صرف بیانات سے حالات بدل سکتے ہیں؟

محمد انور گریوال
میں نے بہت غور و خوض کیا، بیان کو دوبارہ پڑھا، مگر میں اِس کی گہرائی تک نہ پہنچ سکا ، اس کا کوئی نتیجہ اخذ نہ کر سکا کہ کوئی مکمل با اختیار شخص کسی کام کے کرنے کی خواہش کرے اور وہ کام ضرورت بھی ہو، تو صاحبِ اختیار کو کرنا چاہیے؟ کیا لچھے دار تقریروں سے تبدیلی آ سکتی ہے؟ کیا اُلجھے ہوئے جملے ادا کرنے سے منزل تک پہنچا جا سکتا ہے؟ کیا تصورات کی گٹھڑیاں کھول کر الفاظ اور ترکیبات اچھالنے سے خوابوں میں رنگ بھرا جا سکتا ہے؟ کیا حکم دیئے اور عمل کئے بغیر محض خطاب فرما دینے سے ہی مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں؟ مجھے تو یہ سب کچھ کارِ لاحاصل معلوم ہوا۔ جس بات کی یہاں تمہید باندھی جارہی ہے، یہ فرموداتِ عالیہ صدرِ پاکستان کے ہیں کہ جن کی آئینی مدت تو کب کی پوری ہو چکی، تاہم قومی خزانے اور آئینِ پاکستان کی نگرانی پر بہرحال مامور ہیں۔ دوسرا ذکرِ خیر اپنے وزیرِ اعظم کا ہے کہ جن کو قسمت اور حالات نے پاکستان کی نگرانی کیلئے عارضی طور پر مقرر کیا ہے۔
لورالائی کے ایک کالج کے طلبا اسلام آباد آئے، شیڈول میں صدرِ مملکت سے ملاقات بھی طے تھی، ظاہر ہے اُن کی زندگی کا یہ یادگار دن تھا۔ صدر نے طلبا کو آئی ٹی میں آگے بڑھنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی انکشاف کیا کہ بلوچستان کے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ سے ہی تیز رفتار ترقی ممکن ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے فروغ سے پاکستان مختصر مدت میں معاشی ترقی کر سکتا ہے۔ انہوں نے طلبا کو کتب بینی اور علم کے حصول پر توجہ دینے کیلئے بھی کہا۔ میں یہ بیان پڑھتے ہی سوچ میں ڈوب گیا کہ صدرِ پاکستان کے پاس اگر کوئی ایسا گُر یا کوئی راز بھی موجود ہے، جس پر عمل کرنے سے بہت مختصر وقت میں ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے، تو گزشتہ پانچ سالوں سے انہوں نے اُسے قوم سے چھپا کر کیوں رکھا؟ کیا صدر کا کوئی ایسا کارنامہ بتایا جا سکتا ہے، جو انہوں نے صدر پاکستان ہونے کی حیثیت سے تعلیم، صحت یا کسی بھی شعبہ میں سرانجام دیا ہو؟ یا صدر پاکستان ہونا ایک آئینی عہدہ ہے، عمل کرنا اُن کے اختیار میں نہیں اور اربوں روپے سالانہ ایوانِ صدر پر اُجاڑ نا ہی اُن کا فرضِ منصبی ہے؟
نگران وزیراعظم نے بھی قوم کو نئی بات بتائی کہ جدید تعلیم ہماری ترجیح ہے، تعلیم یافتہ نوجوان قوم کا مستقبل ہیں، اساتذہ کا تعلیمی نظام میں انتہائی اہم کردار ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت ہیں، ہمیں قوم کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، اساتذہ کے ساتھ والدین پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک جذباتی کام یہ بھی کیا کہ وہ اپنے اساتذہ کا ذکر کرکے آبدیدہ بھی ہوئے۔ پاکستان میں نگران وزیراعظم کا تقرر تو فقط قومی الیکشن کروانا ہوتا ہے، الیکشن بھی ہوتے رہیں گے، ہو ہی جائیں گے، الیکشن کمیشن بھی ہے، نگرانی اور امن و امان وغیرہ کیلئے فوج اور پولیس بھی ہے۔ مگر اِن چار چھ ماہ میں وزیراعظم کیا کریں؟ اُن کے عملے نے مناسب جانا کہ وزیراعظم کو فرصت کے دنوں میں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے، چلیں کچھ تقاریب وغیرہ سے خطاب ہی کروا لئے جائیں، سنا ہے اردو کے ساتھ ساتھ اُن کی انگلش بھی بہت اچھی ہے۔ انہوں نے دوسرا کام یہ کیا کہ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے غیر ممالک کے دورہ جات کو بھی عملی جامہ پہنا دیا، دوبارہ نہ جانے کب موقع ملے، یا کم از کم قومی خزانے سے تو ایسے مزے کم ہی ملا کرتے ہیں۔
یہ کون سا طرزِ تکلم ہے ؟کہ اقدامات کرنا ہوں گے، جدید تعلیم ہماری ترجیح ہے، پاکستان مختصر عرصے میں ترقی کر سکتا ہے، وسائل سے فائدہ اٹھانے کیلئے سرمایہ کاری کرنا ہوگی؟ یہ تمام باتیں کس سے کی جارہی ہیں؟ یہ مطالبات کون پورے کرے گا؟ یہ کام کس کے کرنے کے ہیں؟ کون ان ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ہے؟ اگر حکمران ہی اِس قسم کے مشورہ نما بیانات دیں گے تو مسائل کا حل کون کرے گا۔ سابقہ منتخب حکومتوں کے ادوار میں بھی یہ بات دیکھنے میں آتی رہی ہے کہ خود وزیراعظم یا وزیراعلیٰ یہ بیان جاری کرتے ہیں کہ تھانوں میں رشوت عام ہے ، دفاتر میں افسران وقت پر نہیں آتے ، ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے، سکولوں میں تعلیم کی حالت ناقابلِ بیان ہے، سہولتیں پوری نہیں، اساتذہ پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے۔ ایسی باتیں سُن سُن کر انسان کا دماغ گھومنے لگتا ہے، جس نے اصلاح کرنی ہے وہ شکایت پر آمادہ ہے، جو امن قائم کرنے کا ذمہ دار ہے وہ بدامنی کا رونا رو رہا ہے، جس نے تعلیم کے لئے کاوشیں کرنی ہیں ، وہ تعلیم کے نظام اور حالات پر پریشان اور افسردہ ہے، حکمرانوں کے یہ رویّے کسی بھیانک مذاق سے کم نہیں۔
اگر صدر اور وزیراعظم (وہ منتخب ہوں یا نگران وغیرہ) کے پاس ملک کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی ہے اور وہ تعلیم کو واقعی اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں تو پھر عمل کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟ اس رکاوٹ کو قوم کے سامنے لانے میں کون سی طاقت روکتی ہے؟ یا پھر یہ صرف زبانی دعوے ہیں، کارروائیاں ہیں۔ تقاریب اور تقاریر کے ذریعے ملک چلاکر ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ایک مسئلہ بہت اہم ہے کہ ملکی وسائل کو مراعات اور پروٹوکول وغیرہ کے نام پر ہڑپ اور چٹ کیا جارہا ہے، اِن عیاشیوں کو آئینی تقاضوں، ضرورتوں اور مجبوریوں کا نام دے دیا جاتا ہے۔ تعلیم اور صحت کو ترجیح قرار دینے والے ابھی تک کوئی ٹھوس پالیسی مرتب نہیں کر سکے۔ ہر کہ آمد ، عمارتِ نو ساخت کے مصداق جو آتا ہے، وہ پہلی دیوار کو گرا کر نئی دیوار کھڑی کرتا ہے، یوں گرائو بنائو کے چکر میں ملک ایک کھنڈر کی صورت اختیار کر چکا ہے، البتہ ایک کام بہت ہی نفاست اور تسلسل سے جاری ہے، وہ ہے حکمرانوں کی عیاشیاں اور دولت میں اضافہ۔ گزشتہ تین چار برس سے مہنگائی کو جو پَر لگے ہیں، اور اُس کی اُڑان افلاک تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، اگر کوئی حقیقی معانوں میں دردِ دل رکھنے والا حکمران ہوتا تو وہ پہلے سرکاری اخراجات میں کمی کرتا، مگر عوام کی تمام تر پریشانیوں اور سخت ترین مشکلات کے باوجود کسی حکمران نے اپنی عیاشی میں ایک روپیہ کمی نہیں آنے دی۔ تقاریر البتہ وہی ہیں جو عوام کے دل کی آواز ہیں، اور ستم بالائے ستم یہ کہ انہی رویّوں پر عوام بھی خوش اور مطمئن ہیں۔