آج کے کالمساجدہ صدیق

آہ! بچپن کے دن

ساجدہ صدیق

زندگی بھی کیا چیز ہے؟لمحہ لمحہ ماضی کو جنم دیتی جاتی ہے اور ماضی اس قدر ظالم ہے کہ دل و دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لیتا ۔ اختر انصاری نے کیا خوب کہا۔
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
پروین شاکر نے بھی شاید اسی تناظر میں کہا ہے کہ
عشق نے سیکھ لی ہے وقت کی تقسیم آخر
کہ وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
وقت کا دھارا بھی بہت گہرا اور ظالم ہے جو اس کی رو میں بہہ گیا ۔نکلنا اس کیلئے ناممکن ہے۔یہ تینوں چیزیں مل کا ہجر کو جنم دیتی ہیں اور ہجر کا ناسور تمام حیات ایک حساس انسان کیلئے وبال جان بن جاتا ہے۔ انسان لاکھ چاہے کہ ان یادوں کو کُھرچ دیا جائے مگر ندارد۔بلکہ ان کے ساتھ نبھاہ کرنا پڑتا ہے۔جو کر جاتے ہیں۔حیات ان کیلئے کچھ آسان ہو جاتی ہے جو نبھاہ نہیں کرتے پھر حیات ان کو گزارنا شروع کر دیتی ہے۔
‏اگر آپ نے،کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ہے اور لکڑی کےلٹو ڈور سے چلائے ہوں۔بنٹے کھیلے ہوئے ہیں اور سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ہے۔شب برات پر مصالحہ لگی چچڑ سیمنٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ہے اور دو پیسے کا ٹکہ دیکھا ہو۔ استاد سے سلیٹ اور سلیٹی پر سوال حل کیے ہوں اور ریاض کا مسئلہ اثباتی حل کیا ہوا ہے۔عاد اعظم نکا لے ہوئے ہیں اورپٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں۔سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ہے اور تختی کو گاچی لگائی ہوئی ہے۔گھر سے مکئی کی چھلیاں دانے نکال کربھنائے ہیں اور سکول کی چھٹیوں میں بیل چرائے ہوں ۔غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں اور سہ پہر چار بجے اٹھ کر کتاب کہانیاں پڑھی ہوں ۔
میلے میں کبڈی اور بیلوں کی دوڑ دیکھی ہے اور گراموفون اور ریکارڈ استعمال کئے ہوں۔اپنے ریڈیو کو لکڑی کے باکس میں تالا لگا کر بند کیا ہواہے اور میلے میں تین دن تک سائیکل چلتی دیکھی ہے۔صرف عید میں میلے کی سرکس اور جھولے میں بیٹھے ہوں اور بارات میں پیسے لوٹے ہوئے ہوں۔
کسی دشمن کی دیوار پر کوئلے سے بھڑاس نکا لی ہو اور پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی ہو۔ سرکاری ہسپتال سے اپنی ذاتی بوتل میں کھانسی والی دوائی بھروائی ہو اور سردیوں میں رضائی میں گھس کر پریوں کی کہانیاں سنی ہوں۔سرکٹے انسان کی افواہیں سنی ہوں اور کھڑکھڑاتے ریڈیو پر سیلاب کی تازہ صورتحال سنی ہو۔رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا ہو اور سمیع اللہ کو ہاکی کے میدان میں ریڈیو کے نشریاتی رابطے پر فتح سے ہمکنار ہوتے ہوئے کمنٹری سنی ہو۔
گھر کی مٹی کا لیپ والی چھت پر چارپائی ڈال کر سوئے ہوں اور گرمیوں میں چھت پر چھڑکاؤ کیا ہو۔
جون جولائی کی تپتی دوپہر میں گلی ڈنڈا کھیلا ہو اور پھولوں کی کڑھائی والے تکیے پر سنہرے خواب دیکھے ہوں۔
گھر کے کسی کونے میں خوش آمدید لکھا ہو اور ریڈیو پر غلاف چڑھایا ہے۔لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا ہے اور لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آیا ہے۔ڈھیلی تیلیوں والی ماچس استعمال کی ہے اور تختی کیلئے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک بلیڈ سے کاٹ کر درمیاں میں ایک کٹ لگایا ہے۔ خوشخطی کیلئے مارکر کی نب کاٹی ہے اور ہولڈر استعمال کیا ہے،زیڈ اور جی کی نب خریدی ہے۔فلاوری انگلش لکھی ہے اور گھی کے خالی’’پیپے‘‘اور رسی سے کنویں سے بالٹیاں بھری ہوں۔ سر پر تیل جویں مارنے کیلئے کڑوا تیل لگایا ہو اور سرما لگا کر ہیرو لگنے کی کوشش کی ہے۔غلیل استعمال کی ہو اور پرندوں کے گھونسلے کی تلاشی لی ہو۔ٹچ بٹن والی شرٹ پہنی ہے اور اپنے گھر میں بیری والے درخت پر چڑھ کر بیر توڑےہوں۔آگ جلا کر چھلیاں بھونی ہوںاور لالٹین یا دیے میں مٹی کا تیل جلا کر روشنی کی ہو۔چندہ بیٹری کا سیل توڑ کر اس کا سکہ نکال کر تختی پر لائنیں لگائی ہوں یا بالٹی میں آم ٹھنڈے کر کے کھائے ہیں۔گلابی اوراق والی رف کاپی استعمال کی ہو یا کھلی لائنوں والا دستہ خرید کر اس پر اخبار چڑھایا ہے۔ گوندھے ہوئے آٹے کی چڑی بنائی ہو یا الارم والی گھڑی کے خواب دیکھے ہیں۔ بلی مارکہ اگر بتی خریدی ہو یا مرونڈے کی لذت سے سرشار ہوئے ہیں۔سائیکل کی قینچی چلائی ہو یا والد صاحب کی ٹانگیں دبائی ہیں۔
سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سویٹر پہنا ہے یا امتحانوں کی راتوں میں گیس پیپرز کا استعمال کیا ہو۔
قائد اعظم کے چودہ نکات چھت پر ٹہل ٹہل کر یاد کیے ہوں یا چلوسک ملوسک، عمرو عیار، چھن چھنگلو، کالا گلاب اور عنبر ناگ ماریا کی کہانیاں پڑھی ہیں۔
فرہاد علی تیمور سے متاثر ہو کر موم بتی کو گھور گھور کر ٹیلی پیتھی حاصل کرنے کی کوشش کی ہو یا کاغذ کے اوپر کیل اور لوہ چون رکھ کر نیچے مقناطیس گھمانے کا مزا لیا ہے۔
محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر گڈے لوٹے ہوں یا صبح سویرے لسی اور مکئی کی روٹی مکھن ڈال کر کھائی ہو۔
برفی کا سب سے بڑا ٹکڑا باوجود گھورتی نظروں کے اٹھانے کی جسارت کی ہے یا پھر لاٹری میں کنگھی نکلی ہو۔رات کو آسمان کے تارے گنے ہیں یا سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی ہے۔
زکام کی صورت میں آستینوں سے ناک پونچھی ہو یا ڈیموں(بھڑ) کو دھاگا باندھ کر اڑایا ہوا ہے۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مارا ہویا پھر مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا ہو۔ صبح سویرے لسی رڑکنے کی آواز کے ساتھ چوڑیوں کی چھنکار سنی ہو یا پھر بیلوں کے گلے میں بندھی گانی میں ٹلیوں کو سنا ہے۔بیل کی متھیل میں چھوٹے چھوٹے گھنگرو دیکھے ہیں ۔بیلوں کو پنجالی میں جُتے دیکھا ہے ۔ بیلوں کو ہل چلاتے اور سہاگہ لگاتے دیکھا ہے۔ بیلوں کو رہٹ سے پانی نکالتے دیکھا ہے۔ بیلوں کوخراس پر گندم پیستے دیکھا ہے۔
اگر آپ نے یہ بولیاں سنی،پڑھی یا گائی ہیں۔
میں گج کے بولی چکنی میرے گدا پاوندے پیر۔میں ککلی پاونی ویر وےتیری پگ دی منگ کے خیر۔میں وچ ترنجناں کُوکنا پا سارے جگ نال ویر۔میں چرخے کت کے پونیاں بھراں چھکو شکر دوپہر۔سانوں ہن سمجھاں نیں لگیاںکی ڈھاہیا اسی ایہہ قہر۔ساڈی جبھ تے گلاں مِٹھیاںساڈے اندر بھریا زہر۔اسی اپنی رہتل بھل کےتے آپ کمایا ویر۔اسیں اوبھڑ بولی بولدےتے ماں بولی نال ویر۔اٹھ ماں بولی دیا راکھیاتیری ساہ ساہ منگاں خیر۔ تو اسکا ایک ہی مطلب ہے کہ اب آپ بوڑھے ہو رہے ہیں…کیونکہ یہ ساری چیزیں اس وقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکوں ہوا کرتا تھالوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے۔ لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہيں دھارتی تھی۔رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے تب غریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب ہی غریب تھےاور مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق اس دور سے ہے جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھالیکن سب رابطے میں ہوتے تھے۔ سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ہے کیونکہ سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا۔ میرے بچپن کے دن۔بقول شاعرہ
کوئی تو مُجھ کو میرا بھر پُور سراپا لا دے
میرے بازو میری آنکھیں میرا چہرا لا دے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو صحرا لا دے
کچھ نہیں چاہیے تجھ سے اے میری عمر رواں
میرا بچپن میرے جگنو میری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی تو چہرا تُو میرے شہر میں ایسا لا دے
کشتی جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے

جواب دیں

Back to top button