سول سرونٹ رول 17 اے میں ترمیم

محمد
نور الھدٰی
وسیم ایک سرکاری محکمہ میں درجہ چہارم کا ملازم تھا جہاں اس نے 16 سال ملازمت کی۔ ملازمت کے دوران اس کا انتقال ہو گیا۔ وہ گھر کا واحد کفیل تھا۔ کرایہ کا گھر تھا۔ بچے سکول جاتے تھے، ایک بیٹی شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھی اور والدین ضعیف، جن کا تمام خرچ وسیم اپنی لگی بندھی تنخواہ سے پورا کرتا تھا۔ بیوہ ہونے کے بعد اس کی زوجہ کے لئے گھر چلانا مشکل ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد حکومت کی پالیسی کے تحت بیوہ کو ملازمت مل گئی۔ زندگی کا پہیہ جیسے تیسے کر کے گھسیٹتی، اب وہ اپنے بچوں کی کفالت بھی کر رہی ہے اور یتیم بیٹی کی شادی کی تیاریاں کرنے کے ساتھ ساتھ وسیم کے والدین کے طبی اخراجات بھی پورے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
شکیل میرا گہرا دوست تھا۔ ناگہانی وفات کی وجہ سے اس کے 3 بچے یتیم ہو گئے۔ خوش قسمتی سے شکیل کی بیوہ کو 17۔ اے کے قانون کے تحت اُسی کے ادارے میں ملازمت مل گئی تو اس نے سکون کا سانس لیا وگرنہ شوہر کے بچھڑنے کا غم جہاں اسے کھائے جا رہا تھا وہیں اسے یہ پریشانی بھی تھی کہ بچوں کو کیسے پالے گی۔ مذکورہ نوکری کی وجہ سے اسے کچھ آسرا ملا اور آج وہ اپنے بچوں کو شکیل کے خوابوں کے مطابق بنانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
ریحانہ سے میری ملاقات ایک سرکاری ادارے میں ہوئی۔ وہ ایک بیوہ خاتون ہے جو کچھ عرصہ سے صحت کے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے۔ بیمار رہنے کی وجہ سے بچوں کی فکرمندی اس کی صحت کو مسلسل گرا رہی ہے۔ کیونکہ شوہر جیسی چھت پہلے ہی سر پر موجود نہیں، یہ سوچ اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے کہ شوہر کے بعد اگر سانسوں نے اسے بھی دھوکہ دے دیا تو بچوں کو کس کے سہارے چھوڑے گی۔ تاہم وہ اس لحاظ بے فکر تھی کہ اگر اسے کچھ ہوا تو سول سروس رول 17 اے کے تحت کم از کم اس کے بیٹا یا بیٹی میں سے کسی ایک کو ملازمت مل جائے گی تو اس کی روح کو بھی سکون ملے گا۔
مختلف سرکاری محکموں کے ملازمین پر مشتمل ایسی کئی مثالیں میری نظروں میں گھوم رہی ہیں جن میں کوئی آن ڈیوٹی وفات پاتا ہے تو اس کی جگہ قانون کی رو سے، اس کے لواحقین میں سے کسی کو ملازمت آفر کی جاتی ہے جس سے اس گھرانے کے افراد دربدر ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ مرحوم کے فیملی ممبر کو ملازمت دینے کی یہ حکومتی پالیسی ایسے خاندان کے لئے یقیناً کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔
گذشتہ دنوں ایک ترمیمی نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس کے مطابق پنجاب کے کسی سرکاری ملازم کی دوران ڈیوٹی وفات پانے کی صورت میں اس کی فیملی کو ملنے والی امدادی رقم میں مناسب حد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ اس اقدام سے لواحقین کو مناسب معاونت مل سکے گی…… لیکن اس کے ساتھ ساتھ ستم یہ ہوا ہے کہ سرکاری محکموں میں مرحوم کے کسی فیملی ممبر کو ملازمت دینے کا قانون ختم کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ پالیسی بالخصوص ان خاندانوں کے لئے واحد سپورٹ تھی جن کے بچے چھوٹے ہیں اور کوئی دوسرا ذریعہ آمدن بھی نہیںہے۔ ایسے میں بیواؤں کو عزت کی نوکری مل جاتی تھی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انہیں سہولت ہو جاتی تھی۔
مذکورہ نوٹیفیکیشن کے بعد جب میری ریحانہ سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو وہ بہت پریشان تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کا کینسر آخری سٹیج پر ہے مگر میں ذہنی طور پر مطمئن تھی کہ میرے بعد میری بیٹی یا بیٹے کو ملازمت مل جائے گی۔ لیکن اب حکومت نے یہ قانون ہی ختم کر دیا ہے۔ ہر ماں کی طرح وہ بھی اپنی اولاد کے بارے میں پریشان تھی اور اپنی زندگی میں ہی ان کی خوشی دیکھنا چاہتی تھی۔ ریحانہ اپنے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اور میں اسے دلاسہ دینے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔
قابل ذکر امر تو یہ بھی ہے کہ مذکورہ ترمیم صرف پنجاب میں ہوئی ہے۔ وفاق اور دیگر صوبوں میں 17 اے کا قانون بدستور موجود ہے۔ پنجاب کے ارباب اختیار و اقتدار کو بھی اس امر کا احساس کرنا چاہئے، کیونکہ موت گھروں کی پریشان حالی نہیں دیکھتی۔ لیکن صاحبانِ اختیار و اقتدار کے پاس تو یہ اختیار موجود ہے کہ، ایک ایسا فرد جس نے کئی سال سرکاری محکمہ (حکومت) کی خدمت کی ہوتی ہے، اور وہ دوران ڈیوٹی وفات پا جاتا ہے تو اس کے اعتراف میں اس کے کسی فیملی ممبر کو سہولت دیں، تاکہ اس کا گھریلو نظام چلتا رہے۔ یہ لواحقین کا حق بھی ہے، جس سے انہیں محروم نہیں رکھا جانا چاہئے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سرکاری ملازم چاہے گریڈ 18 کے دوران ہی کیوں نہ وفات پائے، اس کے فیملی ممبر کو ملنے والی ملازمت نان گزیٹڈ (کلیریکل) یعنی گریڈ 1 سے گریڈ 11 کے درمیان ہو گی۔ ان ابتدائی سکیلز میں ملازمت کا حق تو بہرحال ان کے پاس موجود رہنا چاہئے۔ اس ضمن میں بعد از وفات نوکری دینے والی پالیسی کو بحال کرنا اور اسے جاری رکھنا ضروری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس ضمن میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ موجود نگران حکومت جہاں عوامی فلاح و بہبود کے لئے بے شمار انقلابی اور یادگار اقدامات کر رہی ہے، اگر پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974ء کے رول 17 اے کو عوامی فلاح و بہبود کی مد میں بحال کر دے تو نجانے کتنے خاندانوں کا بھلا ہوتا رہے گا۔