وزیر اعلیٰ پنجاب کا ویژن اور پولیس کلچر
عامر رانا
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی جانے مانے اور دبنگ صحافی ہیں یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں اپنے صحافتی کیریئر میں انکی خدمات کا لوہا پہلے لاہور کے صحافتی حلقوں میں مانا جاتا تھا مگر انہوں نے اپنے میڈیا ہاؤس کے ابتدا میں ہی اپنا شناخت لاہور سے نکل کر پورے پنجاب میں منوائی اور ثابت کر دیا کہ واقعی محسن نقوی پائے کے صحافی ہیں اور انہوں اپنے میڈیا ہاؤس سے عام شہری کی آواز ریاست کے ایوانوں تک ایسے پہنچائی جیسے پہنچانے کا حق ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے محسن نقوی نے اپنے میڈیا ہاؤس کو اپنی شناخت دیکر ریاست کے ایوانوں تک اپنی ذات کی پہچان پیدا کر دی جس کی بنیادی وجہ انکی پالیسی تھی کہ بنیادی حقوق عوام تک پہنچانے کا مقصد اور کرپشن سے پاک پاکستان۔ اسی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے محسن نقوی نے اپنا صحافتی کردار ادا کیا اور اپنے میڈیا ہاؤس کی وساطت سے عوام کی آواز بن کر ریاست کو آئینہ دکھایا جس سے متاثر ہو کر ملک کی سیاسی سماجی اور فلاحی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ جو انسان اپنی پالیسیوں سے عوام میں انتہائی شہرت رکھتا ہو اور وہ ملکی مسائل سمیت اداروں سے عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ بھی دل میں لئے ہو اس سے بہتر ریاستی مسائل کون جانتا ہو گا انہیں اسی بنا پر ہی نگران وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور انہوں نے جس ایمانداری اور تیز رفتاری سے پنجاب کے مسائل حل کرنے شروع کیے ،شاید ہمارے عوامی نمائندے بھی اس بہتری سے اقدامات نہ کر سکیں۔ سید محسن نقوی پر قسمت کی دیوی ایسے مہربان ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سید محسن نقوی ملکی تاریخ کا انتہائی اہم اور یادگاری حصہ بن گئے جو پاکستان کے رہتے وجود تک کا حصہ رہیں گے۔ سب سے لمبی نگران وزارت اور انتہائی با اختیار ہونے کے ساتھ کرپشن سے پاک فلاحی کاموں کے ساتھ قوانین کی پاسداری اور امانتاً ملنے والی وزارت اعلیٰ کے عہدے پر بیٹھ کر کسی لحاظ سے تکبر اور پروٹوکول کے نشے میں نہیں۔ انہیں دیکھ کر بھارت کی ایک مشہور فلم نائیک کی یاد دہانی کرانا چاہوں گا جس میں اداکار انیل کپور بطور صحافی اینکر بنے ہوئے ہیں فلم میں بطور ولن آنے والے مشہور اداکار امریش پوری جو فلم میں بطور کریکٹر وزیر اعلیٰ تھے، سے کرپشن پر سوال کرتے ہیں جس پر امریش پوری جواب دیتے ہیں کہ مائیک پکڑ کر باتیں تو بہت کی جاتی ہیں مگر اصل میں ریاست کا یہ عہدہ کانٹوں کی ایک سیج ہے فلم کے اس سکرپٹ میں امریش پوری انیل کپورکو ایک روز کی وزارت کا منصب دیتے ہیں اور انیل کپور اس منصب کو قبول کرکے ایک دن کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ لے کر جب میدان میں آتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کن کن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
میرا خیال ہے شاید سید محسن نقوی بھی ایسے ہی مسائل کا شکار ہیں کیونکہ سسٹم کے اس کرپشن زدہ اور کھوکھلے نظام نے انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ اب ماضی میں دیکھنے والے بدبو دار سسٹم کو درست کرنے کی کوشش میں سسٹم کا ہی حصہ بن رہے ہیں اور محض فیتہ کاٹنے تک ہی محدود کیے جارہے ہیں حالانکہ شروع میں جو انکی تیز رفتار تھی وہ دھیمی پڑتی جارہی ہے عوام ان سے بڑی توقعات کی منتظر تھی مگر آج بھی نظام اسی ڈگر پر جیسے آج سے پچاس سال پہلے تھا۔ بطور وزیر اعلیٰ انہیں سال ہونے کو ہے انکی عوامی مقبولیت پولیس کے اعلیٰ افسران تک محدود ہو رہی ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی جو اپنے صحافتی کردار میں مظلوم کی آواز تھے وہ آج پنجاب کے سرکاری اداروں میں تعینات چھوٹے اہلکار کی تکلیف پر خاموش ہیں۔ میں پنجاب کے دیگر محکموں کو زیادہ تو نہیں جانتا تاہم میرا واسطہ پنجاب پولیس سے ضرور پڑتا ہے کیونکہ میرا صحافتی کردار پولیس اور پولیس سے واسطہ پڑنے والے لوگوں سے ہوتا ہے میں اسی کی رپورٹ کرتا ہوں محکمہ پولیس کے حوالے سے ایک بات پھر سےضرور کرونگا کہ جتنی پاور فل پولیس اس بار ہے، ماضی میں اتنی پاور فل ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ پہلی بار پنجاب پولیس کے افسران کو بااختیار دیکھا ہے اور اس اختیار کہ بعد پولیس کے اعلیٰ افسران وزیر اعلیٰ سید محسن نقوی کے ساتھ ایک مکمل فیملی کی طرح مل جل کر کام کر رہے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ اس سے قبل پنجاب پولیس دنیا کی سب سے غلیظ اور بدبو دار تھی حالانکہ پنجاب پولیس کے تجربات اس سے قبل بھی ایسے ہی ہوتے تھے مگر اس وقت سیاسی مداری افسران سے مل کر یہی تجربات کرتے تھے پولیس وردی تبدیل کی تبدیلی سے تھانوں کی عمارتوں تک تبدیلی ہمارے پولیس پولیسنگ کا اہم حصہ رہی ہے مگر افسوس ملک کی 76سالہ تاریخ میں ہمارے لئے یہ ایک انتہائی ذلت کا مقام ہے کہ آج کے دن اگر ہمارا ایک باوردی پولیس اہلکار سڑک کنارے لفٹ لینے کیلئے کھڑا ہو تو اسے ایک گھنٹہ لگ جائے کسی کی سواری پر بیٹھنے کیلئے لوگ لفٹ دینے کو تیار نہیں ہوتے ہم تھانوں کو سپیشل انشیٹو پولیس اسٹیشن بنا کر عوام متاثر کرنے کے چکر میں اہلکاروں کو کرپٹ بنا رہے ہیں ہم سکھ غیر ملکی فیملی سے واردات ٹریس کرکے اپنی عوام کی پولیس کارکردگی پر سوالیہ انگلیاں اٹھوا رہے ہیں کہ چند گھنٹوں میں انکے ملزم پکڑ لئے مگر ہمارے دو لاکھ سے زائد مقدمات آج بھی نامعلوم ہیں ہمارا جوان اور تھانیدار آج بھی اپنے شہری کا کیس حل کرنے کیلئے مدعی مقدمہ کی جیب پر نظر رکھ رہا ہے ہمارا ایس ایچ او سپیشل انشیٹو پولیس اسٹیشن کے تحت تھانے کو رنگ وروغن کیلئے مخیر حضرات کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے اور اس کی وجہ پالیسی میکروں کی اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشات ہیں اور وہ سہولیات ہڑپ کی جارہی ہیں۔میری معلومات کے مطابق محکمہ پولیس تفتیشی افسر کو قتل کے مقدمہ کا چالان جمع کرانے تک 50ہزار روپے میسر ہوتے ہیں جو سرکاری کاغذات میں ملتے تو ہیں مگر وہ رقم انویسٹی گیشن آفیسر تک کبھی پہنچتی ہی نہیں اسی ترتیب سے اقدام قتل پر تفتیشی آفیسر کو 20ہزار روپے تک کا خرچہ کرنا پڑتا ہے جو کہ کم ہے ڈکیتی کے ملزم کو چالان کرنے تک بھی 50 ہزار روپے درکار ہوتے ہیں اسی طرح اغوا برائے تاوان اور اغوا کے دوران زیادتی پر تیس سے پچاس ہزار روپے کا ایک تفتیشی کا خرچہ ہوتا ہے ایک منشیات کا نمونہ جمع کرانے سے ملزم کو جیل بھجوانے تک کے اخراجات چالیس ہزار کے قریب ہیں اور چھوٹے جرم الگ سے اخراجات مانگتے ہیں اورپھر چھوٹے جرائم ہوتے بھی بہت زیادہ ہیں رہی سہی کسر سپیشل لاء نے نکال دی بجلی چوری کے مقدمہ سے خطرناک ڈرائیونگ کے مقدمہ میں تھانیدار کو تین ہزار سے پانچ ہزار روپے اپنے ہی محکمہ اور عدالتی عملہ سے سی آر او کرانے پر دینے پڑتے ہیں اور روزانہ ایک تھانیدار چھ سے دس مقدمات جمع کراتا ہے اگر اسے کاسٹ آف انویسٹی گیشن نہیں ملے گی پھر بھلا تھانیدار اور اس کا ہمراہی سپاہی مدعی یا ملزم سے پیسے نہیں نکلوائے گا تو کیا کرے گا پھر آپ چاہے پولیس اسٹیشن تاج محل میں بھی بنا دیں پولیس کلچر کبھی تبدیل نہیں ہوگا ہاں مگر پولیس کی فیس بڑھ جائے گی جو سائل یا ملزم سے وصول ہو گی۔ امید ہے وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس کے چھوٹے ملازم تفتیشی اہلکاروں کے مسائل درست کریں کلچر خود بدل جائے گا۔