ایڈیٹوریل

جنرل عاصم منیر کی انتونیو گوتریس سے ملاقات

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں، فلسطین کا پائیدار حل دو ریاستی حل میں مضمر ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاک فوج کے سربراہ نے دورہ امریکا کے دوران نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر زمیں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس سے ملاقات کی۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے آرمی چیف کا پرتپاک استقبال کیا اور پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دستوں کے کردار کو سراہا جو دنیا کے امن و استحکام کے لئے پرعزم ہیں۔ ملاقات کے دوران آرمی چیف نے اقوام متحدہ کی تمام سنجیدہ کوششوں میں پاکستان کی مسلسل حمایت کا اعادہ کیااور بات چیت کے دوران خاص طور پر کشمیر اور غزہ کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں قیامِ امن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے پُرامن حل سے مشروط ہے۔ آرمی چیف نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی یکطرفہ اور غیرقانونی بھارتی کوششوں کی بھی مذمت کی کیونکہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کا پائیدار حل دو ریاستی حل میں مضمر ہے۔آرمی چیف نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ غزہ میں شورش کے فوری خاتمے کے لئے عالمی برادری کو متحرک کریں تاکہ انسانی المیے کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔ آرمی چیف نے خاص طور پر ان معصوم شہریوں کی حالت زار پر گہری تشویش کا اظہار کیا جنہیں بےدردی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں خاطر خواہ انسانی امداد فراہم نہیں کی جا رہی۔ انتونیو گوتیرس نے آرمی چیف کے خدشات کو تسلیم کیا۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین انسانوں کے شیطانی ذہنوں کی اختراع کا نتیجہ ہیں اِسی لئے آج تک اِن دونوں خطوں پر نہتے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے، اور بظاہر مقصد یہی تھا کہ کشمیر اور فلسطین کو متنازعہ بناکر نہ صرف ایک طرف مسلمانوں کا خون بہایا جائے بلکہ دوسری طرف اطراف کی مسلم ریاستوں کو بھی اِن کی وجہ سے غیر یقینی اور عدم استحکام کاشکار رکھا جائے پس اُسی شیطانی ذہن نے کشمیر اور مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بننے نہیں دیا لہٰذاآج بھی کشمیر میں لہو بہہ رہا ہے، تین نسلیں آزادی کا خواب دیکھتے دیکھتے بھارتی بربریت کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی گئیں، مگر اقوام متحدہ اور عالمی امن کے ضامن ادارے اپنی قراردادوں پر عمل کرانے میں ناکام رہے لہٰذا آج بھی مقبوضہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان خطرناک نوعیت کی کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے، سرحد پار انسانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے مگر عالمی برادری اِس لئے خاموش ہے کیونکہ اسی میں اِن کو عافیت نظر آتی ہے، دوسری طرف فلسطین ہے، جہاں یہودیوں نے جان بچانے کی غرض سے پناہ لی اور فلسطینیوں نے انہیں پناہ دی مگر آج وہی یہودی اُس سرزمین کے مالک ہونے کے دعویدار ہیں اور بڑی طاقتیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کو آگ و بارود کی نذر کرنے کا شیطانی کھیل رچایا تھا وہ قوتیں آج یہودیوں کی اعلانیہ حمایت کررہی ہیں یہی صورت حال کشمیر کے معاملے میں ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں ابتک لاکھوں مسلمان کشمیریوں کا قتل عام کرچکا ہے، آج بھی بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ وادی میں تعینات ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرکے کشمیریوں کو حق رائے دہی دینے سے انکاری ہے بلکہ اب تو اِس نے عالمی اداروں کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتےہوئے غیر آئینی طریقے سے کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا ہے مگر عالمی سطح پر ویسا ہی سکوت طاری ہے جیسا فلسطین پر یہودیوں کی بربریت کے وقت طاری ہوتا ہے، چونکہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں آگ بھڑکانے والے ہی اِس آگ کی حفاظت کررہے ہیں اسی لئے اقوام عالم مصلحت کا شکار ہوکر خاموش ہیں اور سرسری ردعمل کے اظہار سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا جو فساد برپا کرنے کی منصوبہ بندی قریباً ایک صدی پہلے کی گئی تھی وہ پورے سوسال گزرنے کے بعد کشمیریوں اور فلسطینیوں کی نسلوں کو موت کے منہ میں لیکر جاچکاہے۔ یہی وجہ ہے کہ رنگ و نسل و مذہب کی تمیز کے بغیر اِن ممالک کے عوام کشمیریوں اور فلسطینیوں کے خلاف بربریت کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتے ہیں مگر حکومتیں اپنی اِس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جن کا واحد مقصد وہی ہے جو اوپر بیان کیا جاچکاہے۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی اداروں کا احترام کیا ہے، باوجود اِس کے کہ عالمی اداروں پر بڑی طاقتوں کا اثرورسوخ اور اُن کے مقصد سے بخوبی آگاہ ہے لیکن پھر بھی خواہاں ہے کہ عالمی اداروں کی توقیر کی بحالی کے لئے اِن اداروں پر اعتماد کا اظہار لازم ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس کی دنیا بھر میں انسانی جانوں کے لئے انتھک کاوشیں قابل تحسین ہیں اور بلاشبہ وہ حق اور سچ کہنے سے ذرا بھی نہیں چوکتے اور بغیر کسی دبائو کے حق پر رہنے والوں کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اِسی لئے وہ اقوام عالم میں قابل قدر ہیں۔

جواب دیں

Back to top button