اختیار، اقتدار اور نیابت الٰہی
انسان کو اشرف المخلوقات کے ساتھ ساتھ دنیا میں اللہ کا خلیفہ اور نائب کا مقام حاصل ہے۔ کل کائنات کا اختیار اور اقتداراللہ رب العالمین کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اسی لامتناہی اختیار اور اقتدار اعلیٰ میں سے بالکل معمولی سا اختیار اور اقتدار اللہ پاک نے انسانوں کو عطا کیا ہے ۔ یہ سلسلہ اختیار و اقتدار حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک رنگ ونسل، مذہب، زبان اور جغرافیائی تفریق کے بغیر جاری وساری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ جن کے پاس ماضی میں اختیار اور اقتدار تھا آج وہ اختیار سے محروم ہیں۔ جو ماضی میں بے بس اور بے اختیار تھے بلکہ جن کو دنیا جانتی تک نہ تھی وہ آج بااختیار اور برسر اقتدار ہیں۔ ماضی کے بادشاہوں کو امن اور جان کی حفاظت کی بھیک مانگتے بھی دنیا نے دیکھا ہے۔ کچھ درویش ایسے بھی دنیا میں حکمران رہے جو اپنے گھروں میں فاقہ کشی پر مجبور رہے لیکن اپنی رعایا کیلئے آسانیاں پیدا کرتے رہے اور امانت میں خیانت نہیں کی۔ اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جو اقتدار اور اختیار کو اللہ کا خلیفہ بن کر انتہائی ذمہ داری سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایسے انسان کی ہر لمحہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس فرض کی ادائیگی اور امانت میں کوئی کمی و کوتاہی نہ ہوجائے، کسی سے حق تلفی نہ ہوجائے، کسی کا دل نہ دکھ جائے۔ کہیں اس کی رعایا میں کوئی بھوکا نہ سو جائے۔ وہ ہر وقت اسی تجسس میں رہتا ہے کہ اس کے اختیار اور اقتدار سے کسی انسان کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس سے دنیا کس قدر استفادہ کررہی ہے۔ وہ روزمرہ زندگی میں اپنا جائزہ لیتا ہے، اپنا احتساب خود کرتا ہے۔ اُٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ہر وقت وہ اس اقتدار اور اختیار کو خالق کائنات کی طرف سے مخلوق کی خدمت کا فریضہ سمجھتا ہے۔ وہ اس اختیار کو پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج سمجھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں جی یہ زمانہ قدیم کی باتیں ہیں آج ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں؟ ذرا شعور کی نظر سے دیکھیں تو ابھی کل کی بات ہے صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں ایک ایسے درویش وزیر خزانہ بھی رہے ہیں جن کو دنیا سراج الحق کے نام سے جانتی ہے۔ جن کی امانت اور صداقت کی تصدیق اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں نے بھی کردی۔ ورلڈ بینک کی سروے رپورٹ میں دنیا میں بے مثال وزارت خزانہ بھی خیبر پختونخوا کی صوبائی وزارت خزانہ کو قرار دیا گیا۔ وہ اس لئے کہ اس وزارت میں پوری دیانت داری سے امانت کی پاسداری کی گئی۔ قوم کا پیسہ امانت سمجھ کر قوم پر لگایا گیا۔ عدالت عظمیٰ پاکستان نے بدعنوانی اور احتساب کے مقدمات کی سماعت کے دوران برملا کہا کہ اگر غیر جانبداری سے احتساب کیا جائے تو پاکستان میں صرف سراج الحق ہی بچ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے درویش صفت انسان کو جب اختیار اور اقتدار ملا تو انہوں نے اسے حقیقت میں اللہ کی امانت سمجھ کر اپنا فریضہ سرانجام دینے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں اپنے اور پرائے سب پکار اٹھے کہ اگر دنیا میں کہیں انسانیت کی فلاح بہبود کیلئے کوئی نظام کامیابی سے چل سکتا ہے تو وہ اسی صورت چل سکتا ہے جب اقتدار اور اختیار کو اللہ کی امانت سمجھ کر ایمانداری سے پاسداری کی جائے۔ وزیر خزانہ خیبر پختونخوا سراج الحق نے گئے گزرے دور میں بھی قومی امانت کی پاسداری کرکے ثابت کردیا کہ اس ملک کو اگر خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر بددیانتی کی جگہ امانت کی پاسداری اور نظام عدل وانصاف اور قانونی کی بالا دستی کو مدنظر رکھ کر زندگی گزارنا ہوگی۔
المیہ ہے کہ ایسے انسان بھی دنیا میں آتے رہے ہیں جو اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ معمولی سے اختیار اور اقتدار پر خود خدا بن بیٹھے ۔ وہ اس اختیار کو اللہ کی امانت کی بجائے اپنی ذاتی طاقت سمجھتے رہے ہیں۔ ایسے انسان تاریخ میں کہیں فرعون کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں تو کہیں نمرود، شداد، ہلاکو اور چنگیز خان کے نام سے۔ ایسے انسانوں میں خدا خوفی نام کی کوئی چیز تک نہیں ہوتی۔ ان کی زندگی کا مقصد شاہانہ اور عیاش طرز عمل ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کو پرتعیش بنانے کیلئے انسانوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ ایسے انسان نما بھیڑیے اور درندے بن جاتے ہیں جو انسانوں کی بستیوں کو اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ پاک کا قانون فطرت کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ان کا اپنامن پسند قانون ہوتا ہے۔ وہ جب، جہاں اور جیسے چاہیں اپنی مرضی سے توڑ کر نیا بنالیں۔ ان کا بنایا قانون ایسا شکنجہ ہوتا ہے جو ان کی مرضی سے انسانوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کا مرکز و محور دنیاوی جاہ و جلال ہے۔ یہی انسان نما بھیڑیے خالق کائنات کی بنائی خوبصورت تخلیق انسان پر خوف کی علامت بن کر ان کا سکون برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہم زندگی کے اس منظر نامے پر کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی اختیار یا اقتدار حاصل ہے تو ہم کون سا طرز زندگی اپناتے ہیں۔ یہ معمولی سا اختیار اور اقتدار نہ جانے کب چھن جائے، کہیں ہمیں فرعونیت کی راہ پر تو نہیں چلا رہا۔ کیا ہم اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمت کی پاس داری حقیقی معنوں میں کررہے ہیں ۔ ہم روز مرہ زندگی میں اکثر دیکھتے ہیں کہ اختیار اور اقتدار کی مختلف اقسام سامنے آتی ہیں۔ کسی کو اپنے گھر کے معاملات کا اختیار ہے۔ اگر وہ گھر کی حفاظت کیلئے ہر ممکن انتظامات نہیں کرتا، اس گھر کے باسیوں سے حسن سلوک نہیں کرتا، ہر کسی کو اس کا حق ادا نہیں کرتا، عدل نہیں کرتا، مساوات کے اصولوں پر عمل نہیں کرتا تو ایسا انسان غاصب ہے۔ اسے ہر گز اس منصب پر نہیں رہنا چاہیے۔ اس کی جگہ گھر کے معاملات اس انسان کے اختیار میں دئیے جائیں جو گھر کی حفاظت کرسکے، جو باسیوں کو ان کے حقوق دلا سکے۔ جو عدل وانصاف کی بالا دستی کا عملاً نفاذ کرواسکے۔ جو بلا تفریق مساوات پر نظام کو چلا سکے۔ پورے گھر کے نظام کو فطرت کے مطابق چلانے کیلئے جدوجہد کرنا اس کے باسیوں کا کام ہے۔ اگر ظلم کا نظام چلتا رہے اور اس میں بسنے والے نظام کی اصلاح کیلئے جدوجہد بھی نہ کریں تو وہ گھر تباہی سے ہرگز نہیں بچ سکتا۔ یہی حال پورے ملک اور معاشرے کا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتدار اور اختیار کو اللہ کی امانت سمجھ کر انسانیت کی فلاح بہبود کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جس فرد کو جس قدر بھی اختیار حاصل ہو وہ اس کا ہرگز غلط استعمال نہ کریں بلکہ انسانیت کی فلاح بہبود کیلئے استعمال کریں۔ تمام محکمہ جات میں کسی کو کسی دفتر کے معاملات کا اختیار ہے۔ کہیں کوئی نوکر کا اختیار رکھتا ہے تو کسی کو مالک کا اختیار ہے۔ اگر سب اپنے اختیارات کو خالق کائنات کی متعین کردہ حدود میں رہ کر استعمال کریں ۔ ملک پاکستان کے آئین ساز اداروں پر برسر اقتدار لوگ اللہ کی امانت سمجھ کر قوم کی فلاح بہبود کیلئے کردار ادا کریں۔ ہر شہری اپنی سطح پر جتنا اختیار رکھتا ہے اس کا استعمال اللہ کی امانت سمجھ کر کرے گا تو پاکستان ہر قسم کے مالی اور سیاسی بحران سے نجات حاصل کرکے ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اور بدامنی کا شکار انسان بھی سکھ کا سانس لے کر زندگی گزار سکیں گے۔