کُتّا ہمارے حصے کے بسکٹ کھا گیا!

محمد انور گریوال
ہم چار لوگ ایک مشترکہ دوست کے پاس چائے پر مدعو تھے، کچھ باہمی مشاورت تھی اور کچھ گپ شپ۔ ہمارے یہ دوست مذہب پسند بھی ہیںاور مذہب پر عمل کرنے والے بھی، صرف مذہبی ہی نہیں، زندگی کے دیگر تمام معاملات کو بہتر رکھنے کی تلقین بھی فرماتے رہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ شکل و شباہت سے بھی شرعی سانچے میں ڈھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس مختصر تمہید سے یہ اندازہ نہ لگایا جائے کہ موصوف ’زاہدِ خشک‘ ہیں۔ وہ دنیا کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے میں ذرا بھی تاخیر سے کام نہیں لیتے۔ اسی لئے وہ بات چیت بہت سنجیدگی سے بھی کرتے ہیں اور قہقہہ لگانے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمہ قسم کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ شہر کے بالکل مضافات میں گھر تھا، آبادی میں طوفانی اضافہ کی بنا پر اب وہ مضافات میں نہیں، شہر میں رہتے ہیں۔ زمینیں اپنی تھیں، اس لئے اب ماحول فارم ہائوس کا بن چکا ہے۔ ایک طرف وسیع لان، اطراف میں کھجوروں اور دیگر پودوں کی رونق، دوسری طرف گائیوں کا باڑہ اور تیسری طرف دولت خانے۔
ابھی ہم لان کے کونے میں پڑی لوہے کی بنی کرسیوں تک پہنچے ہی تھے کہ دوسرے کونے سے ہمارے دوست لان میں داخل ہوئے، اُن کے ساتھ ایک بڑے قد کا صحت مند کسی اچھی نسل کا کُتا تھا، ہلکا پھلکا، اچھلتا کودتا ساتھ ساتھ چلا آرہا تھا۔ بے تکلفی میں وہ میزبان سے پہلے ہی ہماری طرف استقبالی انداز میں بڑھا، ہم میں سے ایک دو کی تو چیخ سی نکل گئی، مگر میزبان کی بر وقت مداخلت سے کُتا پیچھے ہٹ گیا، یوں میزبان کو ہمارا استقبال کرنے کا موقع مل گیا۔ ہم لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہی تھے کہ کُتے نے اِرد گِرد کا جائزہ لینا شروع کر دیا، یہاں تک تو خیر تھی، مگر بات اُس وقت بگڑتی دکھائی دی، جب اُس نے مہمانوں کی قربت اختیار کرکے انہیں سونگھنا شروع کیا۔ ایک تو وہ کُتا تھا اس لئے ہم لوگوں کو کراہت کا مسئلہ بھی درپیش تھا، دوسرا یہ کہ وہ کُتا ہی تھا ، اس لئے کاٹ بھی سکتا تھا۔ اگر وہ صرف سونگھنے پر اکتفا کرتا ہے تو کپڑے ناپاک ہو جائیں گے۔ اگر کاٹتا ہے تو بات پیٹ میں ٹیکے لگوانے تک پہنچ جائے گی۔
کُتے کی سرگرمیوں کی وجہ سے میزبان سمیت سب لوگوں کی توجہ باہمی گپ شپ کی بجائے کُتے کی مصروفیت پر ہی مرکوز تھی۔ میزبان اُسے اِدھر اُدھر متوجہ کرتے، مگر وہ گھوم پھر کر دوبارہ ہم لوگوں کے ارد گرد پھرنے لگتا۔ آخر چائے لینے کے لئے میزبان کو اٹھنا تھا، انہوں نے کُتے کو ساتھ چلنے کے لئے گھر کی طرف دوڑ لگا دی، تاکہ کُتا بھی اُن کے ساتھ بھاگتا ہوا چلا جائے۔ جاتے ہوئے تو اُن کی منصوبہ بندی کامیاب رہی، مگر واپسی پہ جونہی انہوں نے لان میں قدم رکھا ، کُتا بھاگتا ہوا اُن سے پہلے ہی ہمارے پاس پہنچ گیا، میزبان بسکٹ اٹھائے بعد میں پہنچے۔ کُتے نے وہی سرگرمی پھر شروع کر دی۔ میزبان نے از راہ ہمدردی ہمارے دوستوں کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ یہ ’’ویکسینیٹیڈ‘‘ ہے۔ یعنی ہم لوگوں کو مطمئن ہو جانا چاہیے کہ اگر کسی کو کُتے کا تھوڑا بہت دانت لگ بھی جائے تو وہ فکر مند نہ ہو، معمولی زخم تو ہو سکتا ہے، مگر پیٹ میں ٹیکے لگوانے کے تکلیف دہ عمل سے اُسے نہیں گزرنا پڑے گا۔ مگر ہم لوگ مطمئن نہیں ہوئے۔
ہمارے کسی ساتھی کو ایک ترکیب سوجھی، اُس نے ایک بسکٹ ذرا دور کرکے پھینکا، کہ ماڈرن کتا ہے، بسکٹ کھاتا ہوگا، ایسا ہی ہوا، کُتا لپک کر بسکٹ کے پاس پہنچا ، اُس کو تنورِ شکم میں پھینکا اورا گلے ہی لمحے پھر ہم لوگوں کے قریب آکر کھڑا تھا، اب دوسرے دوست نے دوسری طرف بسکٹ پھینک دیا، کُتا اچھل کر وہاں بھی پہنچ گیا اور وہی عمل پھر دہرایا۔ پھر تیسرے دوست نے بسکٹ پھینکا ۔ یوں سب دوست بسکٹ پھینک پھینک کر کُتے کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے رہے اور کُتا بسکٹ کھا کر دوبارہ آن کھڑا ہوتا۔ میزبان نے از راہِ کرم ایک پلیٹ پکوڑے بھی بنوا لئے تھے، بسکٹوں کی لالچ میں تو کُتے کو کام لگا لیا گیا تھا، مگر پکوڑے وہ شاید نہیں کھاتا تھا، لہٰذا اب پھر مالک کی ذمہ داری تھی کہ وہ کُتے کو سمجھا بجھا کر ہم لوگوں سے دور رکھتا۔ تاہم ایک بات دیکھنے میں آئی کہ کُتے کی تمام تر بدتمیزیوں کے باوجود میزبان نے اُسے ایک دفعہ بھی سنجیدگی سے دور ہٹانے کی کوشش نہ کی، شاید اس لئے کہ مہمان تو کبھی کبھار ہی آتے ہیں، کُتے نے تو مستقل وہیں رہنا ہے اور بہت حد تک چوکیداری کی ذمہ داری بھی پوری کرنا ہے۔
وقفے وقفے سے بات چیت بھی ہوتی رہی، کیونکہ کُتے کی سرگرمی بھی وقفے وقفے سے جاری رہی۔ اب ہم لوگوں کے اٹھنے کا وقت ہو گیا تھا۔ جونہی ہم لوگ کھڑے ہوئے تو کُتا نہایت پھُرتی کے ساتھ آگے پیچھے بھاگنے لگا۔ ہم لوگ بھی میزبان کے آگے پیچھے چھپنے لگے۔ یوں بھاگتے دوڑتے، چھپتے چھپاتے گیٹ تک پہنچ گئے۔ اب میزبان نے ہمیں دوبارہ کبھی’ تشریف لانے‘ کی دعوت دی۔ ہم کیا جواب دیتے؟ ہاں کرتے تو کُتے کا خیال تھا، نہ کرتے تو میزبان کا احساس۔ خیر ہم لوگوں نے میزبان کی دعوت کو کُتے کی حرکات پر ترجیح دیتے ہوئے دعوت قبول کر لی، ویسے بھی میزبان دوست سے ہمارے مراسم کافی پرانے تھے۔ لیکن یہاں ہماری ایک شرط بھی تھی ، کہ آئندہ جب ہم لوگ آئیں تو کُتے کے بسکٹ الگ ہونے چاہئیں، اگر اُن کے لئے کُتے کی یہ توہین ممکن نہ ہو تو مہمانوں کے لئے رکھے جانے والے بسکٹ زیادہ ہوں، تاکہ کُتے کے ساتھ ساتھ ہم لوگ بھی کچھ بسکٹ کھا کر چائے کا حق ادا کر سکیں۔ ابھی تو شکر ہے کُتا چائے نہیں پیتا تھا، ورنہ یہاں سے بھی کچھ حصہ ہمیں نکالنا پڑتا۔ چائے کا یہ واقعہ ستمبر کا ہے، میزبان دوست نے وعدہ کیا تھا کہ موسم کچھ بہتر ہو جائے تو میں آپ کو دوبارہ دعوت دوں گا، جس میں بات بسکٹ پکوڑوں سے ذرا آگے ہو گی اور ہم لوگوں کی شرائط پر بھی عمل کیا جائے گا۔ مگر چار ماہ گزرنے کو آئے ہیں، ہم چاروں دوستوں کو بسکٹ بھی بہت یاد آرہے ہیں، کُتے کی حرکات بھی، ہم لوگ نہیں بھولے اور سچی بات یہ ہے کہ اپنے مہربان میزبان دوست کی دعوت بھی ہمیں یاد ہے، مگر شاید اُن کے ذہن سے یہ بات اُتر چکی ہے۔