آج کے کالمضیاء الحق سرحدی

10دسمبر؍انسانی حقوق کا عالمی دن

ضیا الحق سرحدی

یہ10 دسمبر 1948ء کا دن تھا، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں رکن ممالک نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک قانونی مسودہ تیار کیا جس میں متفقہ طور پر یہ باتیں طے کی گئیں کہ ہر انسان کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہوگا،وہ اپنی مرضی کے مطابق رہن سہن اختیار اور آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکے گا۔ اسی طرح رنگ،نسل اور ذات پات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائے گا۔قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے۔کسی کو بلا وجہ اور ظالمانہ طریقے سے گرفتارنہیں کیا جائے گا ۔عدلیہ اور مقننہ صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں مقدمات چلائیں گی اور کسی بھی ملزم کو اس وقت تک بے قصور خیال کیا جائے گا،جب تک اس پر ٹھوس الزامات ثابت نہیں ہو جاتے۔یہ چند ایک اہم قوانین تشکیل دیے گئے تھے،جسے ایک قانونی مسودے کی شکل دے کر منظور کیا گیا۔مسودے میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی ملک جنرل اسمبلی کارکن ہو یا نہ ہو،ان سب کو کم از کم ان وضع شدہ انسانی حقوق کا تحفظ کرنا لازم ہوگا، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر، فلسطین،شام،افغانستان اور برما سمیت پوری دنیا میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ہر جگہ مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہی اس کی دھجیاں بکھیرنے میں پیش پیش ہیں۔اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے بھارت نے اپنے آئین میں انسانی حقوق کا بڑی اہمیت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے اور اپنے ملک کے عوام کو،چاہے وہ مسلمان ہوں،عیسائی،ہندویا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں،سب کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی،جن کا بین الاقوامی قوانین تقاضا کرتے ہیں۔بھارت میں تیس کروڑ مسلمان ہیں،ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے،وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا،گودھراٹرین اورسمجھوتا ایکسپریس میں معصوم مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔مکہ مسجد ،مالیگاؤں بم دھماکوں،مظفرنگر فسادات اور دیگر دہشت گردی کے واقعات میں ہندوانتہا پسندوںکے ملوث ہونے کے باوجودہزاروں مسلمان ابھی تک ان ناکردہ جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں۔تعلیم میں انہیں سب سے پیچھے رکھا گیا ہے۔بلاوجہ گرفتاریوں کی وجہ سے جیلوں میں ان کی تعداد آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ ہے۔
دفاتر،تعلیمی اداروں،شاہراہوںاور گلی محلوں میں مندر تعمیر کرنے کی توآزادی ہے مگر مسجدوں میں نمازوں کی ادائیگی پر پابندیاں ہیں۔بابری مسجد سمیت سیکڑوںمساجد کو ہندوانتہاپسندوں نے شہید کر دیا۔اسی طرح اگر ہم مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیں،جہاں بھارت نے تقسیم ہندسے ہی غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے تو وہاں بھی صورتحال دل دہلا دینے والی ہے۔انسانی حقوق کا تحفظ تو دُور انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرنا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ پاسپورٹ ضبط کرنا تو دور بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو پاسپورٹ دیا ہی نہیں جاتا۔ ہر گھر پر پہرہ ہے۔ہر گلی کے نکڑ پر بھارتی فوجی یا سی آر پی ایف کا اہلکار کھڑا ہے۔آٹھ لاکھ بھارتی فوج (جس کے متعلق بھارت کہتا ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں امن قائم کرنے کیلئے ہے)سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں مصروف ہے اور نہتے نوجوان کا قتل عام کرتی نظر آتی ہے۔یہی مقبوضہ کشمیر میں آج بھی ہزاروں زیر حراست لاپتا افراد کا کوئی اَتا پتا نہیں۔کشمیریوں کے بھر پور احتجاج کے باوجود ’’افسپا‘‘ابھی تک نافذ العمل ہے۔ایک بار پھر 10دسمبر 2017کو جب پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا تو کشمیر کی صورتحال یہ تھی کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک سیکڑوںکشمیری شہید،بیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔حریت قیادت نظر بند اور ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے۔بھارتی فوج کی طرف سے پیلٹ گن سے چھرے برسانے سے سیکڑوں کشمیریوں کی بینائی چلی گئی۔آٹھ ہزار سے زائد کشمیریوں کی آنکھیں متاثر ہوئیں۔بھارتی فوج کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر قیمتی اشیاء برباد اور چادرچاردیواری کا تقدس پامال کر رہی ہے۔کشمیر میں کئی کئی دن تک کرفیوکی کیفیت رکھی جاتی ہے،جس سے انہیں آئے دن غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لیکن اس کے باوجود مظلوم کشمیری غاصب بھارتی جارحیت کے سامنے سرجھکانے کو تیار نہیں۔وہ ابھی نہیں یا کبھی نہیں کا نعرہ بلند کرتے ہوئے تحریک آزادی میں اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار اور سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے گلی گلی پاکستانی پرچم لہرارہے ہیں۔ایسی صورت حال میں کشمیری قوم سوال کرتی ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی سرکار کی چھتری تلے بڑھتے ہوئے بدترین بھارتی مظالم پر خاموش کیوں ہیں ؟آخران کی زبانیں کیوں گنگ ہیں ؟ آج کشمیری عوام زبان حال سے انسانی حقوق کے عالمی دن منانے والے ملکوں ،عالمی اداروں اور تنظیموں سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے سروں سے انسانیت کو شرمسار کرنے والے ظالمانہ قوانین کی تلوار اتارنے اور بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کوجنت ارضی سے نکالنے میں عملی کردار ادا کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر یہ دن منانے کی ڈرامہ بازی کا سلسلہ ترک کریں اور خدارا ان کے زخموں پر نمک پاشی مت کریں۔
ziaulhaqsarhadi@gmail.com

جواب دیں

Back to top button