آج کے کالمایم یوسف بھٹی

اینٹینگلمنٹ اور زمینی حرکت

ایم یوسف بھٹی

حضرت امام شافعیؒکا ایک خوبصورت قول ہے کہ: مجھے اپنی بات کے صحیح ہونے پر اطمینان ہے مگر میں اس کے غلط ہونے کے امکان کو مانتا ہوں۔ دین اسلام کے آخری الہامی مذہب اور محمد الرسول اللہﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی وجہ سے قرآنی تعلیمات اور آیات کی آفاقی اور عالمگیر علمی حیثیت مسلمہ و مصدقہ ہے۔ قرآن کا یہ اصولی معیار برقرار رکھنے کیلئے یہ پابندی اپنانا از حد ضروری ہے کہ قرآن کا کوئی بڑے سے بڑا مفسر بھی اپنی رائے کو حتمی قرار نہ دے۔
قرآن واضح طور پر اپنی آیات کو ’’انفس و آفاق‘‘سے تعبیر کرتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی آیات میں وہ مطالب و مفاہیم موجود ہیں جن کی روشنی میں انسانی ایجادات اور دریافتوں سے آنے والے ہر دور میں اللہ کی نشانیاں دریافت ہوتی رہیں گی۔لہٰذا قرآن کی تفہیم و تشریع کرتے وقت اگر اس بنیادی اصول اور معیار کو مدنظر رکھا جائے تو قرآنی تعلیمات سائنس یا کسی بھی جدید سے جدید ترین علم سے کبھی متصادم نظر نہیں آئیں گی۔ قرآن کے کچھ مفسرین آیات کی تفسیر کرتے وقت اپنی رائے کو حتمی سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اول اسلام میں مسالک اور فرقوں کا در کھلتا ہے جو قرآن کے اس حکم سے متصادم ہے کہ:اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقوں میں نہ پڑو۔ دوم اس فقہی غلطی کی وجہ سے قرآن اور سائنس قارئین کو بعض مقامات پر ایک دوسرے کے متوازی نظر آتے ہیں۔ سوم اس سے جو سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کو بطور علم سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے حالانکہ نبی آخرالزماں ﷺپر نزول قرآن کی یہ لامحدود فصاحت و بلاغت محمد الرسول اللہ ﷺکی ذات اقدس کا سب سے بڑا الہامی معجزہ ہے۔
اگر ہم قرآن کو کسی بھی عہد کے نئے ذہنی یا سائنسی علم کے اعتبار سے سمجھیں گے تو جہاں اسرار قرآن اور انکی اصل پوٹینشل نمایاں ہو گی وہاں قرآن کی اجتماعی فکر بھی آسانی سے سمجھ آئے گی۔ دراصل قرآن اپنے اسی متنوع علمی حسن کی وجہ سے ’’فرقان حمید‘‘ اور’’الکتاب‘‘ کہلاتا ہے کہ قرآن کی آیات سے ہر قاری اپنی علمی استعداد، نظریاتی فہم اور سوچ و فکر کے مطابق انفرادی اور اجتماعی معانی و مفاہیم تو کشید کرسکتا ہے مگر کوءی بھی عالم فاضل اپنی تفسیری کاوش کو حتمی قرار نہیں دے سکتا اور اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ قرآن کی عالمگیر معنویت و مقصدیت کے منافی قدم اٹھاتا ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی نے 1920 میں ’’زمین ساکن ہے‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور اپنے دیگر تحقیقی مقالہ جات مثلاٰفیضان مبین وغیرہ میں انہوں نے قرآن اور سائنس کے 105 دلائل دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی سعی کی کہ دیگر اجرام فلکی مثلا سورج اور چاند کے برعکس زمین ساکن (stationery) اور چپٹی (flat) یے اور یہ کسی قسم کی حرکت نہیں کرتی۔
اعلیٰ حضرت الشیخ مولانا امام رضا خان بریلویؒ کی اسلامی خدمات میں قرآن کو جدید سائنسی علوم میں سمجھنے کی یہ بہت خوبصورت کوشش تھی مگر بعد میں آنے والے مفسرین نے اس کام کو آگے بڑھانے کی جدوجہد نہ کی۔ اس سے قبل بائبل کے حوالوں سے عیسائی پادریوں نے زمین کو ساکن اور کائنات کا مرکز ثابت کرنے کی کوشش کی تھی جن کو گلیلیو گلیلی، کیپلر، کوپرنکس، نیوٹن اور البرٹ آئن سٹائن جیسے عظیم سائنس دانوں کے زمین کی حرکت کے بارے میں سائنسی نظریات سے اختلاف تھا۔ عیسائی علماء نے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے بائبل سے استدلال کیا۔مولانا احمد رضا خان نے قرآن کی سورۃ فاطر کی آیت 41 کو بنیاد بنا کر دلائل دیئے جس کا ترجمہ ہے کہ:بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ حرکت نہ کریں اور قسم ہے کہ اگر وہ ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا نہیں کوئی جو روک سکے گا۔ بے شک وہ علم والا، بخشنے والا ہے۔ مولانا نے اس آیت میں ’’یمسک‘‘ کا ترجمہ ’’روکے ہوئے، تھام رکھا‘‘ یا ’’ساکن ہے‘‘ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کے مطابق زمین کسی قسم کی گردش یا حرکت نہیں کرتی ہے حالانکہ یہاں ’’یمسک‘‘ روکے ہوئے اور ’’حرکت نہ کریں‘‘ سے مراد توازن یا بیلنس اور Equilibrium ہے کیونکہ اسی آیت میں آگے یہ کہا گیا ہے کہ:وہ ہٹ جائیں۔ یعنی اگر یہ توازن ٹوٹ جائے تو اسے اللہ کے سوا دوبارہ کوءی واپس نہیں لا سکتا۔ اس آیت کے آخر میں اللہ نے اس آیت کا درست مفہوم نہ سمجھ سکنے والوں کیلئے معافی کا اعلان بھی فرما دیا جب فرمایا:وہ (سب سے بڑا) علم والا، بخشنے والا ہے۔
اس کے علاوہ’’یمسک‘‘ کا صحیح مفہوم قرآن کی سورۃ الملک کی آیت 19 میں مزید واضح ہو جاتا ہے جس کا ترجمہ ہے:کیا تم لوگوں نے اپنے سروں کے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا جو پر پھیلاتے ہیں اور سمیٹتے ہیں، ان کو نہیں تھام رکھا مگر رحمان نے۔ اس آیت کے دوسرے حصے میں’’یمسک‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی یہاں’’تھام رکھا‘‘کا درست ترجمہ بھی توازن ہے کیونکہ پرندے اسی’’یمسک‘‘ توازن کی وجہ سے ہوا میں حرکت کرتے ہیں، بعض پرندے تو ’’یمسک‘‘ یعنی اپنے پروں اور جسم کے بیلنس کی وجہ سے پروں کو ہلائے بغیر بھی ہوا میں تیرتے رہتے ہیں۔
مزید برآں مولانا احمد رضا خان نے زمین کے ساکن ہونے کے بارے سورۃ بقرہ کی آیت 22 سے استدلال کیا جس کا ترجمہ ہے:اللہ وہ ہستی ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا ہے‘‘ یعنی مولانا نے قرآن کے لفظ ’’فراشا‘‘کا ترجمہ بھی زمین کے’’غیر متحرک‘‘ ہونے سے کیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا نے قرآن کے الفاظ’’قرار‘‘، ’’مہدا‘‘ وغیرہ کے تراجم بھی ساکن ہونے کے معنوں میں کئے حالانکہ قرآن کی سورۃ انبیاء کی آیت 13 کا مفہوم ہے کہ:ہر چیز اپنے اپنے مدار میں تیر رہی ہے۔ جبکہ دوسرے کیء مقامات مثلاً سورۃ 36 کی آیت 40 کا خلاصہ ہے کہ:سورج کو اجازت نہیں کہ وہ چاند کو عبور کرے اور نہ رات کو اجازت ہے کہ وہ دن کو عبور کرے۔ جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کائنات اور اس نظام شمسی اور ان کے تمام ستارے اور سیارے وغیرہ اپنے اپنے مداروں میں مسلسل حرکت کر رہے ہیں جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے۔ حتی کہ سورۃ یاسین میں کائنات کی ہر چیز کی حرکت کی اہمیت کوبالخصوص واضح کیا گیا ہے جس کے بغیر نظام فطرت اور زندگی کا تصور کرنا ہی ناممکن ہے۔ پوری کائنات اور اس کی ہر چیز حرکت میں ہے جس کا مشاہدہ دنیا کا ہر انسان ننگی آنکھ اور سائنسی آلات سے بآسانی کر سکتا ہے۔ حتی کہ زمین کی حرکت کو اب میزائلوں پر لگے کیمروں اور سیٹلائٹ کے زریعے ٹی وی سکرین پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
زمین پر ہر سیکنڈ میں دو اور ہر سال کئی ملین زلزلے آتے ہیں جن کا تعداد کم ہونے کی وجہ سے ان میں سے زیادہ زلزلوں کو ہم محسوس ہی نہیں کرتے۔ جدید سائنس دانوں نے ایٹم کے داخلی زرات پربہت زیادہ تحقیق کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایٹم کے اندر پروٹان اور نیوٹران ہیں جن کے گرد الیکٹران ہر لمحے اپنے مدار میں گھومتے رہتے ہیں۔ سائنس کی جدید ترین شاخ کوانٹم مکینکس توحرکت ہی کو زندگی قرار دیتی ہے جس میں روشنی کی ماہیت، حرکت، خواص

(properties) اور روشنی کی بنیادی امواج (waves) اور زرات (atoms) پر بحث کی جاتی ہے۔ روشنی فوٹانز photons کے پیکٹس packets کی شکل میں سفر کرتی ہے جس کی رفتار 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ بتاءی جاتی ہے۔ روشنی کے یہ پیکٹس لہر اور زرے دونوں کی خصوصیات کا اظہار کرتے ہیں جو اپنے سفر کے دوران دہرے رویئے کا اظہار کرتے ہیں۔بالخصوص کوانٹم فزکس کا ایک موضوع کوانٹم اینٹینگلمنٹ Entanglement کہلاتا ہے۔ یہ کوانٹم فزکس کا ایسا فینومینا ہے کہ جب ہم کوئی دو اٹامک پارٹیکلز کو ایک دوسرے کے قریب لائیں یہاں تک کہ وہ اپنی کوانٹم پراپرٹی ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ لیں یا ایک جیسی بنا لیں تو اس صورت میں ہم دونوں پارٹیکلز کو چاہے ایک دوسرے سے جتنی بھی دوری پر لے جائیں اگر ایک پارٹیکل میں کوئی تبدیلی ہو گی تو وہی تبدیلی دوسرے پارٹیکل میں واقع ہو گی یعنی کہ دور رہنے پر بھی ان دونوں کے درمیان کوانٹم تعلق برقرار رہے گا اور کوئی بھی چیز ہم ایک پارٹیکل سے دوسرے پارٹیکل کی طرف بھیجیں گے تو وہ بنا سفر طے کئے پہنچ جائے گی۔
ہر پارٹیکل اپنے محور کے گرد دو طرح کی حرکت کرتا ہے۔ ایک حرکت کو ہم کلاک وائز Clockwise اور دوسری حرکت کو ہم Anticlockwise کہتے ہیں جسے اپ سپن Upspin اور ڈاؤن سپن Downspin بھی کہا جاتا ہے یعنی کہ کائنات میں موجود کوئی بھی پارٹیکل یا تو کلاک وائز حرکت کریگا یا پھر وہ اینٹی کلاک وائز حرکت کرے گا۔ اس کوانٹم انٹینگلمنٹ کے دوران دونوں پارٹیکل کی ڈائریکشن، اسپن اور سپیڈ ایک جیسی رہے گی۔ فرض کریں ہم ایک پارٹیکل کو زمین اور دوسرے کو مریخ پر لے جاتے ہیں تو اگر ہم زمین والے پارٹیکل کو اپ کرینگے تو مریخ والا پارٹیکل ڈاؤن ہو جائے گا یعنی کہ ان کے درمیان جو کوانٹم پراپرٹی ہے وہ برقرار رہے گی۔
اس دوران کوئی بھی انفارمیشن بنا وقت لئے ایک پارٹیکل سے دوسرے پارٹیکل کی طرف منتقل ہو جائے گی اور اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے کئی گناہ زیادہ ہو گی۔ حرکت کے بارے میں اس مختصراً تعارف سے دینی و سائنسی طور پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ زمین ساکن نہیں ہے، نہ صرف زمین گردش کرتی ہے بلکہ کائنات کی تمام کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں سے لے کر ایٹمی زرات تک کائنات کی ہر چیز تواتر سے حرکت کرتی ہے۔
کائنات اور چیزوں کی حرکت کی بھی کئی اقسام ہیں جس میں کہکشاؤں اور ستاروں کا ایک دوسرے سے دور بھاگنا، چھوٹے اور بڑے ستاروں کا اپنے محور اور ایک دوسرے کے گرد گھومنا، سب اٹامک اور کوانٹم حرکات، پرندوں کا اڑنا، فضا میں گیسوں کا تیرنا، کرکٹ کے بال کا گھومنا یا spin کرنا، ہاتھ میں پکڑی بالٹی میں پانی کا دائرے میں گھومنا، موت کے کنوئیں میں چلتے ہوئے موٹرسائیکل کا گھومنا، ریل گاڑی کا تیز دوڑنا اور اس کے اندر بیٹھے مسافروں وغیرہ کا گاڑی کے ساتھ حرکت کرنا شامل ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ خود ‘حرکت کیا ہے؟ اس سوال کو فلسفے یا زہنی علوم کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں تو دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حرکت کے سائنسی قوانین کو رد کر کے ہم زمین جو کائنات کے ایک جز پرزے کے طور پر مسلسل حرکت کر رہی ہے کو ساکن سمجھیں تو کائنات کی کسی مادی چیز کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا ہی ناممکن ہے۔
مغربی سائنس دانوں خاص طور پر گیلیلیو نے زمین کے کائنات کا مرکز نہ ہونے اور اس کی حرکت کے بارے دعویٰ کرنے پر چرچ سے جو سزا پائی چرچ نے 350 سال بعد 1992ء میں یہ کہتے ہوئے معافی مانگی کہ گیلیلیو سچا تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور نہ ہی یہ ساکن ہے۔ٹیلی سکوپ کی ایجاد کے بعد اب نہ صرف زمین کی گردش بلکہ نوری سالوں کی دوری پر موجود ستاروں کی حرکات کا مشاہدہ بھی کیا جا رہا ہے۔زمین کی گردش اور اس کے گول ہونے کا سب سے پہلے دعویٰ یونانی حکماء نے کیا جس کے بعد مسلم سائنس دان البیرونی نے عثمانیہ عہد خلافت میں زمین کی پیمائش کا پیمانہ دریافت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ زمین چپٹی یا فلیٹ flat نہیں بلکہ گول spherical ہے اور سورج کے گرد گردش کرتی ہے، البیرونی نے محض ریاضی اور الجبرے کی مدد سے زمین کی اتنی درست پیمائش کی جو آج کی سائنسی پیمائش سے صرف 2 فیصد کے فرق پر ہے۔
یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ آج بھی کچھ مسلمان بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ‘زمین کائنات کا مرکز ہے، یہ ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔قرآن کی علمی اہمیت پر سائنسی تحقیق کر کے اس سے کائنات کے راز دریافت کرنے کی بجائے اسے عقائد گھڑنے کیلئے استعمال کیا جانا افسوسناک اور جہالت ہی نہیں بلکہ گمراہی بھی ہے۔ موسموں کی تبدیلی، چاند اور سورج گرہن کی پیش گوئی سے لے کر فضا میں سیٹلائٹ چھوڑنے اور ٹی وی، موبائل فونز، جہازوں کی پروازیں اور تمام الیکٹرونک آلات وغیرہ کی ایجادات زمین کی گردش معلوم کرنے کے بعد ممکن ہوئی ہیں۔ سچی بات ہے مسلم امہ کو جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ کھڑا ہونے کیلئے قرآن کے مادی پہلوئوں کو سائنس کی زبان میں سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قرآن حکیم سے تحریک لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ممکن بنایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button