موٹر وے ایم فورکے کچھ مسائل!
انور گریوال
گزشتہ روز مجھے اہلِ خانہ کے ساتھ موٹر وے پر سفر کرنے کا موقع ملا، یہ سفر ملتان سے گوجرہ تک کا تھا۔ موٹر وے کے اِس حصے کو M4کا نام دیا گیا ہے۔ موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے واقعی مسافرکر تھکان اُتر جاتی ہے۔ کھیت کھلیان کی تو بات ہی کیا ، مکانوں کی چھتوں اور درختوں کی سطح کے برابر سفر کرتے ہوئے ایسا ہی لگتا ہے کہ انسان اُڑتا ہی جارہا ہے۔ اطراف کے مناظر دل کو بھاتے اور طبیعت کو لبھاتے ہیں۔ شاید وہ وقت دور نہیں جب پشاور سے کراچی تک موٹر وے موجود ہواور مسافروں کی سہولت کا سامان بنے۔ موٹر وے کو ملکی ترقی کی ایک علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔میرا یہ سفر اگرچہ پہلا نہیں تھا، تاہم ہر مرتبہ اِسی قسم کے رونے پیٹنے سے واسطہ رہتا ہے۔
میرے اِس سفر کی سب سے بڑی اور پہلی محرومی اور بے بسی یہ تھی اور ہے کہ بہاول پور جیسے تاریخی اور پاکستان کے مُحسن شہر کو موٹر وے سے بہت دور رکھا گیا ہے۔ بہاول پور والوں نے اگر لاہور جانا ہے، تو ملتان یا خانیوال تک آنا ہوگا ، جن کا سفر بالترتیب 85اور 120کلومیٹر ہے۔ اگر کراچی کی طرف سفر کریں گے تو ساٹھ کلومیٹر فاصلہ تھا، جسے بہت سے پِٹ سیاپے کے بعد اب ایک نئی سڑک کے ذریعے کم کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ خانیوال سے ملتان کی بجائے اِس موٹر وے کیلئے براستہ دنیا پور، لودھراں اور بہاول پور وغیرہ کا سروے ہو چکا تھا، مگر تب یوسف رضا گیلانی کے پائوں تلے وزاتِ عظمیٰ کا بٹیرہ آیا ہوا تھا، انہوںنے اس کا رُخ ملتان اور جلال پور پیر والہ کی طرف موڑ دیا۔ اب اِس موٹر وے کی خوبی یہ ہے کہ یہ تمام بڑے اور قابلِ ذکر شہروں سے بچتی بچاتی سکھر تک جا نکلتی ہے۔
ملتان سے موٹر وے دو لین میں ہے، یعنی برابر دو ہی گاڑیاں سفر کر سکتی ہیں، اگر ایک گاڑی دوسری کو کراس کر رہی ہے تو پیچھے سے آنے والی کو صبر کے گھونٹ بھرنا ہوں گے، مگر اپنے ہاں یہی چلن ہے کہ صبر کے علاوہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ ایک سڑک پر ٹرک رواں دواں ہے، اور ایک سڑک پر تیز رفتار گاڑیاں فراٹے بھرتی ہوئی جارہی ہیں۔ اگر میرے جیسا کمزور ڈرائیور اور چھوٹی گاڑی والا مسافر ہے، تو ظاہر ہے وہ ٹرک کراس کرکے فوراً نچلی لین پر آئے گا، اب اِس نے بھی اگلے ٹرک کو کراس کرنا ہے اور پیچھے سے تیز رفتار گاڑی بھی لائیٹیں مارتی ہوئی آرہی ہے، یقیناً ٹرک کے پیچھے بریک لگانا پڑے گی، تاکہ تیزی سے آتی ہوئی گاڑی کی رفتار میں خلل نہ پڑے۔ اکثر گاڑیوں والے ٹرک کراسنگ کے دوران ہی اس قدر بے چین ہوتے ہیں کہ کراسنگ کرنے والی گاڑی کا انتظار کرنے کی بجائے مسلسل لائیٹیں مارتے رہیں گے۔ اگر کہیں ٹرک ہی ٹرک کو کراس کر رہا ہے تو پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کو بریک لگائے بنا کو ئی چارہ نہیں۔ یہ منظر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بیک وقت کئی گاڑیوں کو بریک لگانا پڑی اور کئی منچلے تو آئو دیکھتے ہیں نہ تائو نیچے سے یعنی غلط سائیڈ سے گاڑی بھگا لے جاتے ہیں۔
اِتنے سے سفر میں اگر آٹھ دس مرتبہ گاڑی کی بریک لگانا پڑے اور دو چار دفعہ لوگ نیچے سے گاڑی کراس کر جائیں اور چار چھ مرتبہ ٹرکوں کے پیچھے کئی گاڑیوں کو بریک لگانے کی نوبت آجائے تو سوچا جا سکتا ہے کہ آنے والے سالوں میںیہاں کیا حشر ہوگا ؟ میں مسلسل یہ بریکیں اور وارداتیں دیکھ کر یہ سوچنے لگا کہ ہمارے جیسے عام آدمی کو اس بات کی سمجھ آتی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے کو کم ازکم تیس سال آگے تو دیکھا جاتا، کیا ہماری حکومتوں یا انجینئروں کو سڑک بناتے وقت اس بات کا خیال کبھی نہیں آیا؟ چند برس بعد تو یہاں برابر بریکیں لگتی رہیں گی ، سفر مشکل، تکلیف دہ اور مایوس کن ہو گا، مجموعی رفتار کم ہو جائے گی، موٹر وے سے صحیح معانوں میں لطف اندوز نہیں ہوا جائے گا۔ جب کبھی اِس سڑک کی تیسری لین بنائی جائے گی تو کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ خرچ کس قدر بڑھ چکا ہو گا، دسیوں فٹ تک بلند بھرتی ڈالی جائے گی، جنگلے توڑ کر کوڑیوں کے بھائو ٹھیکیداروں کو جھونگے میں دے دیئے جائیں گے، نئے سرے سے اربوں روپے خرچ ہوں گے۔
مجھے راستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے کی وجہ سے تبدیل کرنا پڑا، جس کیلئے مجھے موٹر وے پولیس کی مدد کی ضرورت بھی پیش آئی۔ تین مرتبہ کال کرنا پڑی، پہلی ناکام ہوجانے والی دو کالوں کا دورانیہ دس منٹ چار سیکنڈ کا تھا ، پھر دو منٹ موٹر وے والوں کو میری شناخت ، مسئلہ اور جگہ سمجھنے میں لگے، اور مزید تین منٹ انہیں مدد کیلئے پہنچنے میں ۔ یقیناً اُن کا پہنچ جانا گزشتہ بارہ منٹ کی کوفت کو ختم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوا، مگر میں یہ سوچنے پر مجبور بھی ہوا کہ اگر کسی کو واقعی ہنگامی اور مشکل صورت حال کا سامنا ہو تو یہ پانچ پانچ منٹ کی کالوں میں اشتہار سناتے رہیں گے، ایمرجنسی کا کیا ہوگا؟ خیر بہت اچھا ہوا کہ ایک اہلکار آیا اور اُس نے ٹائر تبدیل کرکے شکریہ کا موقع فراہم کیا۔ قریباً پچاس پچپن منٹ بعد بھی دو کالیں آئیں ، یہ رابطہ موٹر وے ورکشاپ کی طرف سے تھا۔
بہاول پور سے آتے ہوئے ملتان کے شاہ شمس انٹر چینج پر موٹر وے پر چڑھتے ہیں، ٹول ٹیکس کے مقام پر اُداسی اور ویرانی کے ڈیرے ہیں، نہ سبزہ، نہ پودا ، نہ درخت ۔ اللہ کے بندو اِس قدر جگہ فالتو پڑی ہوئی ہے، کچھ پودے لگا دیں، کچھ پھلواریاں ہو جائیں، کچھ خوبصورتی میں اضافہ ہو جائے گا، کچھ آلودگی کم ہو جائے گی۔ ابتدائی مقامات کو تو چھوڑیئے، موٹر وے کے دونوں اطراف میں بیسیوں فٹ جگہ خالی چھوڑی گئی ہے، جو آنے والی صدیوں میں سڑک بنانے کے کام آئے گی، مگر مجال ہے کہ کسی حکومت کو یہ خیال آجائے کہ یہاں درخت لگا دیئے جائیں، جو آنے والے سالوں میں نہ صرف ماحول کو خوبصورت بنانے کے کام آئیں گے، بلکہ کچھ سال بعد اِ ن کی لکڑی فروخت کر کے بہت زیادہ آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے، یہاں لاکھوں نہیں کروڑوں درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ حیرت ہے حکومتیں شجر کاری کی بے نتیجہ سرگرمیاں کرتی اور اپنے نمبر ٹانکتی ہیں، مگر جہاں حقیقی معانوں میں ضرورت بھی ہے، موقع بھی ہے وہاں اُن کا دھیان نہیں جاتا؟ موٹر وے کی کتنی لین ہونی چاہیئں ، پودے اور درخت موٹر وے پر کب اور کتنے لگانے ہیں، یہ حکومتوں اور اُس کے ماہرین کا کام ہے، مسافروں کا کام دھکے دھوڑے کھانا اور تنقید کرنا ہے وہ اپنا کام کرتے جائیں۔