صبح کے دس بجتے ہی لاہور ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہر افراتفری شروع ہو جاتی ہے۔ سیکرٹریٹ کے باہر مختلف میڈیا چینلز کے کیمرے لگ جاتے ہیں اور پارکنگ میں ایک چپوترے کے نیچے صحافی حضرات بیٹھے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
مختلف ڈویژن سے ترتیب وار امیدواروں کی آمد کا سلسلہ دن بھر رہتا ہے۔ یہ اُمیدوار ہاتھوں میں کاغذات تھامے اندر داخل ہوتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ کسی کو بھی اجازت نہیں ہوتی۔ امیدواروں کے ساتھ آئے رشتہ داروں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
اتنے میں ن لیگ کے قائد محمد نواز شریف کی گاڑی دفتر کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔ تمام کیمرے دفتر کے مرکزی دروازے کے پاس پہنچا دیے جاتے ہیں۔ کیمرہ پرسنز کی کوشش ہوتی ہے کہ نواز شریف کا ایک مختصر کلپ بنایا جائے لیکن وہ کالے شیشوں والی گاڑی میں سے ہاتھ لہراتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
گزشتہ روز بدھ کو بلوچستان کے مختلف حلقوں میں پارٹی ٹکٹ کے اُمیدوار ماڈل ٹاؤن دفتر کے باہر موجود تھے۔ اس سے قبل پارٹی ٹکٹ کے لیے خیبر پختونخوا اور راولپنڈی ڈویژن سمیت دیگر علاقوں کے امیدواروں کے انتخاب کے لیے انٹرویوز کیے گئے تھے۔
نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور دیگر مرکزی قیادت کے پہنچنے پر تمام اُمیدوار دفتر میں داخل ہوتے ہیں اور پھر انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں ایک بڑا حال انٹرویوز کے لیے مختص کیا گیا ہے جہاں صرف پارلیمانی بورڈ کے ممبران موجود ہوتے ہیں۔ عام طور پر ماڈل ٹاؤن دفتر کے باہر کارکنان کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے لیکن گزشتہ تین دنوں میں کارکنان کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی تاہم اس دوران سینکڑوں کی تعداد میں پارٹی ٹکٹ کے اُمیدوار اپنی گاڑیوں اور پروٹوکول سمیت آئے اور انٹرویوز دے کر چلے گئے۔
پارٹی کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق مسلم لیگ ن کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں بلوچستان سے قومی اسمبلی کے 16 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں کے لیے امیدواروں کے انٹرویو کر کے نام فائنل کر لیے گئے ہیں۔ یہ انٹرویو نواز شریف اور شہباز شریف کی سربراہی میں پارلیمانی بورڈ نے کیے۔
مرکزی پارلیمانی بورڈ کے چوتھے اجلاس میں بلوچستان سے پارٹی ٹکٹ کے لیے کُل 87 امیدواروں کے انٹرویوز کیے گئے۔
بلوچستان پی بی41 سردار سحر گُل خان خلجی قبائلی و سیاسی رہنما ہیں۔ انہوں نے نواز شریف کے حالیہ دورۂ کوئٹہ کے دوران مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس سے قبل وہ پیپلز پارٹی کا حصہ رہے تاہم آج وہ ماڈل ٹاؤن مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں پارٹی ٹکٹ کے لیے انٹرویو دینے آئے تھے۔
سردار سحر گُل خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ بلوچستان میں پارٹی کے صوبائی صدر اور جنرل سیکرٹری نے امیدواروں سے کاغذات جمع کروائے تھے جس کے بعد پارٹی کے مرکزی دفتر سے انٹرویو دینے کا پیغام موصول ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ہمراہ بلوچستان سے صوبائی پارٹی صدر شیخ جعفر مندوخیل، جمال شاہ کاکڑ اور راحیلہ درانی سمیت دیگر قیادت بھی آئی ہے۔
سردار سحر گل خلجی کے مطابق انٹرویوز کے دوران محمد نواز شریف اہلیت جانچنے کے لیے مختلف سوالات کرتے ہیں۔
’دراصل وہ جاننا چاہتے ہیں کہ امیدوار اپنے علاقے میں کتنی جان پہچان رکھتا ہے اور لوگوں کے لیے کتنا کام کر سکتا ہے؟ پارلیمانی بورڈ کے دیگر ممبران دیکھتے ہیں کہ امیدوار مستقبل میں پارٹی کو کتنا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق انٹرویوز کے لیے یونین کونسل کا الیکشن لڑنے والے لوگ بھی آئے تھے۔
’اس لیے وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کونسا امیدوار کتنا مضبوط ہے جس کے لیے مختلف سوال پوچھے جاتے ہیں۔ امیدواروں سے کریمنل ریکارڈ کے بارے میں تخصیص کے ساتھ پوچھا جاتا ہے۔‘
ملک گل رنگ زیب خان حلقہ 253 سے امیدوار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کو مرکزی سیکرٹریٹ سے باقاعدہ ایک پیغام ملا اور دفتر کی جانب سے فون کال کے ذریعے بھی انٹرویو کے لیے دعوت دی گئی۔
امیدواروں کی اہلیت جانچنے کے لیے پوچھے گئے سوالات کے بارے میں انہوں نے بتایا ’زیادہ تر انحصار امیدواروں کے اپنے حلقے میں اثر و رسوخ پر تھا۔ لوگ ہماری شخصیت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں؟ ہماری گزشتہ کارکردگی کتنی متاثر کن رہی ہے؟ لوگوں سے میل جول کتنا ہے؟ سیاست کے علاوہ دیگر کیا سرگرمیاں ہیں؟ یہ سارے سوال پوچھے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق حلقے سے متعلق تمام اعداد و شمار اور حلقے کا خدوخال خاص طور پر بتانا ہوتا ہے۔
’ایک بڑے میز کے ایک طرف محمد نواز شریف اور دیگر رہنماء بیٹھے ہوتے ہیں اور دوسری طرف امیدوار بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ ایک مائیک ترتیب وار آپ کو دیا جاتا ہے۔ امیدوار اپنے حلقے سے متعلق کم سے کم وقت میں پریزینٹیشن دیتے ہیں اور پارلیمانی بورڈ کے ممبران سن کر اپنے پاس نوٹس لیتے ہیں۔‘
خان آف قلات کےصاحبزادے اور سابق وزیر محمکہ مواصلات بلوچستان، پرنس فیصل داؤد بھی انٹرویو کے لیے آئے تھے۔ اُن کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے تھا تاہم آج وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔
ان کے بقول ’آج خواتین کی تعداد کم رہی بلکہ نہ ہونے کی برابر تھی۔ ممکن ہے ہمارے علاقوں سے تین یا چار خواتین جنرل الیکشن میں حصہ لیں لیکن انہیں آج نہیں بلایا گیا تھا شاید کسی دوسرے موقع پر انہیں بلایا جائے۔‘
ان کے مطابق امیدواروں سے زیادہ سوالات نہیں کیے گئے کیونکہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث موقع نہیں ملتا۔
’ہم اپنی تفصیلات ٹکٹ فارم میں درج کر دیتے ہیں لہٰذا یہاں سطحی طور پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہر نوجوان امیدواروں کو بھی دیکھا گیا جو پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے پر امید تھے۔ ان میں ایک ڈاکٹر محمد ایوب بلوچ بھی تھے جو پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور اب تک آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے علاقے میں انتخابی عمل کا حصہ رہے ہیں۔
انہوں نے انٹرویو کے دوران نواز شریف کے جھکاؤ کو باریکی سے محسوس کیا۔ ان کے بقول ’نواز شریف ہر امیدوار کو ذاتی طور پر اتنا نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے آج ہر امیدوار کو بولنے کا موقع دیا تاکہ سب اپنی اہلیت و قابلیت ظاہر کر سکیں۔ نواز شریف پرانے ساتھیوں کو زیادہ بولنے کا موقع دیتے رہے اگر چہ وہ الیکٹ ایبلز نہیں ہیں۔‘
ڈاکٹر ایوب بلوچ کے مطابق بولنے والے لوگ زیادہ ہونے کے باعث پارلیمانی بورڈ کے ممبران اور نواز شریف خود کم ہی سوال کرتے رہے جبکہ امیدوار خود مائیک پر آ کر تفصیل بتا رہے تھے۔