آج کے کالمغلام مصطفی

پی سی بی! کوچ کیساتھ سوچ بھی تبدیل کیجئے!

غلام مصطفی

پاکستان کرکٹ ٹیم کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیخلاف جیت کاازم لیکر میدان میں اترنا ہوگا، میدان میں وہی ٹیم فاتح ہوتی ہے جو پروفیشنل کرکٹرز پر مشتمل ہو، اگر پرچی سسٹم اور سفار ش کے تحت کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیاجائیگا تو ان سے جیتنے کی اُمید رکھنا پاگل پن ہی ہوسکتاہے۔پاکستانی کرکٹ میں تسلسل کیساتھ پرفارم کرنے کی شدید کمی ہے، فنٹس مسائل بھی ہیں، دوسری جانب سے بورڈ نئے نوجوان کھلاڑیوں میرٹ پر سلیکٹ نہیں کرتاجس کے باعث میرٹ پرکھیلنے والے کھلاڑی سائیڈ لائن اور مایوس ہوکر کرکٹ ہی چھوڑ دیتے ہیں ایسا کئی کھلاڑیوں کے ساتھ ہوچکاہے اس سلسلے کو بند کرناہوگا، اس سے ملک میں موجود کرکٹ کاٹیلنٹ برباد اور ضائع ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ کئی مایہ ناز بولرز اور بیٹسمین سٹے بازی یا پھر دیگر غیر قانونی غلط کاموں میں ملوث ہوکر پابندیوں کا شکار ہوئے اور پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کرکٹ سے دور چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کے وقار کوبھی نقصان پہنچتا ہے ، حالانکہ ہمارے ملک میں کرکٹ ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ، بات صرف انہیں میرٹ پر موقع دینے کی ہے۔اچھا کھلاڑی کسی بھی صوبے یا شہر سے تعلق رکھتاہو اسے قومی ٹیم میںشامل کرنا چاہیے اور اچھا کھلاڑی ہر جگہ کسی بھی کنڈیشن میں اچھا کھیل سکتاہے۔اگرچہ قومی کرکٹ کی بیٹنگ لائن میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن پھر بھی ٹیم میں میچ ونر بیٹسمینوں کی شدید کمی ہے۔ پہلے قومی ٹیم کی بیٹنگ کی نسبت بائولنگ زیادہ بہتر ہوا کرتی تھی حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ بالنگ کے ساتھ بیٹنگ بہتر کیاجاتاہے لیکن ہم نے بیٹنگ بہتر کرکے بائولنگ خراب کردی اور یہ بات بھی رکھنی چاہیے کہ کرکٹ ایک ایسا گیم ہے جس کے ہرشعبے یعنی(بیٹنگ، بالنگ اور فیلڈنگ) میں مہارت اور پرفارمنس ضروری ہوتی ہے اگران میں سے کوئی بھی شعبہ کمزور ہو تو ٹیم کی جیت مشکل ہوجاتی ہے۔ اس ورلڈ کپ میںاگرچہ بیٹنگ میں کچھ بہتری نظر آئی لیکن فاسٹ اور سپین بولنگ کا شعبہ ہر طرح سے ناکام نظر آیا جس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو اعتماد کی بھی ضرورت ہے اور یہ اعتماد اسی وقت بحال ہوگا جب کوچ ، سلیکٹر اور کپتان میرٹ کے حامل کھلاڑی کے ساتھ کھڑے ہونگے اور اس موقع پر وہ اپنی دوستی، رشتہ داری اور سفارش کو ایک طرف رکھیں گے ،ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو بھی یہ سوچناچاہیے کہ جب آپ کے سامنے کوئی میرٹ اور ٹیلنٹڈ کھلاڑی آجائے تو آپ خود آگے بڑھ کر اسے موقع دیں ، اگرچہ آپ کے پاس کیوں نہ تگڑی سفارش بھی ہوتب بھی آپ ہرحال میں میرٹ کو ہی ترجیحی دیں تاکہ قومی کرکٹ ٹیم صحیح معنوں میں پروفیشنل ٹیم بن سکے۔ جوکچھ ہوچکاہے اس سے سبق حاصل کریں ،حال اور مستقبل کیلئے اچھا سوچنا شروع کردیں۔
اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈحکام کو اپنی سوچ بھی تبدیل کرنا ہوگی کیونکہ ہر بڑے ایونٹ میں شکست کے بعد صرف ٹیم میں تبدیلیاں کرنے سے قومی کرکٹ ٹیم میں بہتری نہیں آسکتی بلکہ اس کیلئے کھلاڑیوں کو اپنی اچھی کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھنا ہوگا۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں ایک سازشی ، غرور و تکبر پر مبنی بھارتی کرکٹ ٹیم کیخلاف شاندار فتح سے ثابت ہوتاہے کہ آسٹریلیا میں نہ صرف تربیت کا مثالی نظام موجودہے بلکہ وہاں اہلیت کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم میں پروفیشنل کرکٹرز نظر آتے ہیں۔دوسری طرف یہ بات بھی نہ صرف افسوسناک ہے کرکٹ کا کھیل پاکستان کا مقبول ترین کھیل مگراس کے باوجود ہمارے کھلاڑی کسی بھی بڑے ایونٹ میں معیاری کھیل کا مظاہرہ نہیں کرپاتے اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کرکٹ کو بھی سیاست کی نذر کرکے اس کھیل کا بھی بیڑا غرق کرکے رکھ دیا گیا، ہمیں کرکٹ کو ذاتی مفادات و ذاتیات کی سیاست سے پاک کرناہوگا اور ہر سطح پر میرٹ و شفافیت کو ترجیح دینا ہوگی اسی صورت میں ہم کرکٹ کو بہتر بناسکتے ہیں اور اسی طرح قومی کرکٹ ٹیم میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی فتح پر جس طرح آسٹریلیا میں خوشی منائی گئی اسی طرح پاکستان میں بھی کر کٹ لورز نے خوشی کا اظہار کیا۔ پاکستانی شائقین کرکٹ کی ہمدردیاں آ سٹریلیا کے ساتھ رہیں۔اگر اس ورلڈ کپ میں کارکردگی کی بات کی جائے تو اس پورے ٹورنامنٹ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی شاندار رہی، بھارت کی فائنل میں ناکامی کی کئی وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ یہ تھی بھارت over confidence کاشکار ہو گیا تھا اور وہ سمجھ رہاتھا کہ آسٹریلیا کو دوبارہ آسانی سے شکست دے دیگالیکن آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم ایک پروفیشنل کرکٹر ز پر مشتمل ہے حالانکہ بھارتی ٹیم بھی فیورٹ تھی اور ایک مکمل ٹیم بھی لیکن پھر بھی ہار گئی۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گھر کے شیر گھر میں ڈھیر ہوگئے۔ اس شکست نے بھارت میں فتح کا جشن ماتم میں بدل دیاتھا جبکہ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم کے نام سے منسوب نریندر مودی سٹیڈیم بھارت کیلئے منحوس ثابت ہوا ظاہر ہے اس سٹیڈیم کانام ہی ایک منحوس شخص پر مبنی تھا تو اس کاانجام بھی یہی ہونا تھا اور اس طرح کرکٹ کی دنیا پر حکمرانی کا بھارتی خواب چکناچور ہوگیا۔
سب جانتے ہیں کہ کرکٹ ورلڈ کپ مقابلے پوری دنیا میں ذوق و شوق سے دیکھے جاتے ہیں جبکہ دنیا بھر کی بہترین کرکٹ ٹیمیں اس ایونٹ میں حصہ لیتی ہیں ،بھارت اور پاکستان میں کرکٹ شائقین کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہاں کے لوگ کرکٹ سے جنون کی حد تک محبت بھی کرتے ہیں اس لئے وہ اپنی ٹیم کی شکست پر دلبرداشتہ اور جذبات بھی ہو جاتے ہیں۔دوسری جانب ورلڈ کپ ختم ہوتے ہی قومی کرکٹ میں تبدیلیو ں کے بعد عمر گل کو قومی کرکٹ ٹیم کا فاسٹ بولنگ کوچ اور سعید اجمل کو سپین بولنگ کوچ مقرر کردیا گیاہے۔ اس وقت قومی ٹیم دورے آسٹریلیا پر ہے۔ دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پوری کرکٹ ٹیم کپتان سمیت تمام کوچز کا بھی امتحان ہوگا، یہ دونوں دورے کسی بھی طرح آسان نہیں ،نئے چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے کہا کہ قومی ٹیم میں پول آف پلیئرز بڑھانا اور بیک اپ تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ٹیم صرف پندرہ کھلاڑیوں پر انحصار نہ کرے۔ محمد عباس نے فرسٹ کلاس سیزن نہیں کھیلا اس لئے انہیں دورہ آسٹریلیا کیلئے سلیکٹ نہیں کیا گیا، چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے دورہ آسٹریلیا کیلئے جو قومی ٹیسٹ سکواڈ تیار کیا ان میں کپتان شان مسعود، بابراعظم، عبداللہ شفیق، امام الحق، حسن علی، فہیم اشرف، ابرار احمد، شاہین آفریدی، عامر جمال، خرم شہزاد، سعود شکیل، سرفراز احمد، میر حمزہ ، محمد رضوان ، وسیم جونیئر ، نعمان علی، صائم ایوب اور سلمان علی آغا شامل ہیں۔ واضح رہے کہ فاسٹ بولر حارث رؤف نے آسٹریلیا کے دورے پر جانے سے انکار کردیا تھا جبکہ نسیم شاہ کے بارے میں بتایاگیاکہ وہ جلد ہی بولنگ کرانا شروع کردیں گے اور محمد حسنین نے ورزش شروع کردی ہے اور وہ بھی جلد ہی پریکٹس کا آغاز کردینگے۔اب دونوں پاکستانی کوچز کواپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں کوچنگ کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی ٹیم کی بولنگ کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہوگی، اگرچہ یہ ایک بھاری ذمے داری ہے ۔ دیکھتے وہ اسے کس طرح اسے پورا کرتے ہیں۔ سعید اجمل کے سپین بولنگ کوچ بننے سے پاکستانی ٹیم میں سپن بولنگ کے معیار میں بہتری آ سکتی ہے ،امید رکھنی چاہیے کہ سعید اجمل کا کریئر اور تجربہ ٹیم میں سپن بولنگ کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔بھارتی ٹیم کے ورلڈ فائنل میں شکست کے بعدبھارتی کرکٹ کیلئے خطرہ گھنٹیاں بجنے لگی ہیں اور بھارت نے 2027 کا آئی سی سی ورلڈکپ فارمیٹ تبدیل کرنے کامطالبہ کیاہے ،بھارتی کرکٹ بورڈ نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) پر دبائو ڈالناشروع کردیاہے کہ وہ 2027 کے ورلڈکپ کو 10 ٹیموں تک محدود کردے۔ جبکہ آئی سی سی 2 سال قبل 2027 کے ورلڈ کپ میں 14 ٹیموں کے ساتھ میگا ایونٹ کروانے کو حتمی شکل بھی دے چکا ہے جبکہ ٹورنامنٹ فارمیٹ کے نشریاتی حقوق بھی فروخت کر دئیے گئے ہیں۔یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم ،اچھی ٹیم ہے تو پھر اسے 10ٹیموں اور14ٹیموں سے کیا خطرہ ہوسکتاہے؟ دنیا میںفٹبال کا ورلڈ کپ بھی ہوتاہے جس میں درجنوں ٹیمیں شامل ہوتی ہیں اس سے پہلے کوالیفائی رائونڈز بھی ہوتے ہیں ۔ اچھی ٹیم کے ساتھ میدان میں اتریں اور اچھا کھیلیں ،فتح ضرورملے گی، اس میں گھبرانے والی تو کو ئی بات نظرنہیں آتی اور فارمیٹ تبدیل کرنے سے کیا ہوگا؟ اگر کسی ٹیم کو کسی ٹیم کا خوف ہے تو وہ ورلڈ کپ نہ کھیلیں۔ توقع ہے کہ 2027 کے ورلڈکپ کے دوران ٹیموں کو 7،7 کے گروپس میں تقسیم کیا جائے گا بعدازاں دونوں گروپس سے 3۔3 ٹیمیں سپر سکس اور پھر سیمی فائنل اور بعدازاں فائنل کیلئے اپنی اپنی راہ ہموار کریں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button