آج کے کالمعبدالرزاق باجوہ

نوجوان اور پاکستان کا مستقبل

عبدالرزاق باجوہ

اکثر والدین اور اساتذہ کو یہ گلہ کرتے سناہے کہ نوجوان بات نہیں مانتے، نوجوان بدتمیز ہوگئے ہیں۔ ذرا غور کریں تو اس سوال کے جواب میں یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ نوجوانوں نے یہ سب طور طریقے کہاں سے سیکھے ہیں؟ جس کا واضح جواب ہے کہ انہوں یہ سب کچھ گھر سے، معاشرے سے، سکول، کالج،یونیورسٹی یا مدرسہ سے سیکھا ہے۔ اگر اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو آج کے نوجوان جو پاکستان کا مستقبل ہیں، پاکستان کی بھاگ ڈور کیسے سنبھالیں گے؟ آج جیسے نوجوان ہوں گے مستقبل مین ویسا ہی پاکستان ہوگا۔ نوجوانوں کی اصلاح والدین، اساتذہ اور سوسائٹی کا فرض ہے۔
تعلیمی اداروں اور اکیڈمی آتے جاتے بچوں اور جوانوں کو دیکھ کر عجیب منظر سامنے آتا ہے۔ کتابوں کا بستہ اٹھانے کے لئے یا تو نوکر ساتھ ساتھ ہوتے ہیں یا پھر ماں باپ نے کندھے پر اٹھا رکھا ہوتا ہے۔ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو تکلیف نہ ہو۔ جس کے نتیجے میں بچے اس عادت کو اپنا لیتے ہیں اور اپنا سامان اٹھانا معیوب سمجھتے ہیں۔ زندگی بھر دوسروں کے لئے مددگار ہونے کی بجائے خود ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔ معاشرے میں اکثر جو لڑکے لڑکیاں جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے ہوتے ہیں، صحت قابل رشک، مگر گھر میں ایسے رہتے ہیں جیسے خدانخواستہ خصوصی افراد ہوں۔ صبح اٹھیں گے، بستر ویسے ہی بے ترتیب چھوڑ دیں گے، ماں آ کر یہ درست کر دے گی۔ کپڑے تبدیل کریں گے، جہاں اتارے وہیں یا کسی کونے کُھدرے میں رکھ چھوڑیں گے۔ ماں آئے گی، اٹھائے گی، دھوئے گی، استری کرے گی اور واپس ترتیب کے ساتھ ان کی الماری میں رکھ دے گی۔ نوجوانوں کو کھانا تیار ملنا چاہیے۔ کھانے سے پہلے یا کھانا کھا چکنے کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، اپنی ہی استعمال شدہ پلیٹیں اٹھانا یا گلاس صاف کرنا تو کوسوں دور کی بات ہے واپس کچن میں رکھ دینا بھی محال سمجھتے ہیں۔ ماں آئے گی اور یہ سارے کام کرے گی۔
نوجوان سکول، کالج یا یونیورسٹی جائیں گے،جب واپس لوٹیں گے تو سونے کے لئے، سنیپ چیٹ، واٹس اپ یا ٹک ٹاک پر وقتی مزے کے لئے، ٹویٹر، انسٹاگرام پر وقت گزاری کے لئے یا پھر اپنے پسندیدہ سیریل ڈرامے دیکھنے کے لئے کھانا وہیں بیٹھے بیٹھے منگوا لیں گے۔ فقط لقمے کے لئے ہاتھ بڑھانا یا اسے نگلنا بھی ان کے لئے ایک بڑا کام ہوتا ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں ٹی وی یا لیپ ٹاپ یا آئی پیڈ پر دوبارہ معرکہ آرائی کے لئے واپس جانا ہے۔ کبھی کبھار تو یہ اپنے فارغ وقت میں گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھنے کی مہربانی بھی کر لیتے ہیں، مگر کیا مجال ہے کہ اس دوران میں یہ اپنے موبائل کی سکرین سے نظریں ہٹا لیں۔
چونکہ یہ نوجوان سوشل میڈیا پر اپنے اُن پیاروں کے نزدیک رہنا چاہتے ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کوئی کمنٹ کیا ہے، قیمتی سٹیٹس اپلوڈ کیا ہے یا کوئی تصویر بھیجی ہے اس لئے فوراً کمنٹ کر کے ان کی دل جوئی کرنا ان کا اوّلین فرض ہے۔ اپنے پاس بیٹھے والدین کی بات کو سننا اور جواب دینا تو دور کی بات ہے، ایسے نظر انداز کردیں گے جیسے ان کے نزدیک بالکل فضول بات ہے۔
نوجوانوں کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ گھر کی کسی بھی ذمہ داری میں بھلے معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے، ماں جانے یا باپ۔ کھانا کھاتے ہوئے عجیب نظارہ پیش کرتے ہیں۔ کھانا کتنا پلیٹ میں ڈالنا ہے، کتنی ضرورت ہے اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ پلیٹ بھری کچھ کھایا اور باقی کھانے کی جگہ پر بکھیر کر اٹھ جاتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر عجیب منظر اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کسی دعوت، ضیافت اور شادی بیاہ کی تقریب میں ہوتے ہیں کھانے کا ایسا حشر کرتے ہیں جیسے جانور فصل اجاڑ گئے ہوں۔ کھانا پسند نہ آئے تو ناراضی کا اظہار برملا کرنا فرض سمجھتے ہیں۔گھر میں کوئی قابل مرمت کام یا بے سلیقہ پڑی چیز دیکھ لیں تو ان جان بن نظر انداز کر جاتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ذمہ داری تو باپ کی ہے اور صفائی ستھرائی یا ترتیب درست کرنا ماں کی ذمہ داری ہے۔ آج ہم اس طرح کے مناظر اکثر گھروں میں دیکھتے ہیں۔
افسوس! کہ ہم خود اپنے ہی ہاتھوں سے ایسے معذور نوجوان پروان چڑھا رہے ہیں۔ جنہوں نے میزبانی کا فریضہ سر انجام دینا ہے وہ اپنے ہی گھر میں مہمان بن کر رہ رہے ہیں۔ اتنا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کا کسی بھی کام یا ذمہ داری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ یہ نسل آگے چل کر اپنی ذمہ داریاں کیسے سنبھالے گی؟ یہ خاندانی نظام کو بہتر انداز میں کیسے چلا سکے گی؟ یہ مستقبل میں اپنے بچوں کو کیسے پروان چڑھائے گی؟ کسی کی خدمت یا کسی کی دیکھ بھال کرنا تو درکنار خود اپنے آپ کی دیکھ بھال کیسے کر پائے گی؟
نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسی تربیت کی اشد ضرورت ہے جو ان کو زندگی گزارنے کے سنہری اصولوں سے مزین کردے۔ بچپن ہی سے بچوں کو اچھے بول چال، قول وفعل میں یکسانیت، صفائی ستھرائی، چھوٹے بڑے کی پہچان، مہمان نوازی اور میزبانی کے طور طریقے سکھائے جائیں۔ ایسے آداب زندگی سکھائے جائیں کہ بچے اپنا کام خود کرسکیں۔ کھانا ضائع نہ کریں۔ کھانا کھا کر خود اپنا برتن صاف کریں۔
بچوں کو تربیت دی جائے کہ کتابوں کا بستہ خود اٹھائیں تاکہ ان کے اندر اپنا بوجھ خود اٹھانے کی عادت پڑ جائے حکومت کو بھی چاہیے کہ بچوں کے سکول بیگ کا بوجھ اتنا کم کردے کہ بچہ اپنا بیگ خود اٹھا سکے۔ اکثر بچوں کو دیکھ کر رحم آجاتا ہے جب سکول آتے جاتے وہ بھاری بیگ تلے دبے جارہے ہوتے ہیں۔ بعض تعلیمی اداروں نے تو کاپی کتاب کو بھی منافع بخش کاروبار سمجھ کر والدین پر مالی بوجھ اور بچوں پر ڈھیروں کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔حکومت اس پر سوچ وچار کررہی ہے کہ بچوں کے بستے کا بوجھ کم کیا جائے گا۔
بچوں کو مفید اور کارآمد شہری بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پرائمری لیول تک بچوں کے لئے صرف دو کتابیں ہونی چاہیے۔ ایک تعلیم القرآن اور دوسری کتاب جس میں اردو، انگریزی اور ریاضی کے بنیادی تصورات کے ساتھ جنرل نالج شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کی سرگرمیاں اور عملی کام بچوں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ اسی طرح بالائی سطح تک بامقصد نصاب شامل کیا جائے جو عملی زندگی سے متعلق مفید ہو، جو اسلام اور نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ ہو، جو بچوں کو حقیقت میں انسانیت کے مرتبے تک پہنچانے میں ممدو معاون ثابت ہو سکے۔ اخلاق سے عاری نصاب کا بے مقصد بوجھ بالکل نکال دیا جائے۔ ایسا نصاب تعلیم شامل کیا جائے جو بچوں میں ادب، احترام، محنت، جدوجہد اور مسلسل آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرے۔ انگریزی مضمون کو مشکل اور فہم فراست سے بالا تر سمجھتے ہوئے اکثر بچے تعلیم چھوڑ جاتے ہیں۔ انگریزی میں بے مقصد قصے کہانیوں کی بجائے روز مرہ بول چال کا بنیادی تصور بچوں کو سکھایا جائے۔ بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کرنے والے نصاب کو نکال کر عام فہم نصاب شامل کیا جائے تاکہ بچے تعلیم کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے لگن اور شوق سے تعلیم حاصل کریں۔ ایسا نصاب تعلیم شامل کیا جائے جو بچوں کے اندر اخلاقی قدروں کو پروان چڑھا سکے اور بچے اچھائی اور برائی کی پہچان کر کے زندگی گزار سکیں گے۔

جواب دیں

Back to top button