھے رہ جائیں گی جو اپنے نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبے میں پروفیشنل نہیں بناسکیں گی‘ بدقسمتی سے پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ بہت برے حالات سے دوچار ہے‘ یہاں پر نان پروفیشنل لوگوں کی بھرمار ہے جبکہ
پروفیشنل لوگ ملک کے اندر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی ممالک جارہے ہیں بلکہ 9لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ کر باہر جا چکے ہیں‘ نئی ٹیکنالوجی آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا کردیا ہے‘جس کے باعث دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں اور سرکاری اداروں میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو تعینات کرنا شروع کردیا گیا ہے۔اس نئی ٹیکنالوجی میں بڑی بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کررہی ہیں جس سے ظاہر ہوتاہے کہ بہت جلد یہ ٹیکنالوجی یورپ سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لگی اور اس کے بعد بے روزگاری کا ایک طوفان آمڈ آئے گا؟ لیکن ابھی تک یہ صرف ایک رائے ہے ‘ بے روزگاری کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ بطور مسلمان ہمارا ایمان اور یقین
ہے کہ رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اور وہی کوئی نہ کوئی سبب بھی بنائے گا ۔دنیا اب سمٹ رہی ہے‘ آج کی ڈیجیٹل دنیا ماضی کے تصورات سے بہت مختلف ہے‘ آج آپ گھر بیٹھے اپنے یوٹیلیٹی بلز اور دیگرادائیگیاں اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے کرسکتے ہیں ‘ آپ کو اُس مقام پر جانا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی میلوں کا سفر طے کرنا ضروری ہے ‘جہاں یہ سب کچھ مینول طریقے سے کیا جارہاہوتاہے۔
پاکستان کو بھی جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے‘ خاص طور پر ایف بی آر کاسسٹم مکمل نئی ٹیکنالوجی ڈیجیٹل طریقے پر مبنی ہوناچاہیے اگرچہ ایف بی آر کاسسٹم پہلے سے بہتر ہوا ہے لیکن اس میں مزید جدید تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں حکمرانوں کو آئی ٹی کے شعبے سے فائدہ اٹھاناہوگاجو بہت ضروری ہوگیا ہے دنیا میں جو ملک آئی ٹی کے شعبے میں سب سے آگے ہوگا وہی ترقی میں بھی آگے جائےگا۔ ڈیجیٹل کرنسی‘ ڈیجیٹل یوٹیلیٹی بلز‘ ڈیجیٹل اکاؤنٹس‘ڈیجیٹل شاپنگ‘ڈیجیٹل فوڈز آئٹمزمطلب یہ کہ اس وقت ہر چیز ڈیجیٹل ہوتی جارہی ہے‘ ڈیجیٹل کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہیں خدشات اور نقصانات کے اندیشے بھی موجود ہیں ریاست پاکستان جس کی آبادی کی
اکثریت پسماندہ اور ناخواندہ( یعنی کم پڑھے اور غیر تعلیم یافتہ افراد پر مبنی) ہے یہاں پر نئی ٹیکنالوجی ڈیجیٹل کو لاگو کرنے کیلئے بڑی جدوجہد کرناہوگی‘ پہلے اس نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں عوام میں شعور و آگاہی لانا ضروری ہے۔اگرچہ اسمارٹ فون ‘سوشل میڈیا اورانٹرنیٹ کے استعمال کے بعد عام آدمی کی ڈیجیٹل سے واقفیت میں اضافہ ہوا ہے‘ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری عوام میں ابھی تک حقیقی معنوں میں سیاسی شعور اس لیول پر نہیں پہنچ سکاہے جس کی ملک کوضرورت ہے۔سوشل میڈیا پر عوام میں سیاسی شعور کسی حد تک دکھائی دیتاہے لیکن ڈیجیٹل کا ہماری سیاست پر کتنا اثر ہوا ہے اس حقیقت انتخابات کے نتائج بعد ہی
سامنے آسکے گی۔ آپ کو ایسے لوگ آپ کو ملیں گے جو نئی ٹیکنالوجی یعنی ڈیجیٹل پر بھروسہ نہیں کرتے‘ وہ اسے بھی پاکستان کے باقی نظاموں کی طرح سمجھ رہے ہیں جہاں جھوٹ اور دھوکے اورفراڈ عام سی بات ہے‘ بہرحال ہم جتنی جلدی نئی ٹیکنالوجی کو اپنالیں گے اتنی جلدی دنیا سے جڑنے میں آسانی ہوگی اور سرکاری اور پرائیویٹ دونوں سطح پر اس شعبے پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ‘ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو جاب کی ضروریات کے علاوہ بھی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے ہم ابھی تک صرف جاب کی حدتک ٹیکنالوجی کو استعمال کررہے ہیں اور سیکھا رہے ہیں ہمیں ‘ اس سے بہت آگے بڑھنا ہوگا اور مستقبل کی مضبوط پلاننگ کرنا ہوگی۔
پاکستانی سیاست میں نئے اتحا د بننے کی بات کی جائے تو اس سلسلے میں مسلم لیگ(ن) پورے ملک میں سب سے زیادہ سرگرم نظرآرہی ہے اور مسلم لیگ(ن) نے دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اپنی جماعت میں شامل کرانے کیلئے کام
شروع کردیاہے اور بڑی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی دکھائی دی رہی ہے ۔میاں نوازشریف کی کوششوں سے نون لیگ مضبوط ہورہی ہے اور دیگر پارٹیوں کے ر ہنما نون لیگ میں شامل ہورہے ہیں جس کے بعد امید کی جارہی ہے جلد ہی ملکی اہم سیاسی شخصیات مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوجائیں گی اور پھرملکی سیاسی منظر نامہ یکدم تبدیل ہوجائے گا ۔میاں نوازشریف کو آزاد امیدواروں کے ساتھ رابطے رکھنے چاہیے تاکہ جیت کی صورت میں ان کی حمایت حاصل کرکے وزارت اعظمیٰ کو یقینی بنایا جاسکے۔ملک میں عام انتخابات ڈیجیٹل طریقے سے کرائے جائیں یا پھر مینول طریقے سے ‘ دھاندلی کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں اور آئندہ بھی لگیں گے۔ جب تک ملک کی عوام کا سیاستدانوں ‘ حکمرانوں اوراداروں پر اعتماد بحال نہیں ہوجاتاہے اس وقت تک نہ تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوسکتی اور نہ ہی ہمارے ہاں سیاسی ‘ معاشی اور سماجی استحکام قائم ہوسکتاہے جو کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے انتہائی ضروری ہوتاہے۔ وطن عزیز کی ترقی اور عوام کی خوشحالی مشترکہ جدوجہد سے ہی ممکن ہے اس لئے سب کو ملکر ملک اور عوام کو مسائل سے نکالنے کیلئے سوچناہوگا ۔