آج کے کالمغلام مصطفی

گیس بحران، متبادل سستے ذرائع کی ضرورت

غلام مصطفی

(گزشتہ سے پیوستہ دوسرا حصہ)
پاکستان میں اس وقت قریباً چار آئل ریفائنریز کام کر رہی ہیں، جن میں پاک عرب آئل ریفائنری (کوٹ ادو)اٹک ریفائنری، نیشنل ریفائنری (کراچی) اور پاکستان ریفائنری(راولپنڈی) شامل ہیں۔پاکستان میں عام طور پر قدرتی گیس کو بطور ایندھن استعمال کیاجارہاہے۔گیس ایسے علاقوں میں پائی جاتی ہے جہاں سے تیل برآمد کیا جاتا ہے (یعنی جس زمین سے تیل نکلتاہے)۔ قدرتی گیس اصل میں ہائیڈروکاربن گیس ہے جو کہ ایتھین اور میتھین گیس کا مرکب ہوتا ہے اور یہ تیل کے ذخائر کے بالکل اوپر یا دراڑوں سے ہوتی ہوئی آس پاس کے علاقوں میں جمع ہو جاتی ہے جہاں سے قدرتی گیس کو حاصل کرنے کے بعد اسے ملک بھر کے مختلف کارخانوں، گھروں، ذرائع آمد و رفت اور بجلی پیدا کرنے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گیس ایک سستا ایندھن بھی ہے۔ پاکستان میں چونکہ گیس پٹرول سے زیادہ سستا ہے، اس لئے اس کا استعمال بھی زیادہ عام ہوچکا ہے اور گیس کی کھپت پہلے سے کئی گناہ بڑھ گئی ہے، جبکہ گیس کے موجودہ ذخائرہ بہت سے تیزی سے ختم ہورہے ہیں اور ذرائع کاکہناہے کہ قدرتی گیس اب صرف پانچ یا چھ سال تک صارفین کو سپلائی ہوسکے گی جس کے بعد آر ایل این جی پر ہی انحصار کرنا ہوگا، آر ایل این جی کیونکہ بیرونی ممالک سے برآمد کی جاتی ہے لہٰذا یہ مہنگی ہے پاکستان جہاں اکثریت آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، وہ آر ایل این جی کو خریدنے سے قاصر ہے، پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو ایک اندازے کے مطابق 35 فیصد گیس سے پورا کررہاہے۔ جس کے باعث گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں جبکہ ماضی میں سی این جی اسٹیشنز اور توانائی کے متبادل کے طور پر گیس کوبے دردی سے استعمال کیا گیا جس کا نقصان اس صورت میں سامنے آرہاہے وہ ملک جہاں گیس پانی کی طرح گھریلو میں آتی تھی آج ناپید ہوچکی ہے،پاکستان نے قدرتی گیس کے ذخائر کی تقسیم کسی مستقبل کی ضررویات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کی،یہی وجہ ہے کہ گھریلو صارفین تک گیس پہنچانا مشکل ہوچکاہے بلکہ اگلے چند سال بعد ناممکن بھی ہوجائے گا ۔سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کام صرف گیس کی ڈسٹربیوشن ہے، یعنی جو بھی گیس کاپریشر گیس کمپنی کے سسٹم میں آتاہے گیس کمپنی اسے ایک مثبت حکمت عملی کے تحت تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے اور گیس پریشر میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے بیشتر علاقوں میں گیس پائپ لائن کے پائپ بہت پرانے اور بوسیدہ ہوچکے ہیں جو جگہ جگہ سے گل سڑ گئے ہیں جس کی وجہ سے گیس لیک ہوتی ہے پریشر کم ہوجاتاہے اور اسی گیس ضائع بھی ہوتی ہے،انہیں درست کرنے کے لئے بہت بڑے بجٹ کی ضرورت ہے جوپاکستان کے موجودہ معاشی حالات ممکن نہیں ہے اس لئے مجبوری میں گیس ضائع ہورہی ہے، لیکن ہمیں کچھ بھی کرکے اس کاسدباب تو کرناہی ہوگا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سڑکوں کی تعمیر، نالوں کی تعمیر، گٹر کے مین ہولز کی تعمیر اور دیگر تعمیرات کے لئے زیرزمین کھدائی کی جاتی ہے جس کے باعث بھی لائن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں،وہ لیک ہونا شروع ہوجاتی ہے، پائپوں میں سوراخ ہونے کی وجہ سے ایک تو وہاں گیس ضائع ہوتی ہے دوسرا گیس پائپوں میں سراخ ہوجانے کی وجہ سے پانی گیس کی لائنوں میں چلاجاتاہے جس کے باعث گیس آنا بند ہو جاتی ہے۔یہ ساری صورتحال دیکھتے ہوئے صرف گیس کمپنی کو اس کا ذمے داری نہیں ٹھہرایاجاسکتا، بہت سے دیگر ادارے بھی گیس لائنوں کی برباد ی کا سبب بنتے ہیں لیکن کیونکہ اصل ذمے داری گیس کمپنی کی ہے لہٰذا سارا ملبہ گیس کمپنی پر ہی گرادیاجاتاہے۔ایک وقت تھا جب پاکستان میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود تھے یقیناً آج بھی ہوںگے ۔ پاکستان میں سب سے پہلے گیس کے ذخائر 1952ءمیں بلوچستان میں ڈیرا بگٹی کے قریب سوئی نام کے قصبے سے دریافت ہوئے تھے۔ اس وقت گیس کے ذخائر کااندازہ 141500 کیوبک میٹر لگایاتھا۔ سوئی کے علاوہ بلوچستان میں اچ اور زن کے مقام سے گیس نکالی جارہی ہے۔ سندھ میں قادر پور، مزرانی، خیر پور، ساری، ہنڈی، کندکوٹ، ماتلی، بخاری اور سارنگ سمیت دیگر مقامات میں گیس ذخائر موجود د ہیں۔ پنجاب کے جن علاقوں میں قدرتی گیس پائی جاتی ہے ان میں ڈھوڈک، پیر کوہ، ڈھلیاں اور میال نند پور (کبیر والا) شامل ہیں۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا کے علاقوں وزیرستان اور کرک سے بھی قدرتی گیس دریافت ہوئی ہے۔
پاکستان بھر سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس کو پائپ لائنوں کے ذریعے ملک کے مختلف علاقوں تک پہنچایاجاتاہے۔اس وقت یہ قدرتی گیس کو بطور ایندھن مختلف جگہوں پر استعمال کیاجارہاہے جن میں سیمنٹ کے کارخانے، کھاد کے کارخانوں سمیت عام کارخانوں،گھریلو صارفین، سی این جی اسٹینزکے علاوہ تھرمل بجلی کے پلانٹ پر استعمال کی جارہی ہے۔اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں میں قدرتی گیس کااستعمال اور وہاں سے نکلنے والی قدرتی گیس کی تفصیلات کچھ یوں ہے۔ سندھ میں پیداوار 70فیصد جبکہ کھپت 30فیصد ہے۔ بلوچستان میں گیس کی پیداوار12فیصد ہے جبکہ وہاں 4سے5فیصد گیس کی کھپت ہے۔ خیبر پختونخوا سے9فیصد گیس نکل رہی ہے جبکہ وہاں10فیصد گیس کی کھپت ہے۔ پنجاب جوکہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا بڑا صوبہ بھی ہے وہاں سے 8فیصد گیس نکالی جارہی ہے اور وہاں 50فیصد گیس کی کھپت پائی جاتی ہے۔پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیاں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کر رہی ہیں اور مختلف حصوں میں تیل اور گیس کے حصول کے لئے تحقیقی عمل بھی کام جاری ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی گیس پاکستان میں سب سے زیادہ پائے جانے والے سستی توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے لیکن جیسے ہی سردیوں کا موسم شروع ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی گیس کی قلت کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر جاتا ہے، گیس بحران کے باعث گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور صنعتوں کو بھی گیس کی بندش کاسامنا کرنا پڑتاہے جس کے باعث صنعتی پیداوار معطل ہوجاتی ہے یا پھر اس میں شدید کمی آجاتی ہے جس کے مضراثرات ہماری معیشت پر نمودار ہوتے ہیں جس کے باعث ہماری بچی کھچی معیشت بھی ہچکیاں لینے لگ جاتی ہے۔کافی سالوں سے پاکستان میں سردیوں میں قدرتی گیس کی طلب بڑھنے اور پیداوار محدود ہونے کے سبب گھریلو صارفین، صنعت اور سی این جی اسٹیشنز سمیت مختلف شعبوں کو گیس کی بندش کا سامنا کرنا پڑ رہاہے، سردیوں میں گیس کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاہے اور ایک اندازے کے مطابق یومیہ گیس کی طلب آٹھ ارب کیوبک فٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ سسٹم میں موجود گیس تین ارب کیوبک فٹ ہے۔ایسے میں ملک کو قریباً پانچ ارب یومیہ کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ ایسے میں گیس سپلائی کرنے والی دونوں کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس سپلائی کمپنی گیس لوڈ مینجمنٹ پلان بناتی ہیں جس میں ترجیح گھریلو صارفین کو دی جاتی ہے۔ لیکن کیونکہ پاکستان میں گیس کی مقامی پیداوار ملکی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے اور پھر موجودہ ملکی گیس کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے جبکہ درآمدی گیس مہنگی ہے جسے عام آدمی افورڈ نہیں کرسکتا۔اس وجہ سے حکومت قدرتی گیس کے کم ہوتے ذخائر اور بڑھتی ہوئی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے قطر سے ایل این جی یا مائع قدرتی گیس درآمد کرنے پر مجبور ہے رسد اور طلب کو مستحکم رکھاجاسکے۔
قطر سے درآمد ہ مائع قدرتی گیس بحری جہازوں کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پہنچتی ہے۔ مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کو کراچی بندرگاہ پر نصب پلانٹس کے ذریعے دوبارہ مائع سے گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور سسٹم میں شامل کیا جاتا ہے۔پاکستان میں محض28 فیصد صارفین کو پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں گیس کے دریافت کردہ ذخائر میں کمی اور نئے ذخائر نہ ملنے کے سبب گیس کا بحران ہر سال مزید شدید ہو رہا ہے جس کے باعث کہاجارہاہے کہ آئندہ چند سال بعد ملک میں گیس کے ذخائر قریباً ختم ہوجائیں گے، جس کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، اس سنگین ترین قومی مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے خلاف بیانات دینے اور مقدمات قائم کرنے سے آگے نہیں بڑھ پارہی ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد چند شخصیات کے علاوہ وطن عزیز کو اچھی قیادت میسر نہیں آسکی جس کے باعث قومی ادارے اور ملکی معیشت کا دیوالیہ نکل گیا، سرکاری اداروں کی حالت بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ملک بھر میں تیل اور گیس نئے دریافت ہونے والے ذخائر سے گیس بحران کے خاتمے میں مدد ملے گی، اگر ملک بھر میں گیس اور تیل کے ذخائر بڑے پیمانے پردریافت ہوجائیںتو پاکستان کو مہنگی ایل این جی بیرونی ممالک سے نہیں خریدنی پڑے گی اور نہ ہی اس پرانحصار کرنا پڑے گا جس سے بڑے پیمانے پر زرمبادلے کی بچت ہوگی اور اس مد میں پاکستان کو قرضے بھی نہیں لینے پڑیں گے جن کا سود اُترتے اُترتے صدیاں بیت جائیں گی۔ دوسرا یہ اگر ہم ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ جلد مکمل کرلیتے تو آج ہمیں مہنگی ایل این جی نہیں خریدنی پڑتی لیکن ان لوگوں کو کیا کہیں جو اپنے کمیشن کے چکر وں میں 23کروڑ عوام کی زندگیوں کواجیرن بنائے ہیں اور ایران سے گیس پائپ لائن کو لانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ حکومت کو ایران سے گیس پائپ لائن جلد لانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو توانائی کی مہنگائی سے نجات دلائی جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button