آج کے کالممحمد انور گریوال

ابوبکرؓ و عمرؓ کی مثالیں اور اپنے حکمران!

انور گریوال

کتاب کوئی بھی ہو، مطالعہ کے لئے تخلیہ مانگتی ہے، اگر معاملہ ابوالکلام آزاد کی کسی کتاب کا ہو تو خلوت لازم قرار پاتی ہے، کہ اُن کی تحریر کو مزے لے لے کر پڑھنے کے لئے بھی ماحول درکار ہے، بسا اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ لُغَت کی مدد کے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتا۔ اور جب کتاب بھی ایسی ہو جس میں دنیا کی عظیم ترین ہستیوں کے آخری لمحات کی روداد بیان کی گئی ہو تو تنہائی واجب ہو جاتی ہے، کہ لمحہ لمحہ آنسو پلکوں پر دستک ہی نہیں دیتے، بلکہ آبِ رواں کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں، پھوٹ پھوٹ کر رونے کے مقامات سے بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی کتاب کے مطالعہ کے لئے گھر کا کوئی گوشہ عافیت تلاش کیا جاتا ہے، جہاں مطالعہ کے دوران کوئی فرد اُن مقدّس ہستیوں اور قاری کے درمیان حائل نہ ہونے پائے،تاکہ پڑھنے والا عقیدت سے سرشار ہو کر اپنے دل کا غبار نکال سکے۔
اپنے ہاں سیاسی قائدین کے لئے جب خلفائے راشدین یا پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کی مثال دی جاتی ہے، تو بہت سے لوگ ناک بھوں چڑھاتے ہیں، جب سے سوشل میڈیا کی سہولت کا عذاب نازل ہوا ہے، ہر فرد ہی تاریخ دان، سیاستدان، دانشور اور مفتی وغیرہ کے منصب پر فائز ہو چکا ہے۔ کسی حق و سچ پر مبنی پوسٹ پر بھی منفی تبصرہ سے گریز نہیں کیا جاتا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ زمانہ اور تھا، غربت تھی، معاشی حالات دگرگوں تھے، تہذیب نہ ہونے کے برابر تھی، پسماندگی تھی، ترقی نے ابھی اپنا سفر شروع نہیں کیا تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں، وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا حالات کا تقاضا ہے، دنیا کا سامنا کرنے کے لئے دنیا کا ہی روپ اپنانا پڑتا ہے۔
آئیے چند جھلکیاں اُ ن عظیم ترین ہستیوں کی دیکھیں، اور دنیا کی بے ثباتی پر کچھ غور کریں؛ کوئی شک نہیں کہ رسولِ کریمﷺ کے اُسوہ حسنہ پر عمل ہمارے لئے فرضِ عین ہے، تاہم یہ خیال بھی دل و دماغ میں موجود رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک نبی کی طاقت و توکل کا مقابلہ کوئی مضبوط سے مضبوط انسان بھی نہیں کر سکتا۔ وصالِ نبویﷺ کے وقت گھر میں کُل سات دینار تھے، حضرت عائشہؓ سے فرمایا ’’انہیں غریبوں میں تقسیم کر دو، مجھے شرم آتی ہے کہ رسول اپنے اللہ سے ملے اور اُس کے گھر میں دولتِ دنیا پڑی ہو‘‘۔ یہاں ہم صرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا مختصراً ذکر کریں گے، جنہوںنے مسندِ خلافت پر بیٹھتے ہوئے کیا کہا اور جب دستبردار ہوئے تو اُن کے پاس کس قدر اثاثہ جات تھے۔ انہوںنے سرکاری خزانے کو اپنی ذات پر کس طرح استعمال کیا۔
حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی زندگی کے آخری لمحات آئے تو آپ نے اپنی خلافت کے زمانہ کا حساب طلب کیا کہ اُن کی ذات پر کتنا خرچ ہوا؟ کوئی چھ ہزار درہم کا اندازہ لگایا گیا، فوری طور پر اُن کی زمین فروخت کرکے وہ حساب بے باک کیا گیا۔ پھر خلافت کے زمانہ کے اثاثہ جات میں اضافے کا حساب ہوا، معلوم ہوا ایک غلام، ایک اونٹنی اور تیسرا اضافہ ایک چادر تھی، وصیّت فرمائی کہ میری وفات کے بعد یہ تینوں چیزیں آنے والے خلیفہ کے حوالے کر دی جائیں۔ ہمارے پاکستانی حکمران یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے سوا دو سال کی خلافت کے دوران ایک مزدور جتنی تنخواہ ہی وصول کی تھی۔ جب ایک مرتبہ گھر میں سویٹ ڈش پیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ خاتونِ خانہ نے کچھ بچت کرکے یہ ڈش بنائی ہے، تو فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تنخواہ ہماری ضرورت سے زیادہ ہے۔
حضرت عمرؓ نے مسندِ خلافت پر بیٹھتے ہی لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور فرمایا؛ مجھے تمہارے مال میںاُس قدر حق ہے جس قدر یتیم کے سرپرست کو یتیم کے مال پر ہوتا ہے، اگر میں دولت مند ہوا تو معاوضہ نہیں لوں گا، تہی دست ہوا تو صرف کھانے پینے کا خرچ لوں گا، پھر بھی مجھ سے برابر باز پرس کرتے رہنا۔۔‘‘ شہنشاہِ ایران کے دو صوبوں کے گورنر نے اس شرط پر مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈالے کہ وہ اسے صحیح سلامت مدینہ لے چلیں گے، شرط پوری کی گئی، جب وہ گورنر پوری شان وشوکت کے ساتھ لباسِ فاخرہ زیبِ تن کرکے مدینہ پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ خلیفہ وقت مسجد نبویﷺ کے صحن میں فرش پر سوئے ہوئے تھے۔ ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے یہ واقعہ بھی یقیناً سن رکھا ہوگا جب خلیفہ دوم خطبہ دے رہے تھے تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر اعتراض کیا تھا کہ سب کو ایک ایک چادر مالِ غنیمت سے ملی ہے، آپ کو دو کیسے مل گئیں؟ یہ بھی پاکستانی مقتدرہ جانتی ہوگی کہ انہوںنے غصہ نہیں کیا بلکہ اپنے بیٹے کو بطور گواہ پیش کیا کہ انہوں نے مجھے اپنا حصہ دے دیا ہے۔
اب ابوبکرؓ و عمرؓ کی مثالیں ہمارے حکمرانوں اور اُن کے حامیوں کوناقابلِ عمل اور گزرے زمانے کی داستانیں لگتی ہیںتو چلیں مغربی دنیا کی مثالیں ہی دیکھ لیں، وہاں تو پاکستانی حکمران جاتے رہتے ہیں، پاکستان اُن سے بھیک مانگتا ہے ، ہم اپنی عیاشیوں کا اُن کے اخراجات سے موازنہ کر سکتے ہیں۔اپنی حکومتی عیاشی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ حکمرانوں کے آتے ہوئے اثاثے کچھ ہوتے ہیں اور جاتے ہوئے کئی گنا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے، اگر محاسبہ ہوتا ہے تو صرف سیاسی مخالفت کی حد تک۔ مراعات اور عیاشی میں کی جانے والی لوٹ مار کو حق سمجھا جاتا ہے۔ مغربی ممالک کے حکمران تو مسلمان بھی نہیں، وہ اسلام کے سنہری اصولوں پر کاربند ہیں، ہم صرف اسلام کا نام لے کر تصور کرلیتے ہیں کہ جنت واجب ہو گئی۔ کیا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو پروٹوکول اور عیاشی کا ساماں میسر نہ تھا، بلکہ جب دوسرے ممالک کے سفیر شان و شوکت سے آتے اور حضرت عمرؓ پیوند لگے کپڑوں کے ساتھ انہیں ملتے تو مسلمان اکابرین انہیں اچھے لباس اور بہتر صورتِ حال اختیار کرنے کا مشورہ دیتے، مگر حضرت عمرؓ کا جواب ہوتا تھا کہ ہمیں عزت اسلام کی وجہ سے ملی ہے، اچھے لباس سے نہیں۔
ہمارا مشورہ ہے کہ ہمارے حکمران کچھ وقت نکال کر اکابرینِ اسلام کی زندگیوں کا مطالعہ بھی کرلیں، کہ زندگی عارضی ہے، عیاشی کے نام پر دوسروں کا حق کھانا بظاہر ظلم دکھائی نہیں دیتا، مگر اِس لوٹ مار کا حساب تو دینا پڑے گا۔ اگر اسلام کے پھیلائو کے وقت حکمران اِس قدر سادہ تھے تو اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عیاشیاں اُن کی دسترس میں نہیں تھیں، بلکہ وہ خود عیاشی کو بہت بڑی برائی اور لعنت سمجھتے تھے، حالانکہ اُن کے سامنے دیگر ممالک کے سفیر بھی اُن سے بہت اچھی پوزیشن میں آتے تھے۔ اب بدقسمتی سے اپنے حکمران اگلوں پچھلوں سے بے خبر لوٹ مار پر کاربند ہیں، عیاشیوں اور مراعات سے اُن کا دھیان اِدھر اُدھر جاتا ہی نہیں، کوئی کتاب کیا پڑھیں گے، ملک اور عوام کے لئے کچھ اچھا کیا سوچیں گے؟

جواب دیں

Back to top button