انتخابی عمل کی شفافیت پراُٹھتے سوالات
یکے بعد دیگرے اور نت نئے تنازعات نے عام انتخابات 2024 کومتنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اگر کوئی گنجائش باقی ہے تو وہ ورکرز کنونشنز کے نام پر ہونے والے جلسوں میں پوری کی جارہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ساری حزب اختلاف اسمبلی تحلیل کرکے عام انتخابات کا تقاضا کرتی رہی لیکن جب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہوگئی تو حزب اختلاف اسمبلی تحلیل کرنے کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر مملکت کو بھجوادی۔ یوں حزب اختلاف والے جو ساڑھے تین سال اسمبلی کی تحلیل مانگتے رہے اقتدار ملتے ہی مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے اور جن سے مطالبہ کیاجارہا تھا جب انہوں نے اسمبلی تحلیل کی سمری بھیجی تو وہ عدالتی احکامات کی روشنی میں ردی کی ٹوکری میں چلی گئی۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں پانسہ ہی نہیں عام انتخابات کا مطالبہ کرنے والے بھی بدل گئے، پھر پی ٹی آئی والوں نے اتحادیوں کو اُسی دُھن پر رقصاں کیا جس دُھن پر خود ساڑھے تین سال تک رقصاں رہے، چونکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں قریباً ڈیڑھ سال پہلے ہی تحلیل کی جاچکی تھیں لہٰذا اِن دونوں صوبوں میں عام انتخابات کامعاملہ آئینی موشگافیوں کی نذر ہوکر طویل سے طویل تر ہوتا چلاگیا۔ قومی اسمبلی نے آئینی مدت پوری کرلی اور نگران سیٹ اپ آیا تو چاروں اطراف سے آئینی مدت میں عام انتخابات کرانے کے مطالبات ہونے لگے، دلچسپ امر یہ ہے کہ جو سولہ ماہ اقتدار میں رہے یہی مطالبہ وہ بھی کررہے تھے، پھر کچھ ایسا ہوا کہ مسلم لیگ نون نے تو چپ سادھ لی لیکن یہ گردان پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت دوسری سیاسی جماعتوں نے جاری رکھی۔ پھر لیول پلے فیلڈنگ کی گردان شروع ہوئی جو قبل از انتخاب ہی سیاسی ماحول بالخصوص انتخابات کے معاملے کو قبل ازوقت متنازعہ بنانے کی داغ بیل تھی۔ پھر مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا معاملہ اٹھ گیا، غرضیکہ کسی موقعے پر ایسا تاثر قطعی محسوس نہیں ہوا کہ سیاست دان اور ادارے عام انتخابات کے لئے تیار ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اور پھر قومی سطح کے انتخابات کے معاملے پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے مابین جو معاملات چلتے رہے وہ بھی سونے پرسہاگہ سے کم نہ تھے لیکن چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر معزز جج صاحبان کی خصوصی توجہ کے بعد بالآخر آٹھ فروری کا دن عام انتخابات کے لئے مقرر کردیاگیا مگر لیول پلےفیلڈنگ، لاڈلہ، حلقہ بندیاں اور ایسے ہی نصف درجن کے قریب القابات اور جواز انتخابی عمل کو قبل ازوقت ہی متنازعہ بنارہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کا شیڈول جاری کیا اِس کے بعد حلقہ بندیوں میں ردوبدل کے خلاف پی ٹی آئی کے ایک رہنما ہائی کورٹ پہنچ گئے ، معزز عدالت نے واضح کیاکہ شیڈول جاری ہونے کے بعد کچھ بھی تبدیل نہیں ہوسکتااِس کے بعد ایسا ہی ایک اور معاملہ سامنے آگیا، تب معزز قائم مقام چیف جسٹس صاحب نے بالآخرپوچھ ہی لیا کہ انتخابات کیوںنہیں ہونے دیئے جارہے؟ابھی یہ بحث ختم چھڑی ہوئی تھی کہ وکلاء تنظیموں نے ملک بھر میں حلقہ بندیوں،انتخابی طریقہ کار اور نشستوں کی تقسیم کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن،پاکستان بارایسوسی ایشن،سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پنجاب بارکونسل نے الگ الگ اعلامیہ جاری کیا جن میں چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی موجودگی میں شفاف اورمنصفانہ انتخابات نہیں ہوسکتے،الیکشن بروقت اور آزادانہ ہونے چاہئیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کولیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہئے۔ بارز نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ہر عمل کی توثیق کرنے کی بجائے تضادات کا نوٹس لے۔وکلاءتحریک کے لائحہ عمل کا اعلان کرنے کے لئے جلد آل پاکستان نمائندہ کنونشن بلایا جائے گا ۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری اعلامیہ میں الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے انتخابی طریقہ کار، حلقہ بندیوں اور نشستوں کی تقسیم پر سوال اٹھا دئیے گئے ہیںاور اِن کے اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی موجودگی میں شفاف انتخابات نہیں کرائے جا سکتے ہیں، جہلم، گجرانوالہ اورراولپنڈی میں نشستوں کی تقسیم میں عدم توازن دیکھا گیاہے، آبادی کے تناسب سے موجودہ حلقہ بندیاں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہی ہیں،کمیشن کا طرز عمل عام انتخابات کی ساکھ کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے،الیکشن کمیشن ان نازک معاملات پر آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ پاکستان بار کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے ہر عمل کی توثیق کرنے کی بجائے تضادات کا نوٹس لینا چاہیے ،پاکستان بار کونسل کا پختہ ایمان ہے کہ بنیادی مقصد محض انتخابات کا انعقاد ہی نہیں بلکہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں، تمام سٹیک ہولڈرز کو یکساں مواقع فراہم ہونے چاہئیں، سپریم کورٹ بار کی مشاورت سے وکلا ء تحریک کے لائحہ عمل کا اعلان کرنے کے لئے جلد ہی ایک آل پاکستان نمائندہ کنونشن بلایا جائے گا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت اور سیکرٹری علی عمران کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں لیکن تمام سٹیک ہولڈرز کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی چیف الیکشن کمشنرکے زیر نگرانی انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سکندر سلطان راجہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ موجودہ حالات میں چیف الیکشن کمشنر کو گھر جانا چاہیے ۔یہ الیکشن کہانی میں نیاموڑ میں ہے۔ پاکستان بار کونسل ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی آزادانہ اور شفاف انتخابات کرانے کی اہلیت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پی بی سی نے چیف الیکشن کمشنر کے آبائی ضلع جہلم کے لئے قومی اسمبلی کی دو نشستیں مختص کرنے کی ایک مثال پیش کی ہے، جس کی آبادی قریباً 13 لاکھ بیاسی ہزار ہے جبکہ ضلع حافظ آباد، جس کی آبادی قریباً13لاکھ 2 ہزار ہے، کے لئے صرف ایک نشست مختص کی ہے۔ کونسل نے مزید کہا کہ ضلع راولپنڈی کے لئے نشستوں کی تقسیم میں بھی اسی طرح کا عدم توازن دیکھا گیا ہے۔ گوجرانوالہ ڈویژن کے مقابلے اس کی آبادی کم ہونے کے باوجود ایک اضافی نشست مختص کی گئی ہے، جس سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر پاکستان سکندر سلطان راجہ کا آبائی حلقہ سرگودھا میں ہے اور الیکشن کمیشن کسی دباؤ یا بلیک میلنگ کے سامنے نہیں جھکے گا۔بہرکیف اس پر فطری طور پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ وکلاء کی یہ سرکردہ تنظیمیں یہ مطالبہ کیوں کر رہی ہیں جب کہ وہ الیکشن لڑنے میں بھی شامل نہیں ہیں۔ اس معاملے میں ان کا اصل موقف کیا ہے؟حد بندی کی مشق سے متاثر ہونے والے امیدواروں کے لئے تشویش کا اظہار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کیا ان وکلا کی تنظیموں کا انتخابات میں براہ راست حصہ بھی ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ان کا موقف کچھ بھی ہو۔کچھ اضلاع میں سیٹوں کی تقسیم دوسرے اضلاع سے مختلف ہے اور چونکہ الیکشن کمیشن کو سیٹوں کی تقسیم میں اسی اصول کو لاگو کرنا تھا۔ اس لئے اس طرح کا تضاد سنگینی اور سوالات کو جنم دیتا ہے۔یوں آنے والے عام انتخابات پہلے ہی ایک نازک پوزیشن پر کھڑے ہیں، ایک پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ اسے غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب وکلاء کے اعلیٰ اداروں کے یہ بیانات انتخابات کی شفافیت پر تشویش میں اضافہ کررہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد حلقہ بندیوں کے عمل پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا، اِس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ان خدشات کا اظہار کرنے والوں کو مطمئن کرنے کے لئےالیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان تضادات کو مدنظر رکھے اور اس مسئلے کو تفصیل سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن موجودہ صورت حال میں تمام دعویداروں کو مطمئن کرنا عملی طور پر ناممکن ہو سکتا ہے مگر اِس معاملے کو خوش اسلوبی اور نیک نیتی کے ساتھ حل کرنا ضروری ہے وگرنہ ایک یا دوسری پارٹی کو انتخابی گڑبڑ کے ساتھ مسائل ہوں گے۔ہمارے ملک میں تو ہمیشہ سے ہر عمل کو متنازعہ بنانے کی روش اقدار کے طور پر موجود رہی ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی سیدھا کام بھی متنازعہ بنائے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ سیاسی جماعتیں جنہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ عام انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گی وہ قبل ازانتخاب ہی دھاندلی اور لیول پلے فیلڈنگ اور لاڈلہ و اکلوتا جیسی گردان شروع کردیتی ہیں یوں ووٹرز کی بڑی تعداد پہلے ہی انتخابی عمل سے بدظن ہوجاتی ہے مگر اِس بار تو حد ہی ہوگئی ہے۔