عربی شاعری کے پندرہ سو سال

محمد اکرم
اس سے پہلے کہ آزاد بک ڈپو لاہور کی جانب سے شائع ہونے والی کتاب ’’عربی شاعری کے پندرہ سوسال‘‘ پر بات کی جائے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کے مترجم ڈاکٹر خالق داد ملک مرحوم کی شخصیت پر اپنے عقیدت مندی کا اظہار کرسکوں۔ ڈاکٹرخالق داد ملک 1963 میں سیال شریف کے علاقے میں پیداہوئے۔ شروع سے ہی عربی زبان سے لگائو تھا۔ قابل استاد تو تھے ہی وہ لائق طالب علم بھی تھے۔انھیںپرائمری سے ایم اے تک مسلسل گولڈ میڈل لینے کااعزاز حاصل ہے۔1987 میں اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں بطور لیکچرر تعینات ہوئے۔1991 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل ہوئی تو 1995 میں اسسٹنٹ پروفیسرکے طور پر ان کی پروموشن ہوگئی۔2001 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے۔2005 میں انھوں نے بطور صدرِ شعبہ عربی فرائض ِ منصبی سنبھالے ۔ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ بننے تک وہ صدر شعبہ عربی رہے۔بے شمار طلباء ان کی نگرانی میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ چکے ہیں۔ اس وقت ان کے شاگرد ملک اور بیرون ملک اہم عہدوں پر فائز ہیں۔دفتر کے انتظامی اور تدریسی معامالات کونہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ میں بھی شعبہ عربی میں آجائوں اور اس کے لئے میں نے ایک درخواست بھی لکھی تھی مگر کچھ دفتری وجوہات کی بنا پر میں شعبہ عربی میں نہ جا سکا۔انھیں اپنے شعبہ کے پورے سٹاف پر بہت اعتماد تھا بالخصوص اپنے پرائیویٹ سیکرٹری الیاس صاحب کا وہ اکثر تذکرہ کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے میری شناسائی 2001 میں اس وقت ہوئی جب اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں میری ملازمت کی ابتداء ہوئی۔ یہ شناسائی مجھے ان کے اور زیادہ قریب اس وقت لے گئی جب اورینٹل کالج کے تحقیقی میگزین ’’اورینٹل کالج میگزین‘‘ کے ریکارڈ کی ذمہ داری میرے سپرد ہوئی۔ڈاکٹر خالق داد ملک اورینٹل کالج سے شائع ہونے والے اس تحقیقی مجلے کے مدیر تھے۔ دوسروں کے لئے محبت اور شفقت رکھنا ان کی خوبی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ میری قربت میں اضافہ ہوتا چلاگیایہ قربت مجھے ان کے گھر کے تک لے گئی۔ یونیورسٹی کالونی میں ان کی رہائش گاہ پر میری ان سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔
ڈاکٹر صاحب انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ انھیں دیہاتی دیسی چیزیں بہت زیادہ پسند تھیںخاص طور پر ’’گڑ‘‘انھیں بہت زیادہ پسند تھا میرے والد مرحوم کاشتکار تھے اور دیہات میں ہماری تھوڑی سی زمینیں تھیں۔میرے والد دوسری فصلوں کے ساتھ ساتھ گنے کی کاشت بھی کرتے تھے۔ میں گائوں سے میوہ جات والا گڑ بنا کے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کرتا تھا وہ بہت خوش ہوتے تھے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک میرے والد مرحوم صحت مند تھے اورخود اپنے ہاتھوں سے گڑ بنایا کرتے تھے افسوس کہ ان کے وفات کے ساتھ یہ روایات بھی دم توڑ گئیں۔میں اپنی زندگی کے اہم امور پر ڈاکٹر صاحب سے بلاجھجک مشورہ کرلیتا تھااور انھوں نے بھی ہمیشہ مشفقانہ انداز میں میری راہنمائی کی۔مجھے عربی زبان سے تھوڑا بہت لگائو تھا انھوں نے مجھے ایم اے عربی کرنے کا مشورہ دیا اور اس کی تیاری کے لئے ایجوکیشن یونیورسٹی جوہر آبادکیمپس کے عربی کے پروفیسر سمیع اللہ صاحب ( اس وقت شعبہ عربی میں ایم اے کے طالب علم تھے)کو ذمہ داری سونپی کہ مجھے ایم اے عربی کی تیاری کرائیں ۔میں ان کے پاس کوئی چھ ماہ تک ایم اے عربی کی تیاری کے لئے جاتا رہا مگر حالات نے اجازت نہ دی کہ پڑھائی کو جاری رکھ سکوں۔2009ء میں جب میں انھیں بتایا کہ ایورنیوبک پیلس اردو بازار لاہور سے ایم اے اسلامیات (پرائیویٹ) کے طلباء کے لئے ’’تدریس الحدیث‘‘ کے نام سے امدادی کتاب شائع ہوئی ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور میری اس چھوٹی سی کوشش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کام کو جاری رکھنا ۔جب ڈاکٹر صاحب ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ کے منصب پر فائز ہوئے تو انھوں نے کہا کہ اکرم تم جب چاہو میرے دفتر آسکتے ہو ۔میری آخری ملاقات اورینٹل کالج میں ان کے دفتر(ڈین آفس) میں ہوئی۔اس ملاقات میں جہاں اور باتیں ہوئیں وہاں مَیں نے ان سے پوچھا کہ سر آج کل کس موضوع پر تحقیقی کام ہورہا ہے تو انھوں نے بتایا کہ ’’عربی شاعری کے پندرہ سو سال‘‘آزاد بک ڈپو لاہور سے شائع ہوئی ہے۔میں نے ان سے پوچھ لیا کہ سر آپ آزاد بک ڈپو سے ہی اپنی کتابیں کیوں شائع کراتے ہیںتو انھوں نے مجھے بتایا کہ صادق بشیر صاحب کے والد بشیر احمد بٹالوی صاحب کا میرے پاس کافی آنا جانارہتا تھا وہ شروع سے میری کتابیں شائع کرتے تھے۔ ان کے بیٹے محمد صادق بشیر صاحب سارے معاملات دیکھتے ہیںان کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔انھوں نے مزید بتایا صادق بشیر صاحب نے میری بیماری کی حالت میں میرا بہت خیال رکھا۔ جب میرے ایسے دوست جن پر مجھے اعتماد تھا وہ ساتھ چھوڑ گئے ،وہ لوگ جن سے میں پیسے لینے وہ بھی مجھ سے دور ہوگئے ۔بیماری کی حالت میں جب مجھے پیسوں کی اشد ضرورت تھی تو ایسے مشکل حالات میں صادق بشیر صاحب میرے پاس دس لاکھ روپے لے کے آگئے اورکہا کہ ڈاکٹر صاحب مزیدبھی جتنے پیسوں کی ضرورت ہو بتایئے گا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ بعد میں بھی صادق بشیر صاحب کبھی لاکھ،کبھی دولاکھ لے کے میرے پاس آجاتے تھے۔
ڈاکٹر خالق داد ملک پاکستان اور پاکستان سے باہر عرب ممالک میں عربی زبان و ادب کے نامور محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ان کی قریباً پینتیس کتب شائع ہوچکی ہیں۔ایک آدھ کتاب کے علاوہ سبھی آزاد بک ڈپو لاہور سے شائع ہوئی ہیں۔ تحقیق و تدوین کا طریقہ کار(عربی،اسلامی علوم اور سوشل سائنسزمیں)پر انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ان کی کتب الاختبار من المتعدد والاسئلۃ الموضوعۃ، اختبارات اللغۃ العربیۃاور المعلومات العامۃ عن اللغۃ والادب العربی ایسی کتب ہیںجو عربی زبان میں سی ایس ایس،پی ایم ایس،این ٹی ایس،گیٹ،جی آرای،ایجوکیٹر،عربی ٹیچر،سبجیکٹ سپیشلسٹ، لیکچرار،اسسٹنٹ پروفیسر،انٹری ٹیسٹ بی ایس،ایم اے،ایم فل،پی ایچ ڈی اور دیگر عربی زبان و ادب کے امتحانات کے لئے کثیرالانتخابی سوالات و جوابات،مختصر سوالات و جوابات کے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔
’’عربی شاعری کے پندرہ سو سال‘‘ ڈاکٹر خالق داد ملک صاحب کی آخری کتاب جو ان کی وفات سے صرف دو ماہ پہلے آزاد بک ڈپولاہور سے شائع ہوئی اس کتاب کا عربی زبان سے براہِ راست ترجمہ کیا گیا ہے ۔کتاب کو نو ابواب میں تقسیم کیا ہے۔پہلا باب عربی شاعری کے ادوار پر مشتمل ہے جس میںعربوں کے میلے،زمانہ جاہلیت میں شاعری کا مقام و مرتبہ،جاہلی شاعری کے اغراض و مقاصد، جاہلی شاعری کی خوبیاں اور جاہلی شاعری کی حفاظت و تدوین شامل ہیں۔دوسرے باب میںامرائو القیس،طرفہ بن العبد،زہیر بن ابی سلمی،لبیدبن ربیعہ،عمروبن کلثوم،عنترہ بن شداد،حارث بن حلزہ اور نابغہ ذبیائی جو جاہلی شاعری کے نمونے ہیں ان کے بارے بیان کیا ہے۔تیسرا باب عربی شاعری کا اسلامی دور ہے اس باب میں عہد نبویﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں شاعری،شاعری کے بارے میں اسلام کا موقف،اسلامی دور کی شاعری کی فنی خوبیاں،اس دور کی شاعری کے مقاصد، معانی اور افکار بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حسان بن ثابتؓ،اعشی قیس،خنساء،کعب بن زہیر عمروبن معدیکرب شعراء کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نمونہ کلام کو بھی بیان کیا ہے۔تیسرے باب میں اموی دور کی شاعری کے مقاصد اور خصوصیات بیان کے ساتھ عمر بن ابی ربیعہ،اخطل، جریر، فرزدق، کُثیر عزّہ جیسے اموی دور کے اہم شعراء کا ذکر کیاہے۔چھٹے باب میں عباسی دور کے شعراء بشار بن برد،ابوالعتاہیہ،امام شافعی، ابونواس، بحتری، متنبی، صاحب بن عباد،ابولعلاء المعری اور ابواسماعیل طغرائی کے تذکرے کے علاوہ اس دور کی شاعری کے اغراض و مقاصد اور شاعری کی خصوصیات،عباسی دور میں عربی شاعری کی ترقی کے اسباب سے آگاہ کیا ہے۔اگلا باب حماسہ ہے جس میں السموأل بن عادیا،سالم بن وابصہ اسدی ،امام بوصیری کو بیان کیا گیا ہے۔آٹھواں باب برصغیر کی شاعری پر مشتمل ہے جس میں ابو عطاسندھی،ابو ضلع سندھی،ابوعبداللہ ہارون ملتانی،ابوریحان بیرونی،ابوالعلاء عطاء بن یعقوب غزنوی لاھوری،مسعود بن لاھوری،شیخ امیر خسرو،شیخ عبدالمقتدر شریحی،شیخ احمد تھانیسری،غلام علی آزاد بلگرامی، فیض الحسن سہارنپوری اور شیخ اصغر علی روحی جیسے نامور شعرا شامل ہیں۔1897ء میں مصر پر فرانس کے حملے کے بعد جدید شاعری کا دور کا آغاز ہوتا ہے ۔کتاب کے اس آخری باب میںحافظ محمد ابراہیم،خلیل مرم بک،ابوالقاسم الشابی،جبران خلیل جبران،احمد شوقی،رفاعہ طھطاوی،خلیل مطران،ایلیا ابو ماضی، معروف رصافی،علی ہاشم رشید،بلند حیدری،عبداللہ البردونی،امیرعبداللہ الفیصل،احمد مطر، نبیلہ الخطیب،حصہ ہلال،ڈاکٹر وائل حمود جحا کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔
عربی زبان سے اردو ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ڈاکٹر خالق داد ملک مرحوم اور محمد احمد(ایم فل) نے ’’عربی شاعری کے پندرہ سوسال‘‘کا تحقیق پر مبنی ترجمہ کرتے ہوئے ترتیب زمانی کا خاص خیال رکھا ہے۔عربی زبان و ادب کے طلباء کے لئے تو یہ کتاب مفید ہے ہی عام قاری کے لئے بھی عربی شاعری کی تاریخ سے روشناس ہونے کے لئے یہ کتاب مفید ثابت ہوگی۔9اکتوبر 2021ء کو عربی زبان و ادب میں اپنی الگ اور منفرد شناخت رکھنے والے ڈاکٹر خالق ملک اس دنیا فانی سے چلے گئے مگر ان کی علمی خدمات کتابوں کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔