کارپوریٹڈ گلوبلائزیشن اور اجتماعی نفسیات
خیر زمان راشد
کم و بیش دو صدی کا قصہ ہے کہ دنیا شدت پسندی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہے اس کی ایک بڑی وجہ مذہبی شدت پسندی ہے، لیکن اس سے بھی بڑی وجہ صارفیت کا جبر اور کارپوریٹڈ گلوبلائزیشن ہے۔جب یہ گلوبل سمت میں بڑھتی ہے تو اس کی وجہ بے رحم معاشی پالیسیاں تسلط اور وہ خبط عظمت ہے جس کا بڑی طاقتیں شکار ہیں۔ عالمگیریت کی انگلی تھامے یہ رویے عوام سے حکمرانوں اور پھر حکمرانوں سے عوام میں سرایت کرتے چلے جاتے ہیں،یوں ایک بے رحم جدلیاتی دائرہ سا بن جاتا ہے۔جو نفسیات دانوں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بقول ڈاکٹر عشرت وحید یہ نفسیات دانوں کیلئے مبارزت کی صدی ہے۔
اکیسویں صدی سے شروع یہ مبارزت اب تیسرے فیز میں داخل ہے۔ جو بے رحمی سے نوع انسان کو ہڑپ کر رہی ہے۔ اگرچہ انسان نے شکست قبول نہیں کی لیکن وہ نڈھال ضرور ہوا ہے۔ نفسیاتی اور ذہنی عوارض نہ صرف بڑھے ہیں بلکہ وہ رخ بدل کر انسانی نفسیات کو تباہ کر رہے ہیں۔ انسانی مزاج کا تنوع اور حالات کا مقابلہ کرنے کی جبلت رفو ہوتی جا رہی ہے اور ہمت نہیں ہاری، اس کے باوجود یہ تخریب بے رحمی سے جاری ہے۔ نفسیات دان اور اس عالمی لہر سے وابستہ دانشور اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں وہ خود اس لہر کی بے رحمی کا شکار نہ ہوجائیں۔
عالمگیریت کے نام سے جس پس نوآبادیت سے پالا پڑا تھا وہ ہنوز بڑھ رہی ہے۔ جنونی حکمران ٹیکنالوجی اور معاشی تسلط کے ذریعے غریب اقوام اور ان کے وسائل کو ہڑپ کر رہے ہیں۔ ایک دائرے میں یہ جنگ غریب اور امیر ممالک کے درمیان ہے لیکن دوسری طرف خود ان ممالک کے عوام بھی بری طرح ان عوارض اور اس سے پیدا ہونے والے مصائب کا شکار ہیں، نفسیات دانوں کیلئے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ ہر لمحہ شکل بدلتے اور اپنی شدتوں میں ہر سمت سے گھیرتے عوارض سے کیسے نبٹ سکیں گے۔اپنی آزادی کے چھن جانے، وسائل سے محروم ہونے، انسانیت کی تذلیل گماشتہ حکمرانوں کا عیش اور بے رحمی، آرزوؤں کی بے ہنگم ٹریفکنگ،کم اور بے روح ہوتی امیدیں، غریب ممالک میں خوف اور اسلحہ ساز امیر ملکوں کا جنگ کا جنون، معدومیت، بے اعتباری، احساس انسانیت کا فقدان ایسی ہزاروں الجھنیں اور کیفیتیں ہیں جو ایک ہی وقت میں ہر انسان پر طاری ہوتی ہیں اور اس کے عزم شجاعت سکون اور بھرم کو توڑتی چلی جاتی ہیں
ایسے میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں خود نفسیات دان اور حالات کا ادراک کرنے والا فرد اس مائنڈ سیٹ کا شکار نہ ہو جائے۔ آلہ کار نہ بن جائے۔
خبط عظمت اور توسیع پسندی تہذیبوں کی بربادی ہے۔ اس کا اک حد سے بڑھ جانا بھی شدید ذہنی عارضہ ہے۔ امیر اقوام اور امریکہ میں اسی وجہ سے ذہنی امراض جنم لے رہے ہیں۔غلامی اور آقائی جو عوارض پیدا کرتی ہے وہ گلوبل سماج کی وجہ سے بہت بڑھ گئے ہیں۔ بلکہ بہت خوفناک سطح تک پہنچ رہے ہیں۔ کچھ فاشسٹ حکمران اور چین آف کمانڈ سے وابستہ شخصیات اپنے ممالک اور پھر پوری دنیا کے اعصاب کو توڑ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی انسانیت کی فلاح کے بجائے وسائل پر قبضہ کرنے کا ٹول بن گئی ہے، اس تسلط اور توسیع پسندی سے منسلک نفسیاتی عوارض سے عوام اور حکمران الگ الگ انداز سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انسان خبط عظمت شدیداحساس کمتری، خفقانی، بے چینی جنونیت،بیزاری، وحشت اور قاتلانہ نفسیات کا اسیر ہوتا جا رہا ہے۔ عالمگیریت پہلا بڑا عامل ہے۔ جس کی وجہ سے انسان انسانیت سے بچھڑتا جا رہا ہے۔ دنیا ون کلک کے سہارے جی رہی ہے۔ کہیں بھی کوئی آدرش تشکیل پائے یا آئیڈیل صورت گمان میں گزرے اس پر اضافیت حملہ آور ہوجاتی ہے، انسانی ذہن میں ہر لمحہ یاس امید اور پھریاس کے ساتھ عیش اپنی غربت یا اپنی ناقدری کا احساس وارد ہوتا ہے، یہ سب غیر ضروری تیزی سرعت اور تسلسل سے گزرتا ہے۔ جس تحمل سے چیزوں کو انسان نے جذب کرنا ہوتا ہے۔ اس انسانی مزاج کے خلاف سرعت پذیری سے وہ پورا نفسیاتی شیڈول تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ جو انسانی مزاج کے جذب و انجذاب کیلئے لازمی ہوتا ہے۔ انسانیت کو تیزی کے بجائے مناسب رفتار سے آگے بڑھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ تاکہ دھیرے دھیرے وہ تبدیلیوں سے گزرے اور اپنی نفسیات کے جدلیاتی عمل سے ہم آہنگ کرتا چلا جائے۔ عالمگیریت، ذرائع ابلاغ، وسائل پہ قبضہ، مقبوضات کی وسیع رینج یک طاقتی نظام اور تیسری عالمگیر جنگ کا پھیلاؤ وہ بڑی وجوہات ہیں جن کے باعث یہ نفسیاتی عوراض ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کو بیمار کرتے جا رہے ہیں، عمومی نفسیات سے دنیا کے مقتدر ملکوں اور غریبوں ملکوں کے حکمرانوں کا نفسیاتی تجزیہ ایک الگ مطالعے کا تقاضا کرتا ہے، ترقی یافتہ ملکوں کی نفسیات کالونیل ہے، نو کالونیل ازم میڈیا ٹیکنالوجی کے ذریعے نفوذ کر رہا ہے، میڈیا کو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کے مالکان نے پوری طرح خرید لیا ہے، یوں ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران بزنس مین سوشل میڈیا مالکان اور بزنس ٹائیکون ایک پیج پہ ہیں۔ ان کے نزدیک کنزیومر ازم کا فروغ ہی ان کی مصنوعات کی کھپت کا علاج ہے۔ یوں کارپوریٹ کلچر صارفیت کا جبر رائج کر دیتا ہے، اس نفسیات میں بے رحمی سے ہمارے ذائقے ہماری ضروریات اور ہماری ترجیحات متاثر ہوتی ہیں، ہم بہت سی ایسی مصنوعات کے خریدار بنتے ہیں، جن کی ہمیں ضرورت نہیں ہوتی ضرورتیں بڑھنے سے ایک غریب احساس کمتری اور ایک آسودہ حال شدید ناآسودگی کا شکارہوجاتا ہے۔ اس کی بے قراری اس کی شخصیت کے ذریعے اس کے خاندان اور پھر سماج پر حملہ آور ہوتی ہے، قتل جنون پاگل پن ذہنی و جسمانی عوارض شیزوفرینک آئیڈل ازم، شکست اور غربت کا خوف اپنی بے حثیتی اور اپنی حثیت کا خبط ہر صورت ایک منفی لائن اور گراف کی سمت چلی جاتی ہے۔ غریب ملکوں کی معاشی بدحالی ان معاشروں میں ذرا بھی استحکام نہیں رہنے دیتی، ان کے مغرب زدہ حکمران ان معاشروں کے بینیفشری ہونے کے باوجود کبھی کبھی چیخ اٹھتے ہیں، سنجیدہ پلان یا ویژن نہ ہونے کی وجہ سے ایک مضبوط بیانیہ تشکیل نہیں پاتا۔اور معاشی یا خفیہ دہشت گرد کہانی میں وہ موڑ لے آتے ہیں کہ بڑی مدت تک پتہ نہیں چلتا کہ ہوا کیا تھا۔
وہ نفسیات جو اس صورتحال میں عام انسان کی بنتی ہے لیکن دوسری سمت مقتدر طاقتوں کی نفسیات پہ منفی سمت میں ڈھیر ہو رہی ہوتی ہے۔ خبط عظمت کے مقابلے میں احساس کمتری یا اپنی غلامی اور استحصال پہ ڈپریس کیفیت الجھے اور پیچیدگی کی سمت بڑھتے رویے دیکھے گئے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک میں بہت سے حکمران اس نفسیات کا شکار ہوئے۔ بعض ممالک میں بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنا عوامی بیانیہ بھی بنا کچھ حکمرانوں نے اسے اپنی شہرت کا ٹول بھی بنایا اور کچھ حقیقت میں ڈٹ بھی گئے۔ یہاں مقابلے میں کھڑے ہونے کیلئے صرف ڈٹ جانا کافی نہیں تھا۔ بے رحم تسلط اور ڈھٹائی کی حد کو پہنچے استحصالی معاشی رویوں اور فیصلوں کو پہلی دفعہ شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو نے چیلنج کیا۔جمال عبدلناصر، صدام حسین اور معمر قذافی بھی اسی صف میں آتے ہیں، ان میں بھٹو واحد ایسے حکمران تھے جو ایک جمہوری سفر کے ذریعے اور عوامی طاقت کے بل پہ یہ چیلنج کر رہے تھے۔ بہت حد تک اس غلامی کا احساس بھی رکھتے تھے، یہاں آکر ایک بد نصیبی یا نفسیاتی اڑچن ان شخصیات کو دبوچ لیتی ہے،وہ خود پسندی نرگسیت اور شیزوفرینک آئیڈل ازم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عوامی سطح پہ پذیرائی اور کسی بڑی طاقت کو للکارنے کی کامیابی کو وہ اپنی عوام یا اپنے ملک میں اپنی عوام پر آزمانے لگتے ہیں، یوں فاشسٹ رویوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں، ان کے بہت سے فیصلے طرز حکمرانی اور رویے اس نفسیات کا عکس ہوتے ہیں، مذہب کارڈ جذباتیت اور اور مخالفین کو کچلنے یا ملک و قوم دشمن قرار دینے کی روش۔ یہ ریاستی ضرورتوں سے ہٹ کر ہے، ایک طرح کا یہ بھی خبط عظمت ہے۔ لیکن اپنی عوام کے خلاف، اکثر ان شخصیات کی شہرت ان رویوں سے داغ دار ہے، صدام، کرنل ناصر، معمر قذافی اور ایسے ہی بھٹو کا آمرانہ انداز اسی نفسیات کا عکس ہے۔
امریکہ یا بڑی ریاستیں جس بے رحم سرد مزاجی کے ساتھ ظالمانہ فیصلے کرتی ہیں۔ ایسے ہی مقابلے پہ آنے والوں نے بہت سے فیصلے غیر ضروری گرم مزاجی کے ساتھ کئے اور بغیر کسی بڑی کامیابی کے راستے سے ہٹا دیئے گئے۔ جہاں تیسری دنیا کے حکمرانی کی ایک اور خامی سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے عروج کے دور میں اپنی بہت سی خامیوں کا ادراک نہیں کر پاتے۔ جو ایک نفسیاتی عارضہ بن کر ان کی شخصیت کو متاثر کر رہا ہوتا ہے۔ ایک پر عزم پر اعتماد شخص کا غرور اسے فرسٹریشن سے بچاتا ہے، اس کیفیت میں وہ کم از کم اپنے قومی مفاد کیلئے کسی اور قوم کے استحصال کے فیصلے کرتا ہے چائنہ، روس، امریکہ ان استعماری رویوں کی زندہ مثال ہیں۔ جہاں وہ بڑے تدبر سے اپنے مقاصد کیلئے ہر سفاکی ہر بدمعاشی کر رہے ہوتے ہیں، لیکن عالمی یا عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے بڑی حکمت سے راستہ نکال لیتے ہیں، لیکن ان کے سامراجی عزائم کا سفر رکتا نہیں ان کے مقابلے میں تیسری دنیا کے فرسٹریشن
اور فاشسٹ رویوں کے مالک حکمران ہیں، جو اپنے ویژن کیلئے فکری اور شعوری بنیاد کے بجائے جذباتی فضا کو کافی سمجھتے ہیں، مخالفین کو کچلنے، باہمی الزام تراشی اور دھمکیوں سے استعمار کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کیلئے قومی غیرت کے ساتھ مذہب کو بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں، یوں ان کا انجام اور اس نسبت سے اس قوم کی آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔
بعض لوگ ایسے حکمرانوں کو منافق کہتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کرپشن عیاشی اور عوامی عالمی سامراج کے مزاج سے ناآشنائی انہیں ناکام کر دیتی ہے۔ یہ ناکامی اشرافیہ کے مزاج میں بزدلی، سودا بازی، سہل کوشی اور عیاشی کے عارضے پیدا کر دیتی ہے۔ ایسا ہی مزاج اس عوام کا ہو جاتا ہے،اور اکثر عوام اور حکمران دو مختلف دھاروں میں شدید تقسیم کے ساتھ دنیا کے نقشے پہ اپنے نفسیاتی عوارض کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، تسلط اور غلامی کی نفسیات ایک مقامی مسئلہ ہے، اس وقت انسانی نفسیات کا بڑا چیلنج نئے نو آبادیاتی نظام کی بے رحمی ہے، جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے، جو میڈیا کی طاقت کے ساتھ انتہائی مہارت سے نوع انسان کے خلاف سرگرم عمل ہے، اس میں صارفین میں مصنوعی طلب پیدا کرنا نقصان دہ کیمیکل کا استعمال، عورتوں کا اشتہاری صنعت میں بے شرمی اور بے رحمی کی حد تک شامل کر لینا، غریب ممالک میں طلب بڑھانے کے ساتھ سستے عیش کی فراہمی کہیں کسی قوم میں بیداری کی لہر کو دیکھتے ہوئے سیاسی اور معاشی جبر۔ ایسے ہی ہزاروں حیلے ہیں۔
اب سوشل میڈیا کے ذریعے اشیا کی طلب نے جو بے ہنگم آرزو مندی ابھاری جا رہی ہے۔ ڈپریشن کے ساتھ ڈاکہ زنی، خود کشی اور اپنے بچوں تک کو کھا جانے والی فطرت پیدا کردی ہے، یہ سب نفسیاتی مسائل ہر سماج اور غریب ممالک کے معاشروں کا بڑا مسئلہ ہیں، عالمی سطح پہ مطالعات کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ لیکن مقامی سطح پہ یہ سٹڈیز نہ ہونے کے برابر ہیں، حالانکہ گلوبل ویلج اور عالمگیر معاشی تسلط ہمیں ہر لمحہء زندگی میں توڑ رہا ہوتا ہے۔ اور ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے کے بعد باہر سے بھی چاٹ رہا ہے۔
مسلمان ممالک اپنے کمزور سیاسی اور معاشی ڈھانچے کی وجہ سے ان عوارض اور ان کے وسیع اثرات کی رینج میں ہیں۔ جس پہ عمرانی علوم کے ماہرین اور نفسیات دانوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ لیکن انسانی نفسیات جس نے سب عالمی سطح کی توڑ پھوڑ شروع کردی ہے۔ وہ اپنے معالجین کو بھی اپنے دام تزویر میں لینے لگی ہے، لیکن یہ ایک الارمنگ صورت حال ہے کہ سماجی اور شخصی نفسیات والے خود بھی اس عصری حساسیت کا شکار ہونے لگے ہیں۔