مشرقی پاکستان کیوں اور کیسے بنا۔۔۔؟
غلام مصطفی
1947ءقیام پاکستان یعنی تقسیم ہند کے وقت مشرقی پاکستان مغربی پاکستان(موجودہ پاکستان) کا حصہ تھا ،ہندوستان کی تقسیم بھی عجیب طریقے سے کی گئی،یوں سمجھ لیجئے تقسیم ہند اگراسی طریقے سے کی جاتی جس کا وعدہ کیا گیاتھا تو اس وقت پاکستان بھارت کے مقابلے میں رقبے اور آبادی کے لحاظ اتنا چھوٹااور کمزورملک نہ ہوتا جتنا آج نظرآتاہے،لارڈ مائونٹ بیٹن کا تعلق برطانوی شاہی خاندان سے تھا اور وہ اس سے قبل دوسری جنگ عظیم میں نیوی میں اہم ذمہ داریاں ادا کر چکے تھے۔ 18 دسمبر 1946 کو انہیں ہندوستان کا وائسرائے نامزد کیا اور 22 مارچ 1947 کو وہ آخری وائسرائے کی حیثیت سے ہندوستان پہنچے اور اگلے ساڑھے چار ماہ میں انہوں نے ہندوستان کو تقسیم کر دیا اگرچہ اس مقصد کیلئےانہیں جون 1948 تک کاوقت دیا گیا تھا کیونکہ اس عرصے تک برطانیہ کو ہر صورت ہندوستان چھوڑنا تھا۔مگر انہوں نے یہ کارنامہ مقررہ وقت سے پہلے ہی کر دکھایا۔ ویسے تو وائسرائے کی کہانی مختلف مگر دلچسپ واقعات سے بھری ہوئی ہے لیکن ہندوستان کی تقسیم سے چند روز قبل وائسرائے نے نہرو اور پٹیل کے ساتھ ملکر ایک سازش کے تحت ہندوستان اور پاکستان کو وعدوں اور معاہدوں کے برعکس تقسیم کردیا۔بطور وائسرائے کی اس تخلیق نے برصغیر کے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا خاص طور پر پاکستان کے مسلمانوں کو۔وائسرائے کے ہاتھوں ہندوستان کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث آج تک پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ تو تعلقات بحال ہوپائیں ہیں اور نہ ہی جنگ کے خطرات ختم ہوسکے ہیںبلکہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان نفرتیں اور دشمنیاں مزید بڑھ گئی ہیں اور ہرگزرتے دن کے ساتھ یوں محسوس ہورہاہے کہ دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں اور دشمنیوں کے فاصلے مزید طویل ہوتے جارہے ہیں۔
ہندوستان کیلئے آخری وائسرائے(برطانوی نمائندہ) نے نہرو، پٹیل اور دیگر ہندؤوں کے ساتھ ملکر ایک سازش کے تحت ہندوستان کی تقسیم کو کچھ اس انداز سے کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت والے کئی علاقے بھی بھارت کے حصے میں ڈال دیئے گئے،جبکہ معاہدہ کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہوناتھے، کیونکہ برصغیر کی تقسیم کے پیچھے برطانوی راج اور عالمی سامراجی قوتوں کا ہاتھ( سازش) تھی لہٰذا تقسیم ہند کو اصولوں کے منافی تقسیم کردیا گیا ۔ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) اور پاکستان کے درمیان قریباً 1600 کلومیٹر کا طویل فاصلہ بھی تھا جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے بھی یہ فاصلہ بہت زیادہ ہے ۔ جب دونوں ملکوں کی سرحدیں بھی نہیں ملتی تو دل اور دماغ کیسے مل سکتے تھے؟ مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ 1971 سقوط ڈھاکہ کے وقت مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا گیا۔شیخ مجیب الرحمان کو مشرقی پاکستان میں مہرہ بنایا گیا، دوسری طرف پاکستان میں ایسے لوگوں کو اقتدار سونپ دیا گیا تھا جو شروع ہی سے مشرق پاکستان کے لوگوں کو اپنا غلام بناکر رکھناچاہتے تھے،لیکن ایسا کب تک ہوسکتا تھا؟ لہٰذا ہماری غلطیوں ،بھارتی اور عالمی سازش نے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو آپس میں لڑوادیااس لڑائی میں جوکچھ بھی ہوا وہ ایک الگ المناک داستان ہے جس کاذکر یہاں ممکن نہیں ہے۔کیونکہ جب لڑائی جھگڑے اور فسادات برپا ہوتے ہیں تواس وقت کچھ بھی ہوسکتاہے ، بہرحال غلطیاں اور زیادتیاں دونوں طرف سے ضروری ہوئیں ہیں جن سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
1960تک پاکستان ایشیا میں ابھرتی ہوئی معیشت تھا، اس خطے میں پاکستان تیزی سے ترقی کررہا تھا۔ پاکستان کی ا قتصادی ترقی سے بھارت ، روس اور عالمی سامراجی قوتوں سمیت دیگر ممالک بھی پریشان تھے، کیونکہ وہ اس خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرناچاہتے تھے، اسی وجہ سے تقسیم ہند کے وقت پاکستان کو وہ علاقے نہیں دیئے گئے جواس کاحق بنتاتھا۔ خطے میں بھارت کی بالادستی کیلئے ان قوتوں کی آج بھی کوششیں جاری ہیں۔ لیکن اب خوش قسمتی سے پاکستان کو ایک مضبوط اور آزمایا ہوا دوست ملک چین مل گیاہے جس کی وجہ سے اس خطے کے مفادات تقسیم ہوگئے ہیں، اب یہاں صرف امریکہ اور روس کے مفادات نہیں بلکہ چین کے مفادات بھی شامل ہوگئے لہٰذا اب اس خطے میں بھارتی اجارہ داری قائم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا، مشرقی پاکستان کو بین الاقوامی سازش کے تحت علیحدہ کیا گیا۔مشرقی پاکستان میں ہندو اقلیت کی آبادی 10ملین کے لگ بھگ تھی۔ بھارت کی یہ خواہش تھی کہ کسی بھی طرح مشرقی پاکستان ، مغربی پاکستان سے الگ ہو تاکہ ہندوئوں کی اقتصادی حالت کو مضبوط بنایا جاسکے لہٰذا مشرقی پاکستان میں موجود ہندوئوں نے بھارت کی جانب سے جاسوسی کرنا شروع کردی جبکہ سویت یونین (روس) بھی پاکستان کےخلاف تھا اور اس نے بھی بھارت کا خوب ساتھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے امریکہ کو اپنے ملک میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی اور جب 1971میں ایسی صورتحال بنی تو سوویت یونین نے پاکستان کےخلاف بھارت کی کھلی حمایت کی جبکہ امریکہ نے پاکستان کو یقین دلایا کہ وہ فوجی سازوسامان کےساتھ پاکستان کی مدد کرے گا اور پاکستان کی مدد کیلئے اپنا ایک بحری بیڑہ بھیجے گا ۔
1970کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے 169 میں سے 167 اسمبلی کی نشستیں حاصل کر کے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کر لی تو مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد پاکستان میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہو گئی، اس وقت کی حکومت نے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کے بجائے عوامی لیگ کےخلاف فوجی ایکشن لینے کا فیصلہ کیا اس اقدم کے بعد بنگالیوں میں پہلے سے موجود نفرت مزید بڑھ گئی۔ بعدازاں انہوںنے مسلح تصادم کاراستہ اختیار کرلیا ۔ اس دوران عوامی لیگ کے سربراہ اور دیگر کئی بنگالی رہنما بھارت بھاگ گئے اورپھر بھارت نے دنیا کو گمراہ کرنےکیلئےپاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈا مہم چلائی اور کہا کہ لاکھوں بنگالی مہاجروں کی آنے کی وجہ سے بھارتی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، دراصل اس پروپیگنڈا مہم کا مقصد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کاجواز پیدا کرنا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان نے مکتی باہنی نام سے ایک نیم فوجی تنظیم بھی قائم کی ہوئی تھی جس نے پاکستانی فوج کےخلاف گوریلا جنگ شروع کردی اور اس کی حمایت میں بھارت نے بھی پاکستانی فوجیوں پر حملے کرنا شروع کردیئے اور پھر اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔
کیونکہ مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو استادوں کی ایک بڑی تعداد فرائض انجام دے رہی تھی، لہٰذا وہاں سازشی بھارت نے سازش کرتے ہوئے اس قسم کا لٹریچر تیار کروایاجس کے ذریعے بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کےخلاف بغاوت کی سوچ پیدا کی جاسکے اور پھر انہیں مغربی پاکستان کیخلاف استعمال کیاجائے۔بنگالیوں کی مغربی پاکستان سے نفرت میں اضافہ صرف بھارتی سازش سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس میں مغربی پاکستان کے خود غرض حکمرانوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا کیونکہ جب 1970کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کر لی تو مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا، یہ دوسری بات ہے کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرلینے کے بعد شیخ مجیب الرحمان اپنے مطالبات میں اضافہ کر دیا تھا جن کو پاکستان کے حکمرانوں نے مسترد کردیا۔عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے 6 نکات پیش کئے، عوامی لیگ کے اس منشور کو ملک کی دوسری پارٹیوں نے بھی مسترد کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمان نے بھارت سے قریبی تعلقات قائم کر لئے اور بھارت مشرقی پاکستان کی عوام کومغربی پاکستان کے خلاف بھڑکاتا اور ورغلاتا رہا اوربنگال میں یہ مشہور کردیا گیا مغربی پاکستان نے بنگالیوں کو اقتصادی فوائد سے محروم رکھا ہوا ہے ۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان جغرافیائی فاصلہ بہت زیادہ تھا لیکن دونوں ممالک کے درمیان ایک واحد رشتہ(مذہب) دین اسلام کاتھا جس کی بنیاد پر دونوں نے ایک ساتھ 24برس گزار دیئے ، جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ نسلی اور لسانی دونوں لحاظ سے پاکستان اور بنگلہ دیش بالکل جدا تھے، مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے بھی اپنے رویوں سے بنگالیوں کو ناراض کیاجبکہ بنگلہ دیش بنانے کی سازش پہلے سے ہی تیار ہوچکی تھی،اگر بھارت سازش اور مداخلت نہ کرتا تو بنگلہ دیش الگ نہ ہوتا، سب سے پہلے دونوں حصوں کی عوام میں غلط فہمیاں پیدا کی گئیںاور جب یہ اختلافات اپنے عروج پر پہنچ گئے تو بھارت نے اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان کی عوام کو گمراہ کرنے کیلئے مختلف پروپیگنڈوںکے ذریعے مغربی پاکستان کےخلاف کر دیا، عدم اعتماد کی اسی فضا میں دونوں حصوں کی عوام ایک دوسرے بہت دور ہو گئی۔لہٰذا شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنگلہ دیش بنانے کی راہ ہموار کی اور 16 دسمبر 1971ءکو بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کےساتھ ہی امت مسلمہ کی سب سے بڑی مملکت پاکستان کو دولخت کردیا گیا ۔
حالانکہ دونوں حصوں کے مسئلے الگ الگ نوعیت کے تھے،مغربی پاکستان کے افسرجنہیں مشرقی پاکستان میں تعینات کیا گیا تھا ان کارویہ بالکل مختلف تھا اور انہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کو اہمیت ہی نہیں دی جبکہ اپنے آپ کو حاکم سمجھتے رہے۔جبکہ مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کے سرکاری عہدیداران عوام دوست اور ہمدرد رویہ رکھتے تھے یہی وجہ تھی دونوں حصوں میں مفاہمت کے جذبے کو بڑھایا نہیں جاسکا۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے رویوں کی وجہ سے بنگالیوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوئی ،وہ یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ وہ مغربی پاکستان میں حصہ دار نہیں ہیں بلکہ غلام کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہی رویوں نے بنگالیوں کو علیحدگی پر مجبور کیا۔ جبکہ دوسری طرف مارشل لا ءلگنے کی وجہ سے بھی مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھا۔ جنرل ایوب خان(مرحوم) نے پارلیمانی نظام کی ناکامی کاذمے دار سیاستدانوں کوٹھہرایا۔ سیاستدانوں کے رویوں ہی کی وجہ سے ہی شاید پاکستان میں اب تک جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی اوراگر کبھی جمہوریت نظر بھی آتی ہے تووہ اپنی اصل حالت میں نہیں ہوتی بلکہ جمہوریت کی ایک ڈراؤنی شکل اختیار دکھائی دیتی ہے عوام کے سامنے آج بھی موجود ہے جس کا فائدہ عوام کونہیں بلکہ اقتدار میں آنیوالوں اور اقتدار میں لانے والوں کو ہو رہا ہے۔پاکستان میں پارلیمانی نظام کی ناکامی میں کیونکہ سیاستدانوں کا کردار بھی شامل ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں جمہوریت کے کمزور ہونے میںاداروں سمیت سیاستدان کا خاص کردار ہے۔ بنگلہ دیش کو دنیا کے کئی ملکوں نے ایک خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کر لیا لیکن مشرقی پاکستان بننا مغربی پاکستان کے محب وطن لوگوں کیلئے بڑا المیہ تھا۔ اس لئے پاکستان کی عوام کو اس کا دکھ آج بھی محسوس ہوتاہے۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس 22سے 24 فروری پر 1974ءمیں لاہور میں منعقد ہوئی۔ جس میں 40مسلم ملکوں کے وفد نے شرکت کی۔ اس اسلامی سربراہی کانفرنس میں مسلم دنیا کو درپیش بہت سے مسائل زیر غور آئے اور پھراسی کانفرنس میں پہلی بار اسلامی بھائی چارے اور دوستی کا روح پرور نظارہ بھی دیکھنے میں آیا جب اخوت اور بھائی چارے کو محسوس کرتے ہوئے بنگلہ دیش کو بھی اس اسلامی سربراہی کانفرنس میں مدعو کرلیا گیا اور پھراس طرح پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا۔