آج کے کالمایم یوسف بھٹی

بھٹو اور مشرف، متنازعہ عدالتی فیصلے

ایم یوسف بھٹی

پاکستان کی عدلیہ متنازعہ فیصلے سنانے میں ہمیشہ تنقید کا مرکز رہی ہے۔ جسٹس منیر اور جسٹس مولوی مشتاق سے لے کر جسٹس بندیال تک بہت سے ایسے فیصلے ہیں جن پر افسوس کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ بھٹو کا تو واضح طور پر عدالتی قتل ہوا تھا جس کو آج تک اس کے دشمن بھی مطعون کرتے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے ایک 3رکنی خصوصی بنچ میں 17دسمبر 2019 کے دن جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔ اس وقت بہت سے تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ یہ سزا بہت جلد واپس لے لی جائے گی۔ ہوا بھی یہی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر لاہور ہائی کورٹ میں فل بنچ بنایا گیا جس نے صدر پرویز مشرف کی درخواست پر اس سزا کو معطل کر دیا۔ تب پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ آمر مشرف کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا ہے تو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو آج تک کسی عدالت نے کالعدم کیوں قرار نہیں دیا ہے؟
جسٹس وقار نے جنرل مشرف کے خلاف دفعہ 6 کے مطابق آئین سے غداری کے اپنے فیصلے میں پیراگراف 66 میں لکھا تھا:پھانسی سے قبل اگر مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور وہاں 3دن تک لٹکائے رکھا جائے۔
یہ تین رکنی خصوصی بنچ تھا جس کے ایک رکن جسٹس شاہد کریم بھی تھے جنہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ:پیراگراف 66 کی قانون میں کوئی بنیاد نہیں اور ایسا کرنے سے اس عدالت کے لئے منفی تاثر پھیلے گا، لہٰذا میرے خیال میں یہ کافی ہے کہ مجرم کو سزائے موت دی جائے۔
جنرل مشرف کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بنچ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، لہٰذا آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے صدر پرویز مشرف کو سزائے موت دی جائے لیکن لاہور ہائیکورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے 3رکنی خصوصی بنچ کی بجائے فل بنچ بنایا گیا اور پرویز مشرف کے جرم کو تو برقرار رکھا گیا مگر پشاور بنچ کو غیر آئینی قرار دے کر سزائے موت کو معطل کر دیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف یہ مقدمہ سنہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے حکومت میں آنے کے بعد درج کیا تھا۔ اس مقدمے کے منطقی انجام تک پہنچنے میں 7سال کا عرصہ لگا جس دوران خصوصی عدالت کے چار سربراہان تبدیل ہوئے۔ پرویز مشرف صرف ایک مرتبہ ہی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد وہ کبھی عدالت پیش نہیں ہوئے۔
سابق صدر پرویز مشرف مارچ 2016 میں طبی بنیادوں پر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ ان کا نام اس وقت کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کے بعد ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔ جبکہ عدالتوں میں باقی جتنی بھی سماعتیں ہوئیں وہ ان کی غیر موجودگی میں ہوئیں جس دوران صدائیں لگتی رہیں، ’’پرویز مشرف حاضر ہو‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جسٹس مولوی مشتاق کا ذاتی عناد تھا اور جسٹس انوارالحق اور ان کے ساتھی ججوں کی اکثریت بھی بھٹو صاحب سے اختلاف رکھتی تھی، جنہوں نے بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔ اسی طرح 2013ء میں نون لیگ کے بارے بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ چونکہ میاں محمد نواز کی حکومت کو پرویز مشرف نے برخاست کر کے مارشل لاء لگایا تھا لہٰذا نون لیگ دوبارہ برسر اقتدار آئی تو اس نے پرویز مشرف کے خلاف انتقاماً غداری کا مقدمہ قائم کیا۔
بہرکیف اس مقدمے کے پایا انجام تک پہنچنے میں سات سال کا عرصہ لگا اور اس دوران جنرل صاحب ایک دفعہ پاکستان بھی گئے اور واپس دبئی بھی آئے اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی میت کو کراچی میں واپس لا کر 21توپوں کی سلامی کے ساتھ دفن کیا گیا۔
اب بھٹو پھانسی کیس دوبارہ کھولا گیا ہے تو‘’مشرف حاضر ہو‘‘ کے بعد عدلیہ’’بھٹو حاضر ہو‘‘کی صدا لگانے جا رہی ہے تو کیا عدلیہ بھٹو پھانسی کیس کو کالعدم قرار دے کر اپنے عدالتی قتل کا کھلے دل سے اعتراف کرے گی؟
یہ ایسا سوال ہے کہ عدلیہ اس کیس کا میرٹ پر فیصلہ کرتی ہے اور ماضی کے برعکس کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کرتی تو اس سے کم از کم آزاد عدلیہ کی سمت میں پہلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر عدلیہ کو اپنا وقار بحال کرنا اور تنقید و تحفظات سے بچنا ہے تو اب اس کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا آغاز کرے۔ ایسا کر کے عدلیہ پہلی بار آمریت کے مقابلے میں جمہوریت اور سول بالا دستی کا بھرم رکھے گی۔
اب یہ عدلیہ کا امتحان ہے کہ اس کی پختگی اور انصاف کی بالادستی ججز کے معیاری فیصلوں سے جھلکنی چایئے ناکہ جسٹس سیٹھ وقار جیسے غیر سنجیدہ اور سطحی لفظوں سے کہ،جنرل مشرف کو مردہ حالت میں بھی ڈی چوک پر لٹکانے کے لئے گھسیٹ کر لایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button