قصہ ایک صدی کا
ساجدہ صدیق
خلافت عثمانیہ کے سقوط کو سو سال مکمل ہو گئے ہیں یعنی ایک صدی ہوچکی ہے مسلمان بغیر قیادت کے ذلیل ہورہے ہیں اور آج کا جمہوریہ ترکی اس دن کو آزادی کے نام پر جوش و خروش سے منارہا ہے کہ اس نے خلافت عثمانیہ سے آزادی حاصل کی اور یہودی ربیوں کو تقریب کا مہمان خصوصی بنا کر ان کا استقبال کر کےپیغام دے رہا ہے کہ ہم نے تمہاری اطاعت میں سو سال گزار دیے ہم اسلامیہ نہیں جمہوریہ ہیں اور دنیا جان لے کہ پلاسٹکی خلیفہ طیب اردگان نے یہ کام ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب یہی یہودی غزا میں مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں۔ اب آتے ہم ملک کی صورتحال کی طرف۔ہمارے ملک کا ہر شعبہ جیسے زوال کا شکار ہے۔ایسا زوال آج تک تو مغلیہ سلطنت پر بھی نہیں آیا ہو گا۔پون صدی کا یہ قصہ اس قدر اندوہناک ہے کہ ناقابل گفتنی ہے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اس قدر سفاکی اور بھیانک پن ہے کہ بے رحمی سے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلہ کیا جارہا۔اس ملک دیگر مالی کرپشن کے علاوہ پانچ کھرب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوتی ہے۔اس چوری میں نوے فیصد واپڈا والے خود ملوث ہیں۔یعنی اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ والی بات ہوگئی۔ حالانکہ اس چوری کو روکنے کے لئے کئی ادارے موجود ہیں لیکن سارا بوجھ صارفین پر ہے۔آئی پی پیز کے غلط ترین کرپشن پر مبنی معاہدوں اور بجلی چوری نہ روکنے کے سارے نزلے عوام پر گرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں دنیا کی سب سے مہنگی ترین بجلی ہے اور سلیبز کا شیطانی نظام ہے۔اشرافیہ کی اپنی بجلی فری ہے۔
توں کیہ جانے بھولیئے مجے انار کالی دیاں شاناں
اب پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لئے درخواست زیر غور ہے۔بجلی اتنی مہنگی ہے کہ برآمدی صنعتوں میں بجلی کی کھپت میں 40 فیصد کمی ہوئی ہے اور کئی سیکڑوں ملوں کے مالکان نے اپنی ملیں بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور بہت سے لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے کاامکان ہے۔ظاہر ہے برآمدات جو پہلے ہی کم ہیں، مزید کم ہوں گی اور گیس کی قیمتوں میں یکدم 173 فیصد اضافہ کے باوجود سوئی سدرن کمپنی نے مزید مہنگائی کی درخواست کی، سماعت کی جائے گی۔
عوام کے کچومر نکالنا پاکستان میں بہت آسان ہے بلکہ بغیر زہر کے مارنا بہت آسان ہے۔بقول اسد اللہ خاں غالب
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
مختصر بات یہ ہے کہ جو قوم سیاسی ،مذہبی ،اخلاقی طور پر بالادست ہو جاتی ہے تو پھر محکوم اقوام غالب اقوام کے کلچر،تہذیب ،تمدن ثقافت اور زبان و ادب سے مرعوب ہو ان کو اپنی عملی زندگیوں میں Adopt کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ آج سے قریباً چھ سات سو سال پہلے فارسی ہندوستان کی سرکاری زبان نہیں تھی۔ غوری اور مغل ہندوستان کے بادشاہ بنے تو ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہو گئی۔سارے دفتری کاروبار فارسی زبان میں ہونا شروع ہو گئے۔ حتیٰ کہ اس عہد میں قرآن شریف کی تفسیریں بھی فارسی زبان میں ہی لکھی جانے لگیں۔ لیکن مغلوں کے آخری عہد میں اردو سرکاری زبان ہونا شروع ہو گئی۔وجہ یہ تھی کہ مغلوں کے آخری دور میں خود مغل بادشاہ اردو زبان کو جانتے تھے اور اردو زبان بولتے اور لکھتے تھے۔جن ممالک کے اوپر انگریز برسر اقدار آئے وہاں انگریزی زبان کو فروغ حاصل ہو گیا اور جن ملکوں کے اندر فرانسیسی برسر اقدار آئے،وہاں فرانسیسی زبان، فرانسیسی تہذیب و تمدن اور فرانسیسی کلچر رائج ہو گیا۔ایک ماہر سیاسیات یوں رقمطراز ہیں۔
’’170 کے لگ بھگ ترقی پذیر،پسماندہ اور غریب ممالک میں غربت، افلاس، مہنگائی، بیروزگاری اوردیگر اور بے شماراقسام کے معاشی، اَقتصادی، مالی ،مالِیاتی،سماجی،معاشرتی، تہذیبی، تمدنی،ثقافتی، فِکری اور ذہنی مسائل اور اِمراض کی درج ذیل چار بڑی اوربُنیادی وجوہات ہیں
1۔ دنیا کے ترقی پذیر،پسماندہ اور غریب ممالک میں ایک ہزار کے قریب ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروباروں کا ہونا جس کے باعث تیسری دنیا کے 170 کے لگ بھگ ممالک سے ہرسال کھربوں ڈالرز کی دولت 25 کے لگ بھگ انتہائی ترقی یافتہ ممالک کو منتقل ہورہی ہے۔
2۔ ترقی پذیر، پسماندہ اور غریب ممالک کے سرمایہ داروں کا اپنے اپنے ممالک کے اندراپنے اپنے ممالک کی حکومتوں کے تعاون اور آشیر باد سے بے مہا با اور بے تحاشہ معاشی،اِقتصادی ،مالی اور مالِیاتی لوٹ مارکرنا۔
3۔ترقی پذیر، پسماندہ اور غریب ممالک کے حکمران اپنے اپنے ممالک کے سرکاری خزانوں کوبے دَھڑک لُوٹنے اور اپنے اپنے ممالک سے اس لوٹی ہوئی دولت کو سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اپنے ذاتی ناموں اور اپنے ذاتی اکاؤنٹوں میں جمع کروانے میں مصروف ہیں۔
4۔ہر ملک کے سرکاری محکمے، سرکاری ادارے اور سرکاری افسران اپنے اپنے سرکاری محکموں اور سرکاری اداروں کومجموعی طور پر ملنے والی سالانہ اربوں ڈالرزکی گرانٹوں کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہیں۔
صاحبو!بس ہم اور آپ پِھر یہی کہہ سکتے ہیں کہ جب باڑ ہی کھیت کی دُشمن ہو پِھر اُس کی حفاظت کون کرے۔
اپنے کلچر کو ،اپنی قوم،اپنی معیشت کو اور اپنے دین کو زندہ و جاوید اور سلامت رکھنے والی حکومتیں کرپٹ نہیں ہوتیں اور اپنے ادارے تباہ و برباد نہیں کرتیں۔مردہ ضمیر حکمران اور ادارے سربراہان ہی مالی کرپشن اور اقرباء پروری کی خاطر اپنے ادارے تباہ و کر دیتے ہیں۔یہی المیے عوام کو غربت کے گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو اندھا ،بہرہ اور گونگا پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔