زندگی ایک ریس
بسمہ عنایا
اولمپکس ایک ایسا کھیل ہے جہاں دنیا بھر کے کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کو منوانے اور اپنا نام روشن کرنے کی حسرت آنکھوں میں سجائے بین الاقوامی میدانوں کا رخ کرتے ہیں ۔ پہلے جملے سے یقیناً آپ کو یہی لگا ہو گا کہ آج کی تحریر اولمپکس کے نام ہو گی، مگر یہیں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ لکھاری جادوگری کے ہنر سے آشنا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات وہ آپکو تین آنکھوں والے کتے کی کہانی کا جھانسہ دے کر دوسرے صفحات پر زندگی کے بہت بڑے سبق سکھا جاتے ہیں۔ اگرچہ ان لکھاریوں کی فہرست میں خود کو شامل نہیں کروں گی مگر کوشش کروں گی کہ زندگی کے صفحے کنگال کر کچھ ایسا پیش کروں جیسے شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
اگر آپ زندگی کو اولمپکس کا میدان سمجھ لیں اور اس کے باشندوں کو کھلاڑی، مگر مقابلے سے قبل چند اصولوں کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ زندگی کی دوڑ کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ اپنی منزل پر نظر ایسے رکھیں جیسے بزرگ خواتین شادیوں میں شوخ اور چنچل لڑکیوں پر رکھتی ہیں۔ اس کا نقصان آپ کو یہ ہو گا کہ آپ بھٹکتی ہوئی آتما کی طرح اِدھر اُدھر سیروتفریح کرنے کے بجائے اپنے ہدف تک باآسانی پہنچ جائیں گے۔ ایک اور لفظ ، اس سے جڑی کہانی اور اس میں چھپا راز میری نظروں سے گزرا اور ایک راز دار دوست کی مانند اسے آگے پھیلانا صدقہ جاریہ سمجھتی ہوں۔ تو لفظ ہے استقامت کا اور اس کی کہانی ہے انجلینا میلنیکووا کی، ایک روسی آرٹسٹک جمناسٹ جو 2016 کے سمر اولمپکس میں روس کی نمائندگی کر چکی تھی اور اس نے چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ ریو اولمپکس کو روتے ہوئے ختم کرنے کے بعد، اس نے جمناسٹک چھوڑنے کا نہیں سوچا۔ شاید اس لئے کہ اس نے برفیلے علاقے کی سختیوں کو جب برداشت کر لیا تو قدرت نے اسے آنسوؤں کو کیسے طاقت میں بدلہ جائے، یہ سکھا دیا تھا۔ اس نے ثابت قدمی کے ساتھ کام کیا اور شدید تربیت کے بعد اس نے خود کو ایک پرعزم اور محنتی جمناسٹ میں تبدیل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میلنیکوواایک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ ٹوکیو پہنچی۔ کئی سخت مقابلوں کے بعد اور شدید دباؤ کے باوجود، میلنیکووا اور اس کی ٹیم نے امریکہ اور برطانیہ کو شکست دے کر ٹوکیو 2020 خواتین کی ٹیم کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ اب اس میں چھپے راز کو آشکار کرتے ہیں، وہ یہ کہ اگر آپ زندگی میں ایک دفعہ ناکام ہو جاتے ہیں تو دل کھول کر روئیں مگر انڈین ڈراموں کی ہیروئن سے متاثر ہو کر خود ترسی کی بے تاج مہارانی بننے کے بجائے اپنے آنسوؤں کو مرمیڈ کی طرح موتیوں میں بدلنے کا نسخہ ڈھونڈ نے کے لئے سمندر کی گہرائیوں کا سفر کریں۔ اس سے نہ صرف سمندر کا علم آپ کے اختیار میں آئے گا بلکہ اس کو تسخیر کرنے کا راز بھی آپ کے ہاتھ لگ جائے گا۔
موجودہ دنیا جو آگ کی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، یہاں قابلِ ذکر بات ہے کہ ہماری زمین اور آگ کا تعلق بہت گہرا ہے۔ سائنسی مفروضات کے مطابق اس دھرتی نے آنکھ ہی دھماکے میں کھولی جسے بگ بینگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اگر یہ تھیوری درست ہے تو خواتین بھی زمین کی دھما کے دار انٹری سے مرعوب دکھائی دیتی ہیں۔ ہر فنکشن میں چاہے دیر سے پہنچے مگر تیار اس مناسبت سے ہوتی ہیں کہ اگر اچانک وہاں پر بیوٹی پیجنٹ کا انعقاد ہو جائے تو اول پوزیشن کا تعین کرنے والے جج چکرا جائیں ۔ زمین کے جنم لینے کے بعد انسانی زندگی نے بھی ارتقاء کی طرف تبھی قدم بڑھائے جب آگ سے روبرو ہوئے اور اس کو قابو کرنے کا ہنر جانا۔ چونکہ آگ نے ہمیں جنگلی جانوروں سے حفاظت کی راہ بتائی، شاید یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کو مقدس سمجھ کر دوسروں کی زندگیوں میں آگ لگانی شروع کر دی۔ صورتحال یہ ہے کہ اگر زندگی میں کوئی آگے بڑھ رہا ہو تو سازشوں کا سلسلہ ایسے شروع ہوتا ہے جیسے برسات کی بارش جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی، مگر ہم پنجابی کا یہ قول بھول جاتے ہیں کہ’’ ‘ جنو اللہ رکھے اوہنوں کون چکھے۔‘‘ اولمپکس میں بھی کھلاڑیوں کو ہمیشہ یہی تاکید کی جاتی ہے کہ دوسروں کے لئے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے خود پر دھیان رکھا جائے اور جیتنے کے لئے جی جان لگا دیں۔
آج کی تاریخ میں سب سے اہم سبق یہ ہے کہ تنگ نظری اور تنگ نقطہء نظر آپ کی زندگی میں ایسی رکاوٹ بنتے ہیں کہ آپ ہمیشہ ٹھوکریں کھا کر منہ کے بل گرتے ہیں اور آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یہاں پر نوکیا کا قصہ بیان نہ کیا جائے تو شاید اس تحریر کے لوازمات میں کمی آ جائے گی ۔ نوکیا، جو کبھی موبائل فون مارکیٹ میں ایک غالب کھلاڑی تھا، سمارٹ فونز کے زیادہ مقبول ہونے کے بعد نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لئے جدوجہد کرتا رہا، بالآخر ایپل اور سام سنگ جیسے حریفوں سے مارکیٹ شیئر کھو بیٹھا۔ نوکیا کی ناکامی کا ایک پہلو یہ تھا کہ جب انڈسٹری میں مقابلہ سخت ہوگیا، نوکیا اندر سے ٹوٹنے لگا۔کمپنی کے مختلف شعبوں نے ہم آہنگی بند کر دی اور مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ نوکیا کی ناکامی ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے کہ سننے اور سیکھنے کا کارپوریٹ کلچر حریفوں سے آگے رہنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ سبق صرف اداروں کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ شخصی ترقی کے لئے بھی لازم ہے کہ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے ۔ اولمپکس میں بھی ہمیشہ جدت کو فروغ دیا جاتا ہے اور جو کھلاڑی آزادانہ سوچ، نئی تکنیک اور مہارت کو اپناتے ہیں، وہی اپنی منزل کو ہاتھ لگا پاتے ہیں۔ ’’تھری ایڈیٹس‘‘ فلم میں وائرس نے ایک جملہ کہا تھاکہ ‘زندگی ایک ریس ہے، بجا کہا تھا اور اگر اس ریس کے اصولوں کا نہ سمجھا جائے تو زندگی کے میدان میں منزل کھو جاتی ہے۔