لمحہ فکریہ

ساجدہ صدیق
قوم پر انگریزی کو سات عشروں سے مسلط رکھنے کی بنا پر اگرچہ ہماری ذہنی مرعوبیت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ناخواندہ گھرانوں میں بھی شادی کے دعوت نامے انگریزی میں چھپوائے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں انتہائی تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی اس کاکوئی تصور نہیں تھا لیکن دوسری طرف قومی زبان کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر صرف فطری اسباب کی بنا پر اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ اس ملک میں ایک بھی انگریزی ٹی وی چینل نہیں چل سکا۔
ملک کے قدیم ترین انگریزی اخبار نے اپنے انگریزی چینل کو بہت جلد اردو چینل میں بدل دیا۔ انگریزی کے قریباً تمام اینکر اب اردو چینلوں میں میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ متعدد ممتاز انگریزی کالم نگار اب اردو اخبارات میں کالم لکھ رہے ہیں۔
حکمراں اپنے منصب کا حلف چاہے اردو میں پڑھنے سے گریز کریں مگر قوم سے خطاب اردو ہی میں کرنے پر مجبور ہیں۔ پارلیمان کی ساری کارروائی قومی زبان میں ہو رہی ہے۔ملک کے مختلف علاقوں کے لوگوں میں رابطے کا ذریعہ اردو ہی ہے۔اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بناکر ہم علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
تعلیمی انقلاب کے لئے ہمیں قومی زبان کو اسی طرح ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانا ہوگا جیسے جرمنی، فرانس، چین، جاپان، ملائیشیا، ترکی اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ہو رہا ہے۔ بلاشبہ بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے انگریزی سیکھنا مفیدہے لیکن اس کے لئے ہر مضمون انگریزی میں پڑھانا ہر گز ضروری نہیں،ایک مضمون کی حیثیت سے انگریزی کی معیاری تدریس کافی ہے۔ انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں علمی تحقیق اور ترقی کا جو کام دنیا میں ہورہا ہے، اس سے آگہی کے لئے اعلیٰ درجے کے دارالتراجم ملک کے اندر قائم کئے جانے چاہئیں۔
تمام ترقی یافتہ قومیں اس کا اہتمام کرتی ہیں جبکہ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ان کی اپنی ہی زبان میں دی جاتی ہے۔ اس لئے ان کے طلبہ و اساتذہ اور تحقیق و تجزیہ کار فطری طور پر اپنے خیالات کا کسی مشکل کے بغیر فوری اور بہتر انداز میں اظہار کرسکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکی ایٹم بموں کا ہدف بننے کے بعد جاپان زمیں بوس ہوگیا لیکن چند برسوں میں دوبارہ دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرا۔ یہ معجزہ جاپانی مدبروں کی جانب سے قومی تعلیم و تربیت کو اولین ترجیح اور ہر سطح پر قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانے کا نتیجہ تھا۔ ہم بھی یہ فیصلہ کرکے ایسے ہی حیرت انگیر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
اپنی زبان میں علم حاصل کرنے والے طالب علم امتحان پاس کرنے کے لئے جوابات رٹنے پر مجبور نہیں ہوتے بلکہ بات کو سمجھ کر اپنے خیال کا اظہار دس طرح سے کرسکتے ہیں۔ اجنبی زبان پر عبور حاصل کرنے میں خرچ ہونے والا وقت براہ راست علمی استعداد بڑھانے پر صرف ہوتا ہے لہٰذا تعلیمی انقلاب کے لئے قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانا سب سے بنیادی ضرورت ہے جو پچھلے سات عشروں میں فطری عمل کے ذریعے پورے ملک کی زبان بن گئی ہے اور فروغ علم کے تمام تقاضوں کی تکمیل کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ قدم اٹھالیا جائے تو پاکستان میں سو فی صد تعلیم کا خواب بہت جلد شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔اب آتے دوسرے پہلو کی طرف کہ قومیں ترقی یافتہ اور مضبوط کیسے بنتی ہیں۔اندازہ کیجیے؟ایک شخص GREE ACکی ٹھنڈک سے سو کرصبح SEIKO کے الارم سے اٹھتا ہے،COLGATEسے برش کرتا ہے GILLETEکریم سے شیو کرکے لکس صابن اور ڈوّو شیمپو سے نہاتا ہے اور نہانے کے بعد لیوزکی پینٹ ،پولو کی شرٹ اورGUCC کے شوز Jocky کے جراب پہن لیتا ہے چہرے پر Neviaکی کریم لگا کرNestlé foodسے ناشتہ کرنے کے بعدRaybanکا چشمہ لگا کر HONDA’ کی گاڑی میں بیٹھ کر کام پر چلا جاتا ہے۔راستے میں ایک جگہ سگنل بند ہوتا ہے وہ جیب سےآئی فون 11 نکالتا ہے اورزونگ پر 4G internet چلانا شروع کر دیتا ہے اتنے میں سبز بتی جلتی ہے آفس پہنچ کر HP کے کمپیوٹر میں کام میں مشغول ہو جاتا ہے کافی دیر کام کرنے کے بعد اسے بھوک محسوس ہوتی ہے توMcDonald’s سے کھانا اور ساتھ میں Nestlé کا پانی بھی منگواتا ہے۔کھانے کے بعد Nescaffe کی کافی پیتا ہے اور پھر تھوڑا آرام کرنے چلا جاتا ہے کچھ آرام کے بعدRed Bull’ پیتا ہے اور دوبارہ کام میں مشغول ہو جاتا ہے تھوڑی بوریت محسوس ہونے پہ جیب سے Apple کےi-podsنکال کے انڈین گانے سنتا ہے ساتھ ہیTCS سے ایک پارسل بیرون ملک بھیجواتا ہے اورPANASONIC کے لینڈ لائن سے اطلاع کرتا ہے۔ اورPARKERکے Pen سے ایک نوٹ لکھتا ہے۔کچھ دیر بعدROLEXکی گھڑی میں ٹائم دیکھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ واپسی کا وقت ہو گیا ہے تو وہ دوبارہHONDAکی گاڑی سٹارٹ کرتا ہے اور گھر کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔
کچھ ہی لمحے بعد Shell کا پیٹرول پمپ آ جاتا ہے وہاں سے ٹنکی فل کرواتا ہے اور HYPER STARکا رخ کر لیتا ہے سٹور سے بچوں کے لئے ‘میگی اور کنور کے نوڈلزCADBARY KIT KAT اور SNIKERS اورNestleکے مہنگے جوس وغیرہ خرید لیتا ہے سپر سٹور کے ساتھ ہی PIZZA HUTTسے وہ بیوی بچوں کے لئے پیزا اورKFC سے برگرز کی ڈیل بھی خرید لیتا ہے۔گھر جا کر کھانا کھانے کے بعد سب گھر والے SONY کے Led پر مشہور زمانہ NewsChannel پر مایوسی والی خبریں سن رہے ہوتے ہیں اور ہاتھ میںCokeکے گلاس پکڑے ہوتے ہیں کہ خبر آتی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر بمباری کی یہ سن کر وہ آگ بگولہ ہو جاتا ہے اور اونچی آواز میں بولتا ہے!!!
اسرائیل اتنا طاقتور کیسے ہوگیا؟یہی لمحہ فکریہ ہے اور سوچنے کی ہیں کہ قومیں مضبوط کیسے بنتی ہیں۔ہم وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر واقعی ہی یہود شرما جاتے ہیں۔