آج کے کالممولانا محمد اکرم اعوان

احکام ِ وراثت(1)

مولانا محمد اکرم اعوان ؒ

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ
اگر والدین کچھ جائیداد چھوڑ جائیں یا قریب کے رشتہ دار چھوڑ جائیں تو اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے۔
وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ
اور والدین اور قریبی رشتہ دارجو ترکہ چھوڑ جائیں اس میںخواتین کا بھی حصہ ہے اور رشتہ داروں کا حصہ ہے۔ جیسا کہ اللہ نے مقرر فرمایا ہے جو حصے اللہ کریم نے مقرر کردیئے ہیں،جائیداد کی تقسیم شرعاً کردی گئی ہے قرآن حکیم میں موجود ہے اس میں خلل اندازی نہ کی جائے۔وراثت کی بنیاد یہ اصول ہے جو قرآن حکیم میں دوسری جگہ بیان ہوا ہے۔
يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
ساری زمین اللہ ہے وہ جسے چاہتا ہے وارث بنا دیتا ہے پھر جب وہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دوسرے اس کے وارث بن جاتے ہیں اور پھر وہ لوگ بھی جب دنیا سے جاتے ہیں تو آنے والوںکو وراثت مل جاتی ہے۔ یہ اللہ کا نظام ہے لہٰذا بہتر ہے کہ اللہ کی تقسیم کو قائم رکھا جائے اس میںخلل نہ ڈالا جائے جو حصہ بیٹوں کا مقرر ہے وہ انھیں ملے اور جو بیٹیوں کا مقرر ہے وہ انھیں ملے اور جو دیگر وارثین کے ہیں ان کے پہنچیں۔
وراثت کی حق دار بیٹیاں بھی جیسے کہ بیٹے:
وراثت میں اللہ نے اولاد کا حق رکھا ہے خواہ وہ بیٹا ہے یا بیٹی۔ ہمارے ہاں برصغیر میں ہندوئوں کی رسومات رائج ہو چکی ہیں اور برائے نام مسلمان حکمرانوں نے ان رسومات کو معاشرے میں رائج کرنے کے لئے سرکاری وسائل بھی استعمال کئے ہیں۔ایسے حکمرانوں میں اکبر سر فہرست ہے۔ جو غیراسلامی رسومات ہمارے ہاں در آئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بچیوں کو جائیداد میں سے حصہ نہ دیا جائے بلکہ جہیز دیا جائے جہیز تو والدین کا تحفہ ہے۔نئے خاندان میں بچی کی ضرورت کی اشیاء بچی کی سہولت کے لئے والدین تحفتاً دیتے ہیں لہٰذا جہیز کی حیثیت تحفے کی ہی رہنی چاہئے لیکن ہمارے ہاں یہ رسم اتنی ظالمانہ ہے کہ اس سبب سے بچی والدین پر بوجھ بنادی گئی ہے اور اکثر لوگ اپنی نام وری کے لئے جہیز دیتے ہیں تو لڑکی کو جہیز کا تحفہ دینا والدین کے ترکے میں سے اس کے حصے کو ختم نہیں کرتا بلکہ جو جس کا حق ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے وہ اسے ملنا چاہیے لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا جب بندے کا آخرت پر یقین کامل ہو۔
اللہ کریم نے وراثت میں جو حصے مقرر کر دیئے ہیں وہ حتمی ہیں ان کا قطعی فیصلہ ہو چکا ہے ان میں حیلے بہانے کرنا کسی کا حصہ کسی اور کو دے دینا کسی کو اس کے حصے سے محروم کردینا یہ قانون الٰہی کی مخالفت ہے اسے کبھی فائدہ نہیں ہوسکتا ۔جہاں بھی آدمی شریعت کی خلاف ورزی کرتا ہے وہاں اسے دونوں عالم کا نقصان ہوتا ہے کہ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کا نقصان بھی لازمی ہوتا ہے۔جس کسی کا حصہ مارا جاتا ہے وہ ساری عمر دکھ میں مبتلا رہتا ہے، مخالفتیں جنم لیتی ہیں، دشمنیاں بڑھ کر بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح دینوی فائدہ بھی نہیں ہوتا بلکہ سراسر نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے حکم کے برخلاف کسی کو اس کے حصے سے زیادہ دلادیا جائے گا لہٰذا بہتر ہے کہ احکام الٰہی کے مطابق ہی عمل کیا جائے۔
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(8)
جب جائیداد کی تقسیم ہورہی ہو تو جن رشتہ داروں کا حصہ ترکے میں نہیں بنتا انھیں بھی اگر دے دیا جائے تو یہ اچھی بات ہے اسی طرح یتیموں،مساکین کو بھی کچھ نہ کچھ دے دیا جائے اور اچھے طریقے سے دیا جائے تو یہ مستحسن ہے۔اچھے طریقے سے دینا یہ ہے کہ کسی کو محتاج سمجھ کر اس کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے اس پر احسان نہ رکھا جائے اسے یہ احساس نہ دلایا جائے کہ اس کے پاس تو کچھ نہیں تھا اور اسے دیا جارہا ہے۔حق یہ ہے کہ سب کو سب کچھ اللہ ہی دیتا ہے دنیا عالم اسباب ہے سبب کوئی نہ کوئی بنتا ہے لیکن مسبب الاسباب صرف اللہ ہے جولوگ غرباء ومساکین کو اپنے حصوں میں سے رغبت اور خوشی سے دیتے ہیں تو اللہ کریم کے نزدیک اس کا بہت بڑا درجہ پاتے ہیں اللہ خطائیں معاف فرماتا ہے اور اس پر اجروثواب عطا فرماتا ہے۔
ترکے کی تقسیم کرنے والے ترکہ وصول کرنے والے اور یتیموں کے والی اور نگران بنائے جانے سب کو بتا یا جا رہا ہے کہ انھیںیہ یاد رہنا چاہئے کہ موت ان پر بھی آسکتی ہے جیسے آج کسی اور پر آئی ہے اور اسی طرح ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی یتیم رہ جائیں گے تو ان سے کیا سلوک ہونا چاہئے۔جس طرح کے سلوک کی توقع اپنے بچوں کے لئے کرتے ہیں اس طرح کا ان بچوں سے کریں جن کا والد اُٹھ گیا ہے اور بچے یتیم رہ گئے ہیں تو اللہ سے ڈریں اور اللہ کے احکام کی پابندی کریں۔ جہاںبھی اللہ کریم سے ڈرنا لکھا ہے وہاں اس سے مراداللہ کی ناراضگی سے ڈرنا ہے یعنی ایسا کام نہ کیا جائے جس پر اللہ کا غضب ہو۔ ہمیشہ اللہ کریم کی رحمت کے طلب گار اور اس کی بخشش چاہنے والے بنے رہیں۔یتیم بچے جو مجبور و بے بس ہیں جو اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتے ان کا مال جو شخص بھی کھاتا ہے ظلم کرتا ہے اس لئے کہ وہ بچے تو اسے روک نہیں سکتے لیکن اللہ کا نظام اور کا قانون موجود ہے۔ اللہ کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ جو یتیم کا مال ظلماً کھاتا وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ جھونک رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ اپنا پیٹ دوزخ کی آگ سے بھر رہا ہے بلکہ جب برزخ میں داخل ہوگا یا حشر میں جائے گا تو اسے خود جہنم میں داخل ہونا پڑے گا اس نے اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھی بھری ہوگی اور اس کا وجود بھی جہنم میں جل رہا ہوگا۔ اللہ کریم اپنے عذاب سے پناہ دے۔
(جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button